Ali Ka Khawab Poora Hua - Article No. 1923
علی کا خواب پورا ہوا - تحریر نمبر 1923
علی اب ایک چوکیدار نہیں بلکہ اس ملک کا عظیم شہری ہے جس پر جتنا بھی ناز کرو وہ کم ہے
بدھ 17 مارچ 2021
ریاض احمد
آنکھ ابھی لگی ہی تھی تو ماں نے آواز دی اُٹھو بیٹا کام پر جانے کا وقت ہو گیا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے رات پل بھر کی اور دن سو برس کا، لنگڑے کا ہوٹل چائے والا،چک چوالیس میں بڑا مشہور ہے۔یہ ہوٹل سڑک کے چاروں طرف سے نظر آتا ہے۔اس ہوٹل میں لوگ بڑی بڑی دور سے چائے پینے آتے ہیں۔ہوٹل کا مالک بڑا ہنس مکھ ہے،اکثر رات 10 بجے کے بعد لوگوں کو یہ بزرگوں کے قصے کہانیاں سناتا ہے۔اسی وجہ سے یہ ہوٹل کم چوپال کا منظر زیادہ نظر آتا ہے۔علی کو سارا دن کبھی گاہکوں کی تو کبھی مالک کی جلی کنی سننی پڑتی ہیں۔علی کہتا ہے جب کام کرنا ہے تو پھر غصہ کیسا کبھی اِدھر سے آواز آئی تو کبھی اُدھر سے جی ہاں جی ہاں کہتے کہتے صبح سے شام ہو جاتی ہے پھر ایک نیا دن اس طرح شروع ہو جاتا۔
صبح کو علی کی ماں نے اٹھنے کو کہا اور کہنے لگی کہ بیٹا سبھی کام کھانے پینے والے تھوڑی ہوتے ہیں،تم کہیں مزدوری کیوں نہیں کر لیتے۔ماں کی یہ بات سن کر علی کی کچھ پریشانی کم ہوئی،سوچا ٹھیک ہے اس طرح گھر کا چولہا بھی جلتا رہے گا۔مزدوری کے لئے مزدوروں کے اڈے میں کھڑا ہو گیا،تھوڑی ہی دیر میں بڑی سی گاڑی میں سے ایک شخص اترا۔اس نے بہت پیار سے بلایا اور کہا بیٹا کام کرو گے۔علی نے جواب دیا جی ہاں! صاحب جی کروں گا۔علی نے پوچھا”آپ مجھ سے کون سا کام کروائیں گے“۔
صاحب بولا میرے سکول کی دیوار ٹرک کی ٹکر سے ٹوٹ گئی ہے،مجھے ایک مزدور کی ضرورت ہے کیا تم چلو گے میرے ساتھ۔علی نے جب سکول نام سنا تو علی کی آنکھوں میں آنسو نکل پڑے اور گاڑی والا صاحب پوچھتا رہا تم مزدوری کے کتنے پیسے لو گے مگر وہ خوشی سے کچھ بھی منہ سے نہ بول سکا اور دو چار روز میں یہ کام ختم ہو گیا۔سکول کے ہید ماسٹر صاحب نے بلایا اور مزدوری کے پیسے دیئے،ساتھ یہ بھی کہا بیٹا ہمارے سکول کا چوکیدار بیمار ہو گیا ہے اگر تم چاہو تو کچھ دنوں کے لئے ہمارے پاس چوکیدار کی نوکری کر سکتے ہو۔اس طرح تمہیں سکول میں کام کرنے کا موقع مل جائے گا۔ہماری ضرورت بھی پوری ہو جائے گی۔علی کے لئے اس سے بڑی خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی تھی۔
کچھ ہی دنوں میں علی نے سکول کے ماحول کو اپنا لیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر بہت سی تبدیلی محسوس کی۔علی نے ایک دن ٹیچر سے کہا سر جی چھٹی کے بعد جب آپ دوسرے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتے ہیں کیا میں بھی پڑھ سکتا ہوں۔ٹیچر یہ بات سن کر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا علی بیٹا ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے تم چاہو تو بہت آگے جا سکتے ہو،اس طرح علی کا تعلیمی دور شرع ہو گیا۔اندر ہی اندر علی نے پڑھنا
لکھنا شروع کر دیا۔سکول کی یہ نوکری علی کے لئے کامیاب ثابت ہوئی۔
