افغانستان کا ریاستی ڈھانچہ تباہ ہوا ،صحت جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی متاثر

بدھ 1 مئی 2024 18:52

کابل (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 01 مئی2024ء) کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد نہ صرف افغانستان کا ریاستی ڈھانچہ تباہ ہوا بلکہ صحت جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی شدید متاثر ہوئی،طالبان کے افغانستان میں شہری بھوک و افلاس کے ساتھ وبائی امراض کا بھی شکار ہو رہے ہیں۔افغانستان میں صحت کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر عالمی برادری میں تو تشویش پائی جاتی ہے لیکن کابل کے حکمران طالبان بے حسی اور جہالت کے نئے نئے ریکارڈ قائم کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

افغان طالبان کے 2021ء میں قابض ہونے کے بعد سے جہاں افغانستان دیگر چیلنجز کا سامنا ہے وہاں مختلف وبائی وبائی امراض بھی پھوٹ پڑے ہیں۔خسرہ وبائ پر جہاں پوری دنیا قابو پا چکی ہے وہاں طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان میں سہولیات کے فقدان کے باعث اس وبائ کی شرح میں سنگین حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔

(جاری ہے)

عالمی ادارہ صحت کی ماہانہ رپورٹ کے مطابق فروری کے مقابلے میں مارچ کے مہینے میں خسرہ کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔

خسرہ کے ساتھ ڈائریا اور سانس کے انفیکیشن کے کیسز 6 ہزار سے تجاوز کر گئے جبکہ 34 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ افغان میڈیا کے مطابق ویکسین کی عدم دستیابی اور بنیادی حفظان صحت کے اصولوں پر عملدرآمد نہ ہونے سے خسرہ کے پھیلاؤ کا سبب ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2023 میں افغانستان کے صوبے بدخشاں میں 4 ہزار سے زیادہ افراد خسرہ کی وبائ کا شکار ہوئے جن میں 100 سے زیادہ مریض جان کی بازی ہار گئے۔

افغانستان میں گزشتہ تین ماہ کے دوران خسرہ سے 29 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، یونیسیف کے مطابق سال 2024 میں ہی افغانستان میں خسرہ کے 7 ہزار سے زائد کیسز رجسٹرڈ ہوئے اور 29 سے زیادہ اموات ہوئیں۔اسی طرح افغانستان میں ملیریا کی صورتحال دن بدن بگڑتی جا رہی ہے جس کے باعث 27 فیصد آبادی شدید متاثر ہے، ا2016ئ میں اقوام متحدہ کی جانب سے ملیریا کی روک تھام کیلئے ریفارمز متعارف کرائے گئے جن پر افغانستان میں تاحال کوئی عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے مارچ میں 16 ہسپتالوں کو مالی امداد فراہم کی تاکہ افغانستان مختلف وبائی امراض پر قابو پا سکے۔