Mali Sifarish - Article No. 2547

Mali Sifarish

مالی سفارش - تحریر نمبر 2547

آپ کی مالی سفارش آپ کے کام نہیں آ سکے گی،البتہ ایان کے اس مسئلے پر غور کیا جا سکتا ہے

جمعرات 22 جون 2023

جدون ادیب
میں اپنی پریشان کُن سوچوں میں گم،آرام کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ہر شخص کی زندگی میں اس کے اُصولوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے،مگر بعض اوقات اپنے اُصول خود توڑنے پڑتے ہیں اور ایسا ہم اکثر اپنے پیاروں کے لئے کرتے ہیں۔میں جو خود کو بہت اُصول پسند انسان سمجھتا تھا،آج اپنے اُصولوں کو قربان کرنے پر آمادہ ہو گیا تھا،کیونکہ رشتے اہم ہوتے ہیں،اُصول نہیں!
آخر ایک فیصلہ کیا اور ایک گہری سانس لے کر اُٹھ کھڑا ہوا۔
میری اہلیہ ٹیلی ویژن دیکھ رہی تھیں،مگر وہ میری جانب بھی متوجہ تھیں اور شاید انھیں بھی احساس ہو گیا تھا کہ میں نے کیا فیصلہ کیا ہے۔میں اُٹھا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔
اسی دوپہر کو میں اپنے بیٹے ایان کے اسکول میں موجود تھا،جہاں سیکشن انچارج سے میری ملاقات طے تھی۔

(جاری ہے)

وہ تشریف لائے تو رسمی کلمات کے بعد بولے:”جی،میں آپ کی بات سن رہا ہوں!“
میں آہستہ سے کھنکھارا اور بولا:”سر!میری اہلیہ نے پرنسپل صاحب سے درخواست کی تھی،ہمارا مسئلہ بہت چھوٹا ہے،مگر انھوں نے اسے حل کرنے سے انکار کر دیا ہے اور آپ سے ملنے کا مشورہ دیا۔

آپ جانتے ہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں!“
انچارج صاحب نے سنجیدہ لہجے میں کہا:”فرہاد صاحب!ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ اسکول کے اندرونی معاملات میں والدین کی مداخلت قبول نہیں کر سکتے۔ہم ان معاملات کو خود دیکھتے ہیں۔“
میں آہستہ سے آگے جھکا اور مدہم آواز میں کہا:”دیکھیے جناب!اللہ کا شکر ہے،پیسے کی میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے۔
میں تو اسکول کی بہتری کے لئے کچھ مدد کرنا چاہتا ہوں۔“
”آپ کھل کر کہیے۔“انچارج کا لہجہ خشک ہو گیا۔
”میں اسکول کے انتظامی فنڈ میں کچھ رقم پیش کرنا چاہتا ہوں،اگر اسکول کے کچھ فلاحی مقاصد ہیں یا تعمیرات کا کوئی مسئلہ ہے تو اس کی ذمے داری لینا چاہوں گا۔میرا مطلب ہے،میں ہر خدمت کے لئے تیار ہوں۔“
انچارج صاحب سوچتی ہوئی نگاہوں سے مجھے چند لمحے دیکھتے رہے پھر مسکرا کر بولے:”اولاد کی محبت انسان کو کس قدر مجبور کر دیتی ہے،یہ ہم جانتے ہیں۔
آپ اتنا اصرار کر رہے ہیں،مگر پرنسپل صاحب نہیں مانیں گے۔آپ کی مالی سفارش آپ کے کام نہیں آ سکے گی،البتہ ایان کے اس مسئلے پر غور کیا جا سکتا ہے۔“
ایان ہمارا اکلوتا بیٹا ہے۔وہ پڑھائی میں اوسط درجے کا تھا،مگر پھر وہ پڑھائی میں دلچسپی لینے لگا۔اس کی وجہ بڑی عجیب تھی۔کلاس ٹیچر نے اسے ڈسٹر انچارج بنا دیا تھا۔وہ یہ ذمے داری پا کر بہت خوش تھا۔
اس نے بتایا کہ اس کی مرضی کے بغیر کوئی تختہ سیاہ کو صاف نہیں کر سکتا اور استاد بھی اس کا نام لے کر اس سے ڈسٹر مانگتے ہیں تو اسے یہ بہت اچھا لگتا ہے۔یہ ذمے داری پا کر وہ ایک ذمے دار بچہ بنتا جا رہا ہے تھا کہ ایک دن اس سے یہ ذمے داری واپس لے لی گئی اور وہ پریشان رہنے لگا۔ہم نے اس کی ہمت بندھانی چاہی،مگر ایسا نہ کر سکے۔
دراصل ایان ایک دن ڈسٹر گھر بھول گیا۔
اس دن کلاس ٹیچر کا مزاج خراب تھا اور ایان کے ٹیسٹ میں نمبر بھی کم آئے تھے تو غصے میں انھوں نے یہ ذمے داری دوسرے بچے کو سونپ دی اور ایان اس بات سے مایوس ہو گیا۔ہم دونوں میاں بیوی اس کی پریشانی دیکھ کر کڑھتے رہے۔
تیسرے دن ایان گھر لوٹا تو وہ دوڑتا ہوا آیا اور مجھ سے لپٹ گیا۔اتنے میں اس کی امی آ گئیں اور اسے اپنی بانہوں میں لے کر پوچھا:”ارے ہمارا چاند،اتنا خوش ہے،کیا بات ہو گئی؟“
”امی!میں دوبارہ ڈسٹر انچارج بن گیا اور․․․․․“وہ خوشی سے بھرپور لہجے میں بولا۔

”اور․․․․․؟“ہم نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔
”اب میں نہ صرف ڈسٹر انچارج ہوں،بلکہ تختہ نرم یعنی سوفٹ بورڈ کا انچارج بھی مجھے بنایا گیا ہے۔اب تختہ نرم پر جو مواد لگے گا یا اُتارا جائے گا،وہ میری نگرانی میں ہو گا۔اسے سجانا سنوارنا میری ذمے داری ہے۔“
وہ مسرت بھرے لہجے میں کہے جا رہا تھا اور ہم دونوں والدین اسے خوشی سے دیکھ رہے تھے،میرا دل خدا کے شکر سے لبریز تھا اور اس کی ماں کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے۔یہ چھوٹی چھوٹی باتیں کتنی اہم ہوتی ہیں،کیسے لمحوں میں زندگی بول دیتی ہیں۔

Browse More Moral Stories