‌بزرگ خواتین کی آزادی کہاں ہے؟

DW ڈی ڈبلیو ہفتہ 21 مئی 2022 11:40

‌بزرگ خواتین کی آزادی کہاں ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 مئی 2022ء) یعنی میں اور مجھ جیسی دیگر نوجوان خواتین۔ ہم نے پڑھنا بھی ہے۔ اپنے معاش کا بندوبست بھی کرنا ہے۔ خود کو جذباتی اعتبار سے مضبوط بھی کرنا ہے۔ اپنے حقوق کو جاننا ہے اور ان سے کسی بھی صورت دستبردار نہ ہونے کی کوشش بھی کرنی ہے۔

ہمارا یہ سفر آسان نہیں ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔

کسی کو کم تو کسی کو زیادہ۔ بدلے میں ہمیں وہ حقوق حاصل ہوتے ہیں جو ہم سے پہلے کی عورتیں ہمارے لیے اس ملک کے آئین میں شامل کروا چکی ہیں۔

لیکن ان خواتین کا کیا جو اپنی زندگیوں کا ایک بڑا حصہ گزار چکی ہیں۔ ان میں سے جنہیں پڑھنے کی اجازت ملی انہوں نے پڑھائی کی۔ جنہیں گھر سے باہر کام کرنے کی اجازت ملی انہوں نے گھر سے باہر جا کر کام کیا۔

(جاری ہے)

جنہیں اپنے پسند کے ساتھ سے شادی کرنے کی اجازت ملی، انہوں نے اس سے شادی کی اور اس کے ساتھ اپنی شادی شدہ زندگی کی شروعات کی۔

جن کے گھر خواتین کی تربیت بارے سخت ماحول تھا انہیں بھی کسی نہ کسی طرح زندگی کے یہ تمام مراحل طے کروائے گئے۔ اس کے بعد انہیں گھر کے سب سے بڑے کمرے میں ایک مسہری پر زندگی بھر کی تھکن اتارنے کے لیے بٹھا دیا گیا۔

اب حال کچھ ایسا ہے کہ یہ گھر کی سربراہ ہیں۔ گھر میں سب کچھ ان کی مرضی سے ہوتا ہے۔ تمام گھر والے روزانہ ان کے حضور پیش ہوتے ہیں اور ان سے باتیں کرتے ہیں۔ کھانا بھی ان کے کمرے میں کھایا جاتا ہے۔ فون بھی ان کے سرہانے پڑا ہوتا ہے۔ گھر مہمان آئیں تو انہیں مہمان خانے کی بجائے ان کے کمرے میں ہی بٹھایا جاتا ہے۔

ایسی ایک خاتون ہم سب کے گھر میں ہوتی ہیں۔

ہم اپنے تئیں انہیں ایک ان تھک اور مشکل زندگی گزارنے کے بعد انہیں وہ سب دے رہے ہوتے ہیں جو ہم نے زندگی میں انہیں ملتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اختیار۔ عزت۔ آرام۔

لیکن کیا ان کے پاس واقعی اختیار ہوتا ہے؟ کیا ہمارا ان کے ساتھ یہ سلوک عزت کے زمرے میں آتا ہے؟ کیا ہمارا انہیں ایک مسہری تک محدود کرنا ان کی زندگی بھر کی تھکن اور مشکلات کا مداوا کر سکتا ہے؟

بالکل نہیں۔

ان کی زندگی کا سنہرا دور گزر چکا۔ انہیں یہ اختیار، عزت اور آرام اس وقت چاہیے تھا، ایک توازن کے ساتھ۔ تب ان میں سے کچھ نہیں ملا، اب زبردستی دیا جا رہا ہے۔

پدرشاہی کے ہاتھوں زندگی بھر پسنے کے بعد انہیں یہ سب اچھا بھی لگتا ہے۔ لیکن جب وہ اپنے سے آدھی عمر کی خواتین کو مزے سے پرس اٹھائے گھر سے باہر جاتے ہوئے دیکھتی ہیں تو ان کے دل میں بھی اپنی مرضی سے باہر جا کر کچھ وقت گزارنے کا دل کرتا ہے۔

ان کے اختیار میں تو اتنا بھی نہیں ہے۔ یہ کہیں جانا بھی چاہیں تو انہیں پہلے تو کسی کے دستیاب ہونے کی یقین دہانی کرنی ہوگی۔ کوئی بہانہ تلاش کرنا ہوگا۔ کسی کی پیدائش تو کسی کی مرگ۔ یہ تو چلو قدرت کے معاملات ہیں۔ ہوئے تو ہوئے، نہ ہوئے تو نہ ہوئے۔ اس صورت میں دل کی گھبراہٹ ان کا بہانہ بن جاتا ہے۔ پھر یہ مکمل احترام کے ساتھ باہر لے جائی جاتی ہے۔

کہاں جائیں گے؟ کیسے جائیں گے؟ کب جائیں گے؟ وہاں جا کر کیا ہوگا؟ یہ سب فیصلے ان کے ساتھ جانے والے کرتے ہیں۔

زندگی اپنی مرضی سے اپنی خوشی کے لیے جینے کا نام ہے۔ پدرشاہی عورت کو بتاتی ہے کہ اس کی زندگی ایک گھر بنانے اور اس گھر میں موجود مکینوں کی دیکھ بھال میں ہے۔ اس کا اپنا آپ معنی نہیں رکھتا۔ باقی خوش تو وہ خوش۔

ہم عورتیں پوری زندگی اپنی خوشی ہی جان نہیں پاتیں۔

دوسروں کو زندگی سے اپنے لیے خوشیاں حاصل کرتا ہوا دیکھتی ہیں تو اسی میں خوش ہو جاتی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب ہمیں اپنے ہی گھر میں سربراہ کا رتبہ حاصل ہوتا ہے ہم تب بھی اپنی زندگی اپنی مرضی سے نہیں گزار سکتیں۔

معاشرتی ڈھانچا بھی ہمیں گھر سے باہر جانے اور اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ جن کی سماجی حیثیت زیادہ ہو وہ اپنی مرضی سے مختلف سرگرمیوں میں شمولیت اختیار کر لیتی ہیں لیکن ایک عام عورت کے پاس ایسا کوئی آپشن موجود نہیں۔

اس کے پاس واحد آپشن اپنی مسہری پر بیٹھ کر اپنے گھر والوں کو ’آج گھر میں کیا کیا ہوگا؟‘ ہی بتانا رہ جاتا ہے۔

ہمیں اپنی خواتین کو اس مشکل فیز سے باہر نکالنا ہے۔ انہیں ان کی زندگی ان کی مرضی سے گزارنے دیں۔ وہ اگر کچھ کرنا چاہیں تو ان کا ساتھ دیں نہ کہ عزت اور آرام کے نام پر انہیں اس کام سے ہی روک دیں۔
حکومت کو بھی چاہیے کہ اس عمر کی خواتین کو ان کے گھروں سے باہر مختلف سہولتیں فراہم کرے۔

ان کے لیے مخصوص پارکس بنائے جائیں۔ سوشل سرکل یا بیٹھکیں بنائے جائیں، جہاں وہ ایک دوسرے سے مل سکیں اور نئے دوست بنا سکیں۔ ان کے لیے مختلف اقسام کے کورسز متعارف کروائے جائیں۔

ان کے لیے گھر سے باہر ایک مکمل نظام موجود ہوگا تو وہ اور ان کے گھر والے بھی ان کے بارے میں کچھ اور سوچ سکیں گے۔

متعلقہ عنوان :