جوڑے پر تشدد کا کیس، متاثرہ لڑکی کے عدالت میں حیران کن بیانات

ملزمان میں سے کسی کو نہیں جانتی،کسی سے کوئی پیسہ نہیں لیا،ویڈیو وائرل ہونے کے بعد میرا اور متاثرہ لڑکے کا نکاح ہوا، کمرے میں نظر آنے والی لڑکی کو میں نہیں جانتی،دنیا میں 7 چہروں کے لوگ ایک طرح کے ہوتے ہیں۔متاثرہ لڑکی کا بیان

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان بدھ 19 جنوری 2022 16:54

جوڑے پر تشدد کا کیس، متاثرہ لڑکی کے عدالت میں حیران کن بیانات
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین ۔ 19 جنوری 2022ء ) وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں عثمان مرزا کی جانب سے لڑکا لڑکی پر جنسی تشدد کیس کی سماعت ہوئی۔ اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے عثمان مرزا کی جانب سے لڑکا لڑکی پر جنسی تشدد کیس کی سماعت کی جہاں منحرف ہونے والے متاثرہ لڑکا لڑکی عدالت میں پیش ہوئے کیوں کہ ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی طرف سے دونوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔

سماعت کے دوران فاضل جج نے ملزمان کی 6 جولائی کو وائرل ہونے والی ویڈیو بند کمرے میں چلانے کا فیصلہ کیا اور سماعت ان کیمرہ ڈیکلیئر کردی ، جس کے باعث کمرہ عدالت سے غیر متعلقہ افراد اور صحافیوں کو باہر نکال دیا گیا ، متاثرہ لڑکی نے عدالت میں بیان دیا ہے کہ ملزمان میں سے کسی کو نہیں جانتی۔

(جاری ہے)

وکیل نے متاثرہ لڑکی پر جرح کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے عدالت میں بیان دینے کے لیے عمر بلال سے ایک لاکھ روپے لیے؟۔

متاثرہ لڑکی نے کہا نہیں میں نے کسی سے کوئی پیسہ نہیں لیا۔پہلے بھی بتا چکی ہوں کہ پولیس نے مجھ سے سفید کاغذ پر دستخط کرائے تھے اور انگوٹھا لگوایا، میرا نکاح متاثرہ لڑکے سے ہوا جس کی مجھے تاریخ یاد نہیں۔ویڈیو وائرل ہونے کے بعد میرا اور متاثرہ لڑکے کا نکاح ہوا تھا۔نہیں معلوم ایف آئی اے کے ماہرین نے وائرل ویڈیو کو اصل قرار دیا تھا، میری کبھی آئی جی اسلام آباد اور کسی بھی پولیس افسر سے ملاقات نہیں ہوئی۔

وکیل نے جرح کرتے ہوئے سوال کیا کہ ایف آئی اے کا عملہ کہتا ہے کہ ویڈیو میں آواز اور موجودگی آپ کی ہے جس پر متاثرہ لڑکی نے کہا دنیا میں 7 چہروں کے لوگ ایک طرح کے ہوتے ہیں،کمرے میں نظر آنے والی لڑکی کو میں نہیں جانتی نہ ہی وائرل ویڈیو دیکھی ہے۔دوران سماعت مثاثرہ لڑکے اسد کے بیان پر پراسکیوٹر رانا حسن عباس نے جرح کی۔ جرح کے دوران منحرف گواہ اور متاثرہ لڑکے اسد نے عدالت کو بتایا کہ میری تعلیم انٹر ہے ، اس وقت کوئی کام بھی نہیں کرتا تاہم جب یہ واقعہ ہوا میں پراپرٹی کا کام کرتا تھا کیس شروع ہوا تو پراپرٹی کا کام چھوڑ دیا ، جس کی وجہ سے میرے مالی معاملات بہت خراب ہیں اور والدین میرا خرچہ چلا رہے ہیں ، مقدمہ کے اندراج کے بعد تھانہ گولڑہ میں 4 سے 5 دفعہ گیا ، 8 جولائی کو میں نے بیان ریکارڈ نہیں کرایا بلکہ صرف سادہ پیپر پر مجھ سے انسپکٹر شفقت نے دستخط لیے۔

اس موقع پر پبلک پراسیکیوٹر نے کہا کہ بیان حلفی میں آپ کہتے ہیں ویڈیو میں نظر آنے والے وہ ملزمان نہیں ہیں ، کیا آپ کو واقعہ یاد ہے؟ کیا آپ بتا سکتے ہیں اس دن کیا ہوا تھا؟ ، اس پر متاثرہ لڑکے اسد نے کہا کہ جی مجھے وہ واقعہ یاد ہے لیکن ابھی میں اس واقعے کی تفصیل نہیں بتا سکتا اور نہ ہی مجھے یاد ہے کہ میں نے اور سندس نے اس روز کس رنگ کی شرٹ پہن رکھی تھی ، بعد ازاں پراسکیوٹر رانا حسن عباس نے متاثرہ لڑکی پر بھی ان کیمرہ عدالتی کارروائی کے دوران ہی جرح مکمل کی ، جس کے بعد سماعت ملتوی کردی گئی۔