یونانی تہذیب کے سوفسطائیوں اور فلسفیوں میں کیا فرق تھا؟

DW ڈی ڈبلیو اتوار 19 مئی 2024 13:40

یونانی تہذیب کے سوفسطائیوں اور فلسفیوں میں کیا فرق تھا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 مئی 2024ء) یونان نے اپنی تاریخ میں فلسفی، سوفسطائی، ڈرامہ نگار، موسیقار، شاعر، مجسمہ تراش، آرٹسٹ، ماہرِ تعمیرات اور مورخ پیدا کیے۔ اِن لوگوں نے مل کر یونانی تہذیب کو اعلیٰ درجے تک پہنچا دیا۔ اولمپکس کھیلوں میں کھلاڑیوں کے کارنامے ڈیل فائی کے مَندر میں مُستقبل کے حالات کو جاننے کا شوق و جذبہ، جم خانوں میں نوجوانوں کی ورزش اور جسمانی خوبصورتی کا احساس، دیوی دیوتاؤں کو ماننا لیکن اُن سے ڈر اور خوف محسوس نہ کرنا بلکہ اُن کے اعزاز میں جلسے جلوس نکالنا اور اُن کے نام پر تہوار منانا یونانی معاشرے کی خصوصیات تھیں۔

یونان کی شہری ریاستوں نے سیاست کے مختلف تجربات کیے۔ ان میں چند سری حکومت (Oligarchy) آمریت اور جمہوریت شامل تھیں۔

(جاری ہے)

ایتھنز کی شہری ریاست جمہوری تھی۔ اگرچہ اِس میں عورتوں، غلاموں اور غیر مُلکیوں کو ووٹ کا حق حاصل نہیں تھا لیکن جمہوریت کی وجہ سے ایتھنز میں سوفسطائیوں کا طبقہ پیدا ہوا۔

یہ لوگ سیاست اور فنی خطابت میں مہارت رکھتے تھے اور اُمراء کے لڑکوں کو سیاست، فصاحت اور بلاغت کی تعلیم دیتے تھے اور اس کا معاوضہ بھی لیتے تھے۔

اس لیے معاشرے میں سوفسطائیوں کی اُمراء کے طبقے میں پذیرائی تھی۔ فنِ خطابت میں، جن باتوں کا خیال رکھا جاتا تھا، اُن میں زبان کی خوبصورتی، جملوں میں سَلاسَت و روانی، موضوع پر فلسفیانہ بحث اور حالات کو دیکھتے ہوئے مسائل پر توجہ دلانا شامل تھا۔ ان کے تربیت یافتہ سیاست دان اسمبلی میں تقریر کر کے حاضرین کو مُتاثر کرتے تھے، جس کی بنیاد پر یہ انتخاب میں کامیاب ہو جاتے تھے۔

سوفسطائی عدالت کے مقدمات میں مدعی کے حق میں تقریر لکھ کر اُسے یاد کرواتے تھے تا کہ وہ اپنے مقدمے کی پیروی کر سکے۔ سوفسطائی مختلف مواقع پر تقریر لکھ کر بھی دیتے تھے۔ یہ اپنے فنِ خطابت کا مظاہرہ تہواروں، اَولمپکس کھیلوں اور پبلِک لیکچرز میں کیا کرتے تھے۔

چوتھی صدی قبل از مسیح کا سب سے بڑا خطیب دیموستھینز تامپاکوس تھا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس کی زبان میں لُکنت تھی، جسے دُور کرنے کے لیے وہ سمندر کے کنارے جا کر مُنہ میں کنکریاں رکھ کر بولنے کی مشق کرتا تھا۔

یہاں تک کہ اُس نے اپنی اس کمزوری پر قابو پا لیا تھا۔ جب وہ تقریر کرتا تھا تو لوگ مسحور ہو جاتے تھے۔ جب مقدونیہ کے بادشاہ فلِپ نے ایتھنز پر حملہ کیا تو دیموستھینز نے اپنی تقریر کے ذریعے لوگوں کو مقدونیہ کے خلاف مزاحمت پر اُکسایا۔ اس پر مقدونیہ کی فوج نے اُس کو گرفتار کرنے کے لیے پیچھا کیا۔ اُس نے ایک مَندر میں پناہ لی لیکن جب وہاں بھی فوجی اُس کی گرفتاری کے لیے آ گئے تو اُس نے زہر کی گولی کھا کر خودکُشی کر لی۔

سوفسطائیوں نے ایک طرف سیاست میں جمہوری روایات کو فروغ دیا، تعلیم کے معاوضے کی وجہ سے خوشحال رہے لیکن اِن کے مقابلے میں فلسفیوں کا جو طبقہ تھا، وہ اس کا سخت مخالف تھا کہ تعلیم کے فروغ کا معاوضہ لیا جائے۔ ایتھنز میں فلسفیوں کی کئی جماعتیں تھیں۔ اِن کے اپنے اسکولز تھے، جہاں یہ طلبہ کو مُفت تعلیم دیتے تھے۔ فلسفیوں کی یہ جماعتیں سیاست میں حصہ نہیں لیتی تھیں بلکہ تنہائی میں رہتے ہوئے اپنے فلسفے کی تبلیغ کرتے تھیں۔

