Ammi Kehti Hai - Article No. 2631

Ammi Kehti Hai

امی کہتی ہے - تحریر نمبر 2631

امی سے کہنا بے کار ہے خالہ!وہ نہیں آئیں گی آپ کے گھر،امی ابو اکثر اس ناپاک کتے کے بارے میں باتیں کرتے ہیں جو آپ نے اپنے گھر میں پالا ہوا ہے اور یہ بھی کہتی ہیں کہ ناپاک جانور سے آپ کے گھر سے برکت بھی اُٹھ چکی ہو گی

بدھ 14 فروری 2024

فہیم زیدی
عدیل اپنے دوست کبیر کے ہمراہ بازار سے سبزی لے کر گھر کی جانب آ رہا تھا۔سامنے سے ارسلان آتا دکھائی دیا۔یہ تینوں ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔قریب پہنچ کر ارسلان نے ہاتھ اس کی جانب بڑھایا تو عدیل نے اس سے ہاتھ نہ ملانے کا عذر پیش کرتے ہوئے کہا:”میں ہاتھ نہیں ملا سکتا،میرے ہاتھ کی انگلیوں میں کافی دنوں سے درد ہے۔

”اوہ تو بھائی!جلدی کسی ڈاکٹر کو دکھاؤ۔“ ارسلان نے دوسرے دوست کبیر سے ہاتھ ملاتے ہوئے عدیل کو ہمدردی سے مشورہ دیا۔
”اچھا میں ذرا جلدی میں ہوں امی نے یہ سبزی لینے بازار بھیجا تھا۔“ عدیل نے ارسلان سے جان چھڑانے کی کوشش کی۔
ارسلان آگے بڑھ گیا تو کبیر نے عدیل سے کہا:”تم نے اس سے جھوٹ کیوں بولا کہ تمہارے ہاتھ میں درد ہے اور اس سے ہاتھ بھی نہیں ملایا۔

(جاری ہے)


”بھائی!میری امی کہتی ہیں،ان کا پورا ہی گھر ملنے جلنے کے قابل نہیں ہے۔“ عدیل نے وجہ بتائی۔
”ایسا کیا کر دیا ان لوگوں نے،جو ملنے کے قابل ہی نہیں رہے؟“ کبیر نے ایک بار پھر اصرار کیا۔ان لوگوں نے اپنے گھر میں ناپاک جانور کتا رکھا ہوا ہے۔
”کتے تو اکثر لوگوں کے گھر میں پالے جاتے ہیں،اس لئے کہ وہ وفادار ہوتے ہیں اور گھر کی رکھوالی بھی کرتے ہیں۔
“ کبیر نے عدیل کی بات پر حیران ہو کر کہا۔
”بس بھئی میری امی نے کہا ہے کہ ان کے گھر نہ جانا ہے اور نہ ان لوگوں سے بات کرنی چاہیے۔“ عدیل نے امی کا فیصلہ سنایا اور اپنے گھر میں داخل ہو گیا۔
سنو بیٹا!ارسلان کی امی خالہ رشیدہ نے گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر عدیل کو آواز دے کر کہا:”اپنی امی سے کہنا کہ آج شام چار بجے ہمارے ہاں قرآن خوانی میں آ جائیں۔
“ ارسلان کی امی نے بہت شفقت سے کہا۔
”امی سے کہنا بے کار ہے خالہ!وہ نہیں آئیں گی آپ کے گھر،امی ابو اکثر اس ناپاک کتے کے بارے میں باتیں کرتے ہیں جو آپ نے اپنے گھر میں پالا ہوا ہے اور یہ بھی کہتی ہیں کہ ناپاک جانور سے آپ کے گھر سے برکت بھی اُٹھ چکی ہو گی۔“ عدیل نے بلا تکلف صاف صاف کہہ دیا۔
”ٹھیک ہے بیٹا!بہت شکریہ،یہ سب بتانے کا۔
“ ارسلان کی امی نے افسوس سے کہا اور گھر کے اندر چلی گئیں۔
”تمہاری یہ بہت غلط بات ہے عدیل!کہ تم صرف اس بات پر ارسلان سے بات نہیں کرنا چاہتے کہ اس کے گھر میں کتا ہے۔“ ایک روز عدیل کے دوست کبیر نے اسے سمجھانے کے لئے کہا۔
”دیکھو بھائی!میرے والدین جو مجھ سے کہیں گے میں ویسا ہی کروں گا۔“ عدیل نے ارسلان سے بات نہ کرنے کی وجہ بتائی:”اور تم اس کی زیادہ حمایت مت کرو،جو میری امی کا حکم ہے،میں ویسا ہی کر رہا ہوں بس۔
“ عدیل نے اٹل انداز میں کبیر سے کہا تو کبیر نے عدیل سے زیادہ بات کرنا مناسب نہیں سمجھا اور خاموش ہو گیا۔
”تم کو معلوم ہے کبیر!ہمارا کتا بہت ہی وفادار ہے،اس نے ایک دفعہ ہمارے گھر چوری کی واردات ناکام بنا دی۔“ ارسلان نے بعد میں کبیر کو بتایا۔
عدیل پاس کھڑا تھا،بولا:”وہ تو ہر کتا ہی وفادار ہوتا ہے۔میری امی نے کہا ہے کہ جن کے گھر ناپاک جانور ہوں ان سے دور رہنا چاہیے۔

