قندیل بلوچ قتل کیس میں قاتل کی رہائی کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا

لاہور ہائیکورٹ نے حقائق کا درست جائزہ نہیں لیا ،لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ قانون کی نظر میں برقرار نہیں رکھا جا سکتا اس لیے قندیل بلوچ کے قاتل کی بریت کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔درخواست میں موقف

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان پیر 28 فروری 2022 17:17

قندیل بلوچ قتل کیس میں قاتل کی رہائی کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر ..
لاہور ((اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 28 فروری 2022ء) :قندیل بلوچ کے قاتل کی بریت کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی گئی۔قندیل بلوچ کے قاتل اور اس کے بھائی وسیم کو والدہ کی جانب سے معاف کرنے کے بعد عدالت نے بری کر دیا تھا تاہم اب وسیم کی بریت کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔درخواست عثمان خالد بٹ نامی شہری نے دائر کی جس میں پنجاب حکومت کو بذریعہ پراسیکیوٹر جنرل فریق بنایا گیا۔

درخواست آئین کے آرٹیکل 184 تھری کے تحت دائر کی گئی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ لاہور ہائیکورٹ نے حقائق کا درست جائزہ نہیں لیا ،لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ قانون کی نظر میں برقرار نہیں رکھا جا سکتا اس لیے قندیل بلوچ کے قاتل کی بریت کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے ملتان بینچ نے قندیل بلوچ کے قتل کیس میں نامزد مقتولہ کے بھائی اور کیس کے مرکزی ملزم وسیم کو بری کر دیا تھا۔

(جاری ہے)

ماڈل گرل قندیل بلوچ کو 15 جولائی 2016ء کو مظفرآباد میں غیرت کے نام پر قتل کیا گیا تھا، قندیل کی لاش گھر سے ملی تھی جس کے بعد اس کے بھائی محمد وسیم کو گرفتار کیا گیا، ملزم کو 27 ستمبر 2019ء کو ملتان کی ماڈل کورٹ نے عمر قید سنائی تھی۔قندیل بلوچ کے والد عظیم کی جانب سے عدالت میں درخواست دائر کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ہم نے اللہ کی رضا کی خاطر اپنے بیٹوں کو معاف کر دیا ہے لہٰذا عدالت بھی اسے معاف کردے۔

لاہورہائیکورٹ ملتان بینچ نے قندیل بلوچ قتل کیس کے مرکزی ملزم کو بری کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے ملزم وسیم کی مقدمے کے مدعی قندیل بلوچ کے والد سے صلح تسلیم کی لیکن غیرت کے نام پر قتل کی دفعات کے تحت صلح رد کرکے عمر قید کی سزا دی گئی۔عدالت کے تحریری فیصلے میں لکھا گیا کہ ٹرائل کورٹ نے ملزم وسیم کی مقدمے کے مدعی قندیل بلوچ کے والد سے صلح تسلیم کی لیکن غیرت کے نام پر قتل کی دفعات کے تحت صلح رد کرکے عمر قید کی سزا دی گئی۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ بلا شبہ ملزم نے اپنے اقبالی بیان میں قتل کا اعتراف کیا کہ اس نے تصاویر اور ویڈیو کی بنا پراپنی بہن کو قتل کیا لیکن ملزم کے صرف اس بیان کے حصے پر یہ نہیں کہہ سکتے کے یہ غیرت کے نام پر قتل تھا۔ تحریری فیصلے میں مزید کہا گیا کہ وسیم کے اقبالی بیان کے وقت کچھ قانونی غلطیاں ہوئیں جس کے باعث اس کے بیان کی حیثیت ایک کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں۔