جسٹس مظاہرنقوی کی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد

عدالت کا میاں داؤد سمیت جسٹس مظاہرنقوی کے خلاف شکایت گزاروں کو کیس میں فریق بنانے کا حکم

Faisal Alvi فیصل علوی منگل 9 جنوری 2024 16:24

جسٹس مظاہرنقوی کی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد
اسلام آباد(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 09 جنوری2024 ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس مظاہر نقوی کی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے میاں داود سمیت جسٹس مظاہر کے خلاف شکایت گزاروں کو کیس میں فریق بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اب 11 جنوری کو جسٹس مظاہر کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی اوپن ہو گی۔  جسٹس مظاہر نقوی کی آئینی درخواست پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی خصوصی بینچ نے کی، بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس مسرت ہلالی بھی شامل ہیں۔

عدالت نے اپنا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔ سماعت کے آغاز پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جسٹس مظاہر نقوی نے جوڈیشل کونسل کی کارروائی سپریم کورٹ میں چیلنج کررکھی ہے، آرٹیکل 209 ججز کے تحفظ کیلئے ہے، عدالت آرٹیکل 209 اور سپریم جوڈیشل کونسل کے انکوائری رولز 2005 دیکھے، رولز کے تحت جج کے خلاف شکایت گزار کا کردار بہت محدود ہے۔

(جاری ہے)

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ججز کے خلاف کارروائی کیلئے صدر مملکت ریفرنس یا سپریم جوڈیشل کونسل خود کارروائی شروع کرتی ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ بار کونسلز کیا جج کے خلاف شکایت کر سکتی ہیں؟ قاضی فائز عیسی کیس میں بار کونسلز نے درخواستیں کی تھیں، جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا تھا کہ ججز کے خلاف شکایات بار کونسلز کر سکتی ہیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جب سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر کے خلاف کارروائی آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا تو اس دن 21 درخواستیں خارج بھی کیں، جوڈیشل کونسل نے ججز کے خلاف 21 درخواستیں خارج کیں جن میں سے 19 میں سے کسی شکایت گزار کو سنا نہیں گیا تھا۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ معاملہ اب سپریم کورٹ کے سامنے ہے، عدالت سمجھتی ہے کہ پہلے شکایت گزاروں کو نوٹسز ہونے چاہیے ورنہ کارروائی آگے نہیں بڑھ سکتی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ جب آپ کا موقف ہے کہ جسٹس مظاہر کے خلاف شکایتیں بدنیتی پر مبنی ہیں تو شکایت گزاروں کا موقف کیسے نا سنیں؟وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت نے اپنے ادارے کا تحفظ کرنا ہے، اگر ان شکایت گزاروں کو فریق بنایا گیا تو سپریم جوڈیشل کونسل کی خارج کردہ تمام شکایتوں کے خلاف 184 تھری کی درخواستیں آئیں گی۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کیا ججز کے خلاف نامعلوم درخواستیں بھی سنی جاتی ہیں؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ججز کے خلاف نامعلوم درخواستیں نہیں سنی جاتیں، جسٹس مظاہر کے خلاف بھی کسی نامعلوم کی شکایت نہیں ہے۔

دوران سماعت جسٹس مظاہر نقوی کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت سے حکم امتناع کی درخواست کی جسے سپریم کورٹ نے مسترد کردیا۔اس کے ساتھ ہی عدالت نے جسٹس مظاہر نقوی کی درخواست پر شکایت کننندہ کو فریق بنانے کے نکتے پر فیصلہ محفوظ کیا۔عدالت نے کہا کہ محفوظ شدہ فیصلہ دس منٹ بعد سنایا جائے گا، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل آئینی باڈی ہے تو ہم اسے کیا حکم دے سکتے ہیں؟وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ افتخار محمد چوہدری کیس میں عدالت نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر حکم امتناع دیا تھا، شوکت صدیقی کیس میں جسٹس عظمت سعید نے کہا تھا کہ فیصلہ نہیں لکھ رہے لیکن سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی کرے تو بتانا، عدالت کے سامنے تحریر شدہ فیصلہ رکھ رہا ہوں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر ہم حکم امتناع دے دیں اور سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی جاری رکھے تو پھر کیا ہو گا؟ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ابھی تو صرف فریقین کے معاملے کو دیکھنا ہے۔واضح رہے کہ جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے 30 نومبر کو سپریم جوڈیشل کونسل کے جاری کردہ 2 شوکاز نوٹسز سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے انہیں کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

15دسمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس مظاہر نقوی کی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی فوری روکنے کی استدعا مسترد کردی تھی۔یاد رہے کہ جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے خلاف جوڈیشل کونسل کی کارروائی اوپن کرنے کا مطالبہ کیا تھا،انہوں نے جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا جس میں انہوں نے اپنے خلاف اوپن کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