فلسفیوں نے خاص طور سے غربت کو اختیار کیا اور وہ فلسفی، جو صاحبِ جائیداد یا دولت مند تھے، اُنہوں نے اپنے سرمائے کو لوگوں میں تقسیم کر کے خود مُفلسی میں زندگی گزاری۔ یہ فلسفی سوفسطائیوں کے اس لیے مخالف تھے کہ وہ امیرانہ زندگی گزارتے تھے۔

فلسفیوں میں سب سے بڑی شخصیت سقراط کی تھی، جو ایتھنز کا شہری ہونے پر فخر کرتا تھا۔ شہر کے دفاع کی خاطر اُس نے جنگوں میں بھی حصہ لیا۔

اُس کی ساری زندگی غربت اور مُفلسی میں گزری۔ وہ اس پر یقین رکھتا تھا کہ فلسفی پر لازم ہے کہ وہ نوجوانوں کی اخلاقی تربیت کرے۔ اُس کا دستور تھا کہ وہ صبح سویرے گھر سے نکل کر ایتھنز کی گلیوں، بازاروں اور چوکوں پر آ جاتا تھا۔ اپنے بارے میں اُس کا کہنا تھا کہ وہ کچھ نہیں جانتا ہے۔ وہ لوگوں سے سوال کر کے اُن سے جواب چاہتا تھا۔ اُس کی ساری تعلیم زبانی تھی۔

وہ لکھنے کے سخت خلاف تھا۔ اُس کی دلیل یہ تھی کہ اگر کسی فِکر کو لکھوا دیا جائے تو پھر اُسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے، جب کہ زبانی بات چیت میں تبدیلی ممکن ہے۔

ایتھنز کے لوگ سُقراط کے سوالوں سے پریشان ہو جاتے تھے۔ پُجاری اس لیے اُس سے ناراض تھے کہ وہ دیوی دیوتاؤں پر ایمان نہیں رکھتا ہے جبکہ سیاستدان بھی ناخوش تھے ۔ اس لیے عام لوگ اُسے دیکھ کر راستہ بدل لیتے تھے۔

سُقراط نے ہمت نہیں ہاری اور جب سیمپوزیم ہوتا تھا تو وہ اُس میں شریک ہو کر بحث و مُباحثے کرتا تھا۔ وہ معاشرے میں نیکی اور اخلاقی اقدار کو لوگوں کی زندگی کا حصہ بنانا چاہتا تھا۔ اپنے اُصولوں کی خاطر اُس نے خوشی سے موت کی سزا کو قبول کیا۔ سقراط کے فلسفے کو اَفلاطون نے اپنی کتاب ریپبلِک میں بیان کیا ہے۔ زینوفان نے اپنی کتاب Anabasis میں سقراط کے فلسفے پر روشنی ڈالی ہے۔

دوسرا فلسفی ایپیکیورس تھا۔ یہ شہر سے دُور ایک باغ میں اپنے شاگردوں کے ساتھ رہتا تھا۔ اِس کا فلسفہ تھا کہ انسان کو سادگی کے ساتھ رہتے ہوئے زیادہ سے زیادہ خوشی اور مسرت حاصل کرنا چاہیے۔ اُس کی غذا روٹی اور زیتون کا تیل تھا۔ جب پنیر اُس کے کھانے میں آ جاتی تھی تو وہ اُس کی عیاشی تھی۔ اُس کے فلسفے کے مطابق دیوتا کہیں دور دراز کے مقام پر ہے اور اُس کا انسانی زندگی میں کوئی دخل نہیں ہے۔

فلسفیوں کا ایک اور گروہ ''سائنیک‘‘ کہلاتا تھا۔ یہ ترکِ دُنیا کر دیتے تھے۔ اس جماعت کا مشہور فلسفی دیوجانس کلبی تھا، جو برہنہ رہتا تھا اور ایک دن اُس نے اپنا سانس روک کر خود کُشی کر لی۔

سُقراط کے شاگِرد اَفلاطون نے سِسلی کی سیاست میں حصّہ لے کر اور اُس میں ناکام ہو کر ایتھنز میں اکیڈمی کھول لی، جہاں وہ فلسفے کی تعلیم دیا کرتا تھا۔

اَرسطو نے بھی اپنی اکیڈمی کھولی اور اُس نے عِلم کے مختلف شُعبوں میں فلسفیانہ اور سائنسی تحقیقات کیں۔ زنون رواقی نے ایتھنز کے چوک پر ایک چھجے کے نیچے اپنے شاگِردوں کو پڑھانا شروع کیا۔ اُس کا فلسفہ رواقیت کہلاتا ہے۔ یہ انسان کو فطرت کے قریب رہتے ہوئے خوشی اور مسرت کا حُصول چاہتا ہے۔ اس کا فلسفہ روم میں بہت مقبول ہوا۔ سِسرو اور سینیکا نے اس کو اختیار کر کے معاشرے میں روشناس کرایا۔

لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ایتھنز کی شہری ریاست میں، جو نئے خیالات و افکار پیدا ہوئے، وہ حیران کن ہیں۔

مزید تفصیل کے لیے Jacob Burckhardt کی کتاب' ہسٹری آف گریک کلچر‘ دیکھیے!