بجلی چوری اور بقایا جات کی ادائیگی کیلئے اراکین پارلیمنٹ کو اپنے اپنے حلقوں میں کردار ادا کرنا ہو گا، اعظم نذیر تارڑ

بدھ 24 اپریل 2024 19:20

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 اپریل2024ء) وفاقی وزیر قانون و انصاف و پارلیمانی امور اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ گزشتہ تین ماہ میں ملک میں سستے ذرائع سے بجلی کی پیداوار 78 جبکہ مہنگے ذرائع سے یہ پیداوار 22 فیصد رہی، اس کو مزید کم کرنے کیلئے حکومت پرعزم ہے، بجلی چوری اور بقایا جات کی ادائیگی کیلئے اراکین پارلیمنٹ کو اپنے اپنے حلقوں میں کردار ادا کرنا ہو گا، اس میں بہتری سے صارفین کو ریلیف ملے گا۔

بدھ کو قومی اسمبلی میں میں نعیمہ کشور خان، شاہدہ بیگم اور سید سمیع اللہ کی طرف سے سستے ذرائع کی بجائے مہنگے ذرائع سے بجلی کی پیداوار سے متعلق توجہ دلائو نوٹس کے جواب میں وفاقی وزیر قانون و انصاف و پارلیمانی امور اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ عمومی طور پر پانی، نیوکلیئر، ہوا اور کوئلے سے بننے والی بجلی کو سستے ذرائع قرار دیا جاتاہے، آر ایل این جی، فرنس آئل اور ڈیزل سے پیدا ہونے والی بجلی مہنگے ذرائع میں شامل کی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

یہ مسئلہ کافی عرصے سے درپیش ہے، ایک وقت تھا جب مہنگے ذرائع سے ملک میں بجلی کی پیداوار زیادہ تھی اور ہماری اپنی انرجی باسکٹ کم تھی جس کی وجہ سے بجلی کی قیمتوں میں بہت اضافہ ہوا۔ موسم سرما میں پانی کی کمی کی وجہ سے پن بجلی کی پیداوار کم ہو جاتی ہے، سردیوں کے تین ماہ میں یہ پیداوار 20 فیصد تک آ جاتی ہے، گرمیوں میں یہ پیداوار 35 فیصد تک چلی جاتی ہے۔

اس صورتحال میں ہمیں آر ایل این جی اور فرنس آئل کے پلانٹ چلانے پڑتے ہیں تاکہ بجلی کی کمی پوری کی جا سکے جبکہ سائوتھ پاکستان میں نیوکلیئر ، کوئلے اورہوا سے بجلی کے پلانٹ پوری استطاعت سے نہیں چلائے جا سکتے۔ اسی انتظام کو بین الاقوامی کنسلٹنٹس نے بھی تجویز کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں سائوتھ سے نارتھ کی طرف آنے والے لوڈ سے سسٹم ٹریپ کر جاتے تھے۔

اب گزشتہ دو سالوں میں اس پر کچھ کام کیا گیا اور اقدامات اٹھائے گئے جس کی وجہ سے ان سردیوں میں بڑے بریک آئوٹ سے بچے رہے۔ انہوں نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں 22 فیصد بجلی آر ایل این جی، ڈیزل اور فرنس آئل سمیت نسبتاً مہنگے ذرائع سے بنائی گئی ہے۔ 78 فیصد بجلی پانی، نیوکلیئر انرجی ، مقامی گیس اور کوئلے سے پیدا کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا عزم ہے کہ ہم نے آنے والے برسوں میں پن بجلی اورسولر سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر کام کی رفتار تیز کرنی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ صارفین کو بجلی کی قیمت زیادہ محسوس ہونے میں لائن لاسز کا عمل دخل، بجلی چوری اور واجبات کی عدم ادائیگی ہے، اس حوالے سے گزشتہ آٹھ ماہ سے بڑی مہم شروع کی گئی ہے۔ اس مہم کے نتیجے میں 100 ارب روپے سے زائد کی ریکوری کی گئی تاہم اس کے باوجود کچھ فیڈرز میں ریکوری بہت بڑا مسئلہ ہے۔ نعیمہ کشور کے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ہماری بجلی کی پیداوار میں ہائیڈل کا حصہ 24 فیصد ہے، مقامی کوئلے سے 17 فیصد بجلی پیدا کی جاتی ہے۔

درآمد شدہ کوئلے سے 5 فیصد، ہائی سپیڈ ڈیزل سے 0.1 فیصد، فرنس آئل سے 2.2 فیصد، گیس سے 10 فیصد، آر ایل این جی سے 16 فیصد تک بجلی پیدا کی جاتی ہے، نیوکلیئر سے برادر ملک چائنہ کے تعاون سے نئے منصوبوں سے اب یہ پیداوار 19 فیصد تک بڑھ گئی ہے جبکہ ہوا سے 1.9 فیصد بجلی پیدا کی جا رہی ہے، اس میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ بگاس سے 1.3 فیصد بجلی بن رہی ہے، اس میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے، نجی شعبے میں سولر میں بہتری آئی ہے تاہم پبلک سیکٹر میں بھی اس کو بڑھانے کیلئے کوششیں کی جارہی ہیں۔

اس حوالے سے وزیراعظم نے کمیٹی بھی تشکیل دے رکھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگلے دوسال میں انرجی مکس میں مزید بہتری آئے گی جس کا فائدہ صارفین کو بھی پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ بجلی چوری اور واجبات کی عدم ادائیگی سے جان چھڑانا ہماری قومی ذمہ داری ہے، حکومت اس پر کام کر رہی ہے، منتخب نمائندے اپنے حلقوں میں عوام کو اس حوالے سے شعور دیں کہ بجلی چوری قومی جرم ہے۔

شاہدہ بیگم کے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ شمسی توانائی کے تحت نیٹ میٹرنگ کے ذریعے ڈسکوز کو بجلی چلی جاتی ہے جس کو بلز میں ایڈجسٹ کر لیا جاتا ہے۔ نیٹ میٹرنگ کی شکایات کوگزشتہ قائمہ کمیٹی میں بھی زیر بحث لایا گیا اور ہم نے یہ یقینی بنایا کہ اس میں تاخیر کو دور کیا جائے۔ یہ مسئلہ سامنے آ رہا تھا کہ ڈسکوز کو بجلی کی فروخت میں مسائل ہیں اور نرخ میں بھی فرق ڈالا گیا تھا۔ ان تمام مسائل کو زیر بحث لا کر اس میں بہتری لائی گئی۔ انہوں نے کہا کہ سولر پینلز کی ڈیوٹی کے حوالے سے کافی بنیادی اقدامات کئے گئے اور اب ان کی پاکستان میں مینوفیکچرنگ کیلئے چائنہ کے تعاون سے پلانٹس پائپ لائن میں ہیں اس میں جلد بہتری نظر آئے گی۔