وقت گزرتا چلا گیا اور علی پڑھتا چلا گیا۔آج علی کو اس سکول میں کام کرتے ہوئے 12 سال گزر چکے ہیں۔یہ بات کوئی نہیں جانتا تھا۔علی نے پرائیوٹ اکیڈمیوں میں پڑھ کر بی اے پاس کر چکا ہے۔علی ایک خاص دن کا انتظار کر رہا تھا۔آخر یہ موقع آہی گیا،ہیڈ ماسٹر صاحب نے علی کو آواز دی میرے لئے باہر سے اخبار لاؤ،علی کو بچپن ہی میں اخبار پڑھنے کا شوق تھا جب علی نے اخبار خریدا تو سب سے پہلے اندر کا صفحہ کھولا جہاں نوکریوں کے اشتہار پر علی کی نظر پڑی۔اس میں سب سے بڑی نوکری گورنمنٹ کالج میں ہیڈ کلرک کی تھی۔علی یہ خبر پڑھ کر خوشی سے جھوم اٹھا اور دوڑا دوڑا آکر ہیڈ ماسٹر صاحب سے کہنے لگا۔سر جی!آپ مجھے یہ ہیڈ کلرک کی نوکری دلوا دیں۔
ہیڈ ماسٹر صاحب اور دوسرے ٹیچر علی کی یہ بات سن کر حیران ہو کر کھل کر ہنسنے لگے۔علی کیا آج تم پاگل تو نہیں ہو گئے یہ نوکری تو بی اے پاس کی لکھی ہوئی ہے۔تم تو ایک معمولی چوکیدار ہو۔تم نے اتنا بڑا خواب کیسے دیکھ لیا۔علی نے جواب دیا سر جی!میں نے اس سکول میں بہت کچھ پایا ہے ،نوکری کے ساتھ ساتھ میں نے اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھا۔پرائیوٹ اکیڈمیوں کے ذریعے سے بی اے کا امتحان پاس کر لیا ہے۔ اس بات کا صرف ماسٹر غلام حسین کے سوا کسی اور کو علم نہیں۔
جی ہاں!ہیڈ ماسٹر صاحب علی نے جو کچھ بھی کہا وہ سب سچ ہے۔علی اب ایک چوکیدار نہیں بلکہ اس ملک کا عظیم شہری ہے جس پر جتنا بھی ناز کرو وہ کم ہے۔اس طرح علی کامیابیوں کی منزلیں طے کرتا چلا گیا مگر علی کہتا ہے لنگڑے کے ہوٹل کی چائے کا مزہ میں ابھی تک نہیں بھولا۔
آنکھ ابھی لگی ہی تھی تو ماں نے آواز دی اُٹھو بیٹا کام پر جانے کا وقت ہو گیا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے رات پل بھر کی اور دن سو برس کا، لنگڑے کا ہوٹل چائے والا،چک چوالیس میں بڑا مشہور ہے۔یہ ہوٹل سڑک کے چاروں طرف سے نظر آتا ہے۔اس ہوٹل میں لوگ بڑی بڑی دور سے چائے پینے آتے ہیں۔ہوٹل کا مالک بڑا ہنس مکھ ہے،اکثر رات 10 بجے کے بعد لوگوں کو یہ بزرگوں کے قصے کہانیاں سناتا ہے۔اسی وجہ سے یہ ہوٹل کم چوپال کا منظر زیادہ نظر آتا ہے۔علی کو سارا دن کبھی گاہکوں کی تو کبھی مالک کی جلی کنی سننی پڑتی ہیں۔علی کہتا ہے جب کام کرنا ہے تو پھر غصہ کیسا کبھی اِدھر سے آواز آئی تو کبھی اُدھر سے جی ہاں جی ہاں کہتے کہتے صبح سے شام ہو جاتی ہے پھر ایک نیا دن اس طرح شروع ہو جاتا۔
(جاری ہے)
علی پوچھتا”صاحب جی اخبار میں کیا لکھا ہے“۔
صبح کو علی کی ماں نے اٹھنے کو کہا اور کہنے لگی کہ بیٹا سبھی کام کھانے پینے والے تھوڑی ہوتے ہیں،تم کہیں مزدوری کیوں نہیں کر لیتے۔ماں کی یہ بات سن کر علی کی کچھ پریشانی کم ہوئی،سوچا ٹھیک ہے اس طرح گھر کا چولہا بھی جلتا رہے گا۔مزدوری کے لئے مزدوروں کے اڈے میں کھڑا ہو گیا،تھوڑی ہی دیر میں بڑی سی گاڑی میں سے ایک شخص اترا۔اس نے بہت پیار سے بلایا اور کہا بیٹا کام کرو گے۔علی نے جواب دیا جی ہاں! صاحب جی کروں گا۔علی نے پوچھا”آپ مجھ سے کون سا کام کروائیں گے“۔
صاحب بولا میرے سکول کی دیوار ٹرک کی ٹکر سے ٹوٹ گئی ہے،مجھے ایک مزدور کی ضرورت ہے کیا تم چلو گے میرے ساتھ۔علی نے جب سکول نام سنا تو علی کی آنکھوں میں آنسو نکل پڑے اور گاڑی والا صاحب پوچھتا رہا تم مزدوری کے کتنے پیسے لو گے مگر وہ خوشی سے کچھ بھی منہ سے نہ بول سکا اور دو چار روز میں یہ کام ختم ہو گیا۔سکول کے ہید ماسٹر صاحب نے بلایا اور مزدوری کے پیسے دیئے،ساتھ یہ بھی کہا بیٹا ہمارے سکول کا چوکیدار بیمار ہو گیا ہے اگر تم چاہو تو کچھ دنوں کے لئے ہمارے پاس چوکیدار کی نوکری کر سکتے ہو۔اس طرح تمہیں سکول میں کام کرنے کا موقع مل جائے گا۔ہماری ضرورت بھی پوری ہو جائے گی۔علی کے لئے اس سے بڑی خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی تھی۔
