Supermen Ke Dadi - Article No. 1069

Supermen Ke Dadi

سپر مین کی وادی! - تحریر نمبر 1069

دادی نے کہا مجھے بھی لے چلو مجھے اپنا چشمہ بنوانا ہے صائم نے ایک نظر دادی کو دیکھا اور پھر لاڈ سے بولا دادی! آج تو میں ایک بہت ضروری کام جارہا ہوں کل آپ کو ضرور لے چلوں گا

جمعرات 4 جنوری 2018

مریم شہزاد:
سب بچوں کی ایک دادی اماں ہوتی ہیں کچھ دادی بہت بوڑھی ہوتی ہیں کچھ کی اتنی بوڑھی نہیں ہوتیں مگر چوں کہ وہ ہمارے ابو کی بھی امی ہوتی ہے اس لیے وہ ہمیں بہت بڑی لگتی ہیں مگر کچھ دادیاں تو بہت صحت مند اور توانا ہوتی ہے جیسے صائم کی دادی تھی جوں جوں صائم بڑا ہورہا تھا اسے لگتا تھا کہ دادی کمزور ہوتی جارہی ہے پہلے تو دادی کار بھی چلاتی تھیں وہ ہر جگہ صائم کو بھی ساتھ لے کر جایا کرتی تھیں مگر اب تو صائم خود بھی کار چلانے کے قابل ہوگیا تھا دادی کی خراب ہو تی صحت کو دیکھ کر اب ان پر کچھ پابندیاں لگادی گئی تھیں بالکل بچوں کی طرح یہاں نہ جائیں وہاں نہ جائیں بتا کرجائیں ان کے گاڑی چلانے پر پابندی لگادی گئی تھیں صائم کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے دادی کو سب نے پریشان کردیا تھا۔

(جاری ہے)

ایک دن دادی نے صائم سے کہا سپرمین!میرا ایک کام تو کردو؟“دادی صائم کو بچپن ہی سے پیار میں سپر مین کہتی تھیں پہلے تو وہ سپر مین کہنے سے بہت خوش ہوتا مگر اب چڑنے لگا تھا اس نے کہا دادی اب سپر مین نہ کہا کریں میں بڑا ہوگیا ہوں،ارے!تم تو میرے لیے اب بھی ننھے سپر مین ہو دادی نے لاڈ سے کہا اچھا بتائیں کیا کام ہے؟اس نے بیزاری سے پوچھا اور گھڑی کی طرف نظر دوڑائی چلو رہنے دو ابھی تم جلدی میں ہو کل بتادوں گی انہوں نے آہستہ سے کہا دوسرے دن بازار جارہا تھا تو دادی نے کہا مجھے بھی لے چلو مجھے اپنا چشمہ بنوانا ہے صائم نے ایک نظر دادی کو دیکھا اور پھر لاڈ سے بولا دادی! آج تو میں ایک بہت ضروری کام جارہا ہوں کل آپ کو ضرور لے چلوں گا۔
کل آئی پھر پرسوں اور پھر پورا ہفتہ گزر گیا اس دوران دادی نے دو ایک مرتبہ کہابھی کہ تمہارے ابو اور چاچا کے پاس ٹائم نہیں ہے اورکوئی مجھے اکیلے جانے بھی نہیں دے رہا تم ساتھ چلو مگر روز ہی صائم کوئی نہ کوئی بہانہ کردیتا۔صائم ایک دکان پر اپنے لیے کچھ پسند کررہا تھا کہ اسے قریب سے ایک بچی کی آواز سنائی دی شکریہ دادی اماں!آپ بہت اچھی ہے آپ میرے کام فوراً کردیتی ہے ابو کے پاس تو ٹائم ہی نہیں ہوتااور صائم کو اچانک پرانی باتیں یاد آگئیں ایک بار وہ گرم دوپہر میں جب وہ روتا ہوا دادی کے پاس آیا تھا کہ ابو کب سے وعدہ کررہے ہیں او ر مجھے نیا بیگ لاکر نہیں دے رہے آپ ابھی چلیں اس وقت دادی بہت تھکی ہوئی تھیں اور آرام کررہی تھی مگر اس کی خاطر وہ فوراً اٹھ گئیں اور بیگ دلا کر لائی تھیں اور وہ ایسا خوش ہوا تھا جیسے یہ بچی ہورہی تھی اسے خیال آیا کہ دادی کتنے دن سے کہہ رہی ہیں چشمہ بنوانے کو اور میں بھی کتنا بے حس ہوگیا سوچتا ہوں کہ دو چار دن چشمے کے بغیر نہیں رہ سکتیں وہ میرا کتنا خیال رکھتی ہیں اور میں صائم نے اپنا کام فوراً چھوڑا اور گھر آیا دروازہ دادی نے ہی کھولا وہ شاید کہیں جارہی تھیں اس نے پوچھا آپ کہیں جارہی ہیں؟بیٹا تمہارے ابو نے کہہ دیا ہے کہ قریب قریب کے کام خود خود کرلیا کریں سوچا قریبی چشمے کی دکان ہے وہاں سے بنوالوں کام تو چل ہی جائے گا صائم تو شرم سے جیسے زمین میں گڑگیا اور سر جھکا کر کہا نہیں دادی میںآ پ کو لیے چلتا ہوں آپ کو سب سے اچھا چشمہ بنواکردوں گا وہ دادی کا ہاتھ پکڑ کر کار تک لایا دادی خوش ہوگئیں اوران کے منہ سے بے اختیار نکلا میرا سپر مین آج صائم کو یہ سن کر بہت اچھا لگا اسے محسوس ہوا کہ بوڑھے بھی توبچوں کی طرح ہوتے ہیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہونے والے ان کو بھی ہر دم کسی کا ساتھ چاہیے ہمیں ان کا بھی ایسے ہی خیال رکھنا چاہیے جیسے بزرگ بچوں کا خیال رکھتے ہیں اس نے دل میں عہد کیا کہ اب وہ ہمیشہ اپنی دادی کا خیال رکھے گا۔

Browse More Moral Stories