بچوں کی مارپیٹ کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جانا چاہیے، ڈبلیو ایچ او

یو این جمعرات 21 اگست 2025 20:00

بچوں کی مارپیٹ کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جانا چاہیے، ڈبلیو ایچ او

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 21 اگست 2025ء) عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بتایا ہے کہ دنیا بھر میں 18 سال سے کم عمر کے نصف سے زیادہ بچوں کو جسمانی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے ان پر ذہنی، سماجی اور جذباتی اعتبار سے دوررس منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ادارے کی جاری کردہ نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ بچے عام طور پر والدین، اپنی دیکھ بھال کرنے والوں اور اساتذہ کی جانب سے مار پیٹ کا نشانہ بنتے ہیں۔

ایسی سزائیں زیادہ تر گھروں اور سکولوں میں دی جاتی ہیں جس سے بچوں کی دماغی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔

'ڈبلیو ایچ او' میں شعبہ عوامل صحت کی ڈائریکٹر ایٹینی کروگ نے بتایا ہے کہ جسمانی سزا سے بچوں کے رویے، ترقی یا بہبود پر کوئی مثبت اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے والدین یا معاشروں کو کسی طرح کا کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں بہت سے تحقیقی جائزوں سے ثابت ہوا ہے کہ جسمانی سزا کے بچوں کی صحت پر انفرادی اور معاشرے پر مجموعی طور پر دیرپا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ایسے واضح سائنسی شواہد موجود ہیں کہ جسمانی سزا بچوں کی صحت کے لیے کئی طرح کے خطرات کا باعث بنتی ہے۔

جسمانی سزا کے نقصانات

کم اور متوسط آمدنی والے 49 ممالک میں لیے گئے جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ جسمانی سزا کا سامنا کرنے والے بچوں کے اپنے ہم عمر ساتھیوں کے مقابلے میں آگے بڑھنے کے امکانات 24 فیصد کم ہوتے ہیں۔

یہ سزا بچوں کو نہ صرف فوری جسمانی نقصان پہنچاتی ہے بلکہ ان میں ہارمونی دباؤ کو بھی بڑھا دیتی ہے جس سے ان کے دماغ کی ساخت اور کارکردگی میں تبدیلی آ جاتی ہے اور یہ اثرات زندگی بھر قائم رہ سکتے ہیں۔

معاشرتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو جسمانی سزا کا سامنا کرنے والے بچے بڑے ہو کر اپنے ہی بچوں کے ساتھ یہی رویہ اپناتے ہیں جس سے تشدد کا نسل در نسل سلسلہ قائم ہو جاتا ہے۔ اس طرح، بچپن میں جسمانی سزا سہنے والے بالغ افراد میں پرتشدد، مجرمانہ اور جارحانہ رویہ پیدا ہونے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔

© UNICEF/Osman Khayyam
اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ جسمانی سزا سے بچوں کی اصلاح ہوتی ہے۔

علاقائی فرق

اگرچہ جسمانی سزا دنیا بھر میں رائج ہے تاہم علاقائی حوالے سے اس کے اطلاق میں فرق پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، یورپ اور وسطی ایشیا میں تقریباً 41 فیصد بچوں کو گھروں میں جسمانی سزا دی جاتی ہے جبکہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں یہ شرح 75 فیصد تک ہے۔

سکولوں میں جسمانی سزاؤں کو دیکھا جائے تو یہ فرق اور بھی نمایاں ہے۔

مغربی بحرالکاہل کے صرف 25 فیصد بچے تعلیمی دور میں جسمانی سزا کا سامنا کرتے ہیں جبکہ افریقہ اور وسطی امریکہ میں یہ شرح 70 فیصد سے زیادہ ہے۔

لڑکیوں اور لڑکوں کو جسمانی سزا دیے جانے کے امکانات تقریباً ایک جیسے ہوتے ہیں تاہم اس کے اسباب مختلف ہو سکتے ہیں۔ جسمانی معذور بچوں کے ایسی سزاؤں کا نشانہ بننے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں، غربت، معاشی مسائل یا نسلی امتیاز کا شکار لوگوں کے بچوں کو جسمانی سزا دیے جانے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔

آگاہی مہمات کی ضرورت

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جسمانی سزا پر پابندی عائد کرنا ضروری ہے لیکن یہی کافی نہیں۔ جائزوں سے ثابت ہوتا ہے کہ قانونی پابندیوں سے جسمانی سزا کی شرح میں کوئی کمی نہیں آتی۔

اس وقت 67 ممالک نے گھروں اور سکولوں میں بچوں کو جسمانی سزا دینے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ 'ڈبلیو ایچ او' اس ممانعت کے بہتر طور سے اطلاق کے علاوہ آگاہی مہمات کے ذریعے اس سزا کے نقصانات کو اجاگر کرنے پر بھی زور دے رہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جسمانی سزا کے مسلسل استعمال اور اس کی ضرورت پر عام یقین کے باوجود اس کی ممانعت سے متعلق قوانین بنانے اور ان پر عملدرآمد کی کوششوں کے ساتھ آگاہی مہمات بھی چلائی جانا چاہئیں۔

ایٹینی کروگ نے کہا ہے کہ اگر والدین کو جسمانی سزاؤں کے مثبت متبادل کا علم ہو تو وہ انہیں ضروری اپنائیں گے۔ اب اس نقصان دہ عمل کا خاتمہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بچے ترقی پائیں اور اپنی پوری صلاحیتوں سے کام لینے کے قابل ہوں۔