کچھ ہی دنوں میں علی نے سکول کے ماحول کو اپنا لیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر بہت سی تبدیلی محسوس کی۔علی نے ایک دن ٹیچر سے کہا سر جی چھٹی کے بعد جب آپ دوسرے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتے ہیں کیا میں بھی پڑھ سکتا ہوں۔ٹیچر یہ بات سن کر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا علی بیٹا ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے تم چاہو تو بہت آگے جا سکتے ہو،اس طرح علی کا تعلیمی دور شرع ہو گیا۔اندر ہی اندر علی نے پڑھنا
لکھنا شروع کر دیا۔سکول کی یہ نوکری علی کے لئے کامیاب ثابت ہوئی۔
وقت گزرتا چلا گیا اور علی پڑھتا چلا گیا۔آج علی کو اس سکول میں کام کرتے ہوئے 12 سال گزر چکے ہیں۔یہ بات کوئی نہیں جانتا تھا۔علی نے پرائیوٹ اکیڈمیوں میں پڑھ کر بی اے پاس کر چکا ہے۔علی ایک خاص دن کا انتظار کر رہا تھا۔آخر یہ موقع آہی گیا،ہیڈ ماسٹر صاحب نے علی کو آواز دی میرے لئے باہر سے اخبار لاؤ،علی کو بچپن ہی میں اخبار پڑھنے کا شوق تھا جب علی نے اخبار خریدا تو سب سے پہلے اندر کا صفحہ کھولا جہاں نوکریوں کے اشتہار پر علی کی نظر پڑی۔اس میں سب سے بڑی نوکری گورنمنٹ کالج میں ہیڈ کلرک کی تھی۔علی یہ خبر پڑھ کر خوشی سے جھوم اٹھا اور دوڑا دوڑا آکر ہیڈ ماسٹر صاحب سے کہنے لگا۔سر جی!آپ مجھے یہ ہیڈ کلرک کی نوکری دلوا دیں۔
ہیڈ ماسٹر صاحب اور دوسرے ٹیچر علی کی یہ بات سن کر حیران ہو کر کھل کر ہنسنے لگے۔علی کیا آج تم پاگل تو نہیں ہو گئے یہ نوکری تو بی اے پاس کی لکھی ہوئی ہے۔تم تو ایک معمولی چوکیدار ہو۔تم نے اتنا بڑا خواب کیسے دیکھ لیا۔علی نے جواب دیا سر جی!میں نے اس سکول میں بہت کچھ پایا ہے ،نوکری کے ساتھ ساتھ میں نے اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھا۔پرائیوٹ اکیڈمیوں کے ذریعے سے بی اے کا امتحان پاس کر لیا ہے۔ اس بات کا صرف ماسٹر غلام حسین کے سوا کسی اور کو علم نہیں۔
جی ہاں!ہیڈ ماسٹر صاحب علی نے جو کچھ بھی کہا وہ سب سچ ہے۔علی اب ایک چوکیدار نہیں بلکہ اس ملک کا عظیم شہری ہے جس پر جتنا بھی ناز کرو وہ کم ہے۔اس طرح علی کامیابیوں کی منزلیں طے کرتا چلا گیا مگر علی کہتا ہے لنگڑے کے ہوٹل کی چائے کا مزہ میں ابھی تک نہیں بھولا۔
Browse More Moral Stories
پکّی دوستی
Pakki Dosti
بے شک اللہ سب کی سنتے ہیں
Beshak Allah Sab Ki Sunte Hain
مالی سفارش
Mali Sifarish
کھویا ہوا گھر
Khoya Huwa Ghar
سپر مین کی وادی!
Supermen Ke Dadi
بڑوں کی نصیحت
BarooN Ki Naseehat
Urdu Jokes
ایک مولانا نے
aik molana ne
ایک عربی
aik arbi
جواب کی تلاش
jawab ki talash
سٹیج
Stage
صاحب اور بیٹا
sahib aur beta
شیر کی شادی
Shair ki shaadi
Urdu Paheliyan
ایک سمندر تیس جزیرے
ek samandar tees jazeera
کھائے لوہا اگلے آگ
khaye loha ugly aag
دیکھا دھاگا ریشم جیسا
dekha dhaga resham jaisa
کالا گھر سے جاتا دیکھا
kala ghar se jate dekha
مار پٹی تو شور مچایا
maar piti tu shor machaya
اک ہے چیز بڑی انمول
ek hi cheez badi anmol
ArticlesStoriesMiscellaneousGamesBaby NamesUrdu Videos