ارسلان کی والدہ،عدیل کے گھر پہنچ گئیں اور بولیں:”بہن ثریا!آپ کے خیالات جان کر بہت دکھ ہوا مجھے۔“
”بھلا میں نے ایسی کیا بات کر دی،کس بات کا افسوس ہوا آپ کو؟“ عدیل کی امی جن کو اس طرح اچانک رشیدہ خالہ کا اپنے گھر چلے آنا بُرا لگا،ناگواری کے انداز میں پوچھا۔
”آپ اپنے بچے کو یہ کیا تربیت دے رہی ہیں۔“ رشیدہ خالہ نے بات شروع کی۔

”کیسی تربیت کی،کیا مطلب،میں کچھ سمجھی نہیں؟“ عدیل کی امی نے پوچھا۔
”وہ سب سے یہی کہتا پھر رہا ہے کہ ہم نے کتا پالا ہے تو ہمارے گھر سے برکت اُٹھ چکی ہے۔“ ارسلان کی امی اصل بات کی طرف آئیں۔
”بُرا مت ماننا بہن!کتے اور اس جیسے غلیظ جانور کم از کم کسی مسلمان کے گھر میں تو نہیں ہونے چاہئیں۔“ عدیل کی امی نے اب صاف صاف کہا۔

”بہن!تین سال پہلے جب یہ پلا تھا،تب تیز برسات میں راستے میں شدید ٹھنڈ سے ٹھٹھر رہا تھا تو اس وقت میرے شوہر کو اس پر ترس آ گیا اور وہ اسے اُٹھا کر گھر لے آئے۔اس کے زخموں پر مرہم لگایا،اسے دودھ پلایا۔اس کا چند روز یہ سوچ کر خیال رکھا کہ ٹھیک ہو جائے گا تو اسے واپس جنگل میں چھوڑ آئیں گے،مگر اس کے بعد یہ معصوم جانور تو اس قدر ہم سے مانوس ہو گیا کہ ہمارا گھر چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوا۔
کئی بار ہم نے اسے دور جنگل میں چھوڑا،مگر پھر دوسرے دن ہمارے دروازے پر ہوتا تھا،پھر ہمیں بھی اس پر رحم آ گیا۔ہم نے اسے مستقل اپنے پاس گھر کے پیچھے اسے جگہ دے دی۔کیا وہ ہمدردی ہم نے جو اس کتے کے ساتھ کی کیا وہ سب غلط تھا،کیا ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا،کیا اللہ کے نزدیک بھی ہماری یہ نیکی،یہ ہمدردی فضول اور لاحاصل تصور ہو گی۔“ خالہ رشیدہ ایک سانس میں بولتی چلی گئیں۔

”جی بہن!کہہ تو آپ ٹھیک رہی ہیں جس بے زبان جانور کے ساتھ ہمدردی کی جائے وہ تو بعد میں احسان مند ہو کر آپ کا ہی ہو کر رہ جاتا ہے۔“ عدیل کی امی نے اب شرمندگی سے کہا۔
”انسانوں کے ساتھ ساتھ بے زبان جانوروں سے بھی ہمدردی،پیار،محبت اور ان کا خیال رکھنا بھی تو ایک اچھا مسلمان ہونے کی علامت ہے اور اللہ کی طرف سے بھی ہمیں یہی حکم ہے۔
“ خالہ رشیدہ نے نرم پڑتے ہوئے کہا۔
”بالکل بہن!آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔“ عدیل کی امی کو بھی اب اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا۔
”اگر ہم نے کتے کو اپنے گھر کے پچھلے حصے کے ایک کونے میں جگہ دے دی تو کیا ہم مسلمان نہیں رہے؟“ خالہ رشیدہ نے کہا۔
”مجھے معاف کر دینا بہن!آپ نے تو میری آنکھیں کھول دی ہیں۔“ عدیل کی امی نے شرم سار ہو کر کہا۔

”آپ کی اس تربیت کی وجہ سے آپ کے بیٹے عدیل میں بھی غلط خیالات پیدا ہو رہے ہیں۔آپ کا بیٹا بات بات پر میری امی کہتی ہیں،میری امی کہتی ہیں“ کی تکرار کرتا رہتا ہے۔یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔خالہ رشیدہ نے عدیل کی امی کو نرمی سے سمجھایا۔
”جی میں بہت غلط کر رہی تھی،مجھے معاف کر دیں رشیدہ بہن!اب ایسا نہیں ہو گا،بلکہ میں اب اپنے بیٹے کو بھی سمجھاؤں گی۔“ عدیل کی امی ثریا نے اپنی غلطی مان کر کہا۔
”میری بات سمجھنے کے لئے آپ کا بہت بہت شکریہ۔مہربانی کر کے اپنے بچے کے سامنے ایسی کوئی بات نہ کیا کریں جس سے اس کی سوچ منفی ہو جائے۔ارسلان کی امی نے کہا اور خوش ہو کر ان کے گھر سے نکل گئیں۔“

Browse More Moral Stories