دودھ پیدا کرنے والے دنیا کے چار بڑے ممالک میں شامل ہونے کے باوجود پاکستان 20 ارب روپے سے زیادہ دودھ کی درآمد پر خرچ کرتا ہے، اسٹوریج نہ ہونے کی وجہ سے دودھ ضایع بھی ہوتا ہے، وائس چانسلر سندھ زرعی یونیورسٹی ڈاکٹر فتح مری

جمعرات 26 مئی 2022 21:40

دودھ پیدا کرنے والے دنیا کے چار بڑے ممالک میں شامل ہونے کے باوجود پاکستان ..
حیدرآباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26 مئی2022ء) سندھ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح مری نے کہا ہے پاکستان کا شمار دودھ پیدا کرنے والے دنیا کے چار بڑے ممالک میں ہوتا ہے، اس کے باوجود 20 ارب روپے سے زائد کا دودھ درآمد کرنا پڑتا ہے۔یہ بات انہوں نے سندھ زرعی یونیورسٹی کے اینیمل پراڈکٹ ٹیکنالوجیز کے پی ایچ ڈی اسکالر دیپیش کمار بھوپتانی کو ڈگری ایوارڈ کرنے کی مختصر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

دیپیش کمار بھوپتانی نے "دودھ میں افلاٹوکسن کا مقدار اور اسے روکنے کی حکمت عملی" کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی تحقیق مکمل کی ہے، ڈاکٹر فتح مری نے کہا پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے۔ تقریباً 80 فیصد دودھ دیہی علاقوں میں چھوٹے پیمانے پر پیدا ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اسٹوریج نہ ہونے کی وجہ سے دودھ ضائع بھی ہوتا ہے، دودھ کی بائی پراڈکٹس پر بھی ڈیری فارمر اور سرمایہ کاروں کو توجہ دینی ہوگی۔

پی ایچ ڈی اسکالر دیپیش کمار بھوپتانی نے کہا کہ دودھ دینے والے جانور کو غیر صحت بخش خوراک دینے سے جانور دودھ کے ذریعے افلاٹوکسن خارج کرتے ہیں، جب کہ ایسا دودھ استعمال کرنے والے لوگ بھی افلاٹوکسن کے مضر اثرات سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دوران تحقیق انہوں نے کراچی، ٹھٹھہ، حیدرآباد، میرپورخاص، عمرکوٹ، شہید بینظیر آباد، نوشھروفیروز، سکھر اور لاڑکانہ سے دودھ کے نمونے حاصل کئے اور سندھ زرعی یونیورسٹی کی اینیمل ہسبنڈری اینڈ وٹرینری سائنسز کی اینیمل پراڈکٹ ٹیکنالوجیز کی لیبارٹری سے تشخیص جس سے ثابت ہوا کہ اکثر جانوروں کے دودھ میں افلاٹوکسن کے مضر اثرات موجود ہیں جوکہ انسانی صحت کیلئے مضر ہیں۔

اس موقع پر ڈئریکٹر ایڈوانسڈ اسٹدیز ڈاکٹر سید عطا شاہ، ڈاکٹر سعید سومرو، ڈاکٹر گلبھار خاصخیلی، ڈاکٹر زبیر احمد لغاری اور دیگر بھی موجود تھے۔