Azadi Ki Kahani Dada Jaan Ki Zubani - Pehla Hissa - Article No. 2567

Azadi Ki Kahani Dada Jaan Ki Zubani - Pehla Hissa

آزادی کی کہانی دادا جان کی زبانی (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2567

ہر طرف بربریت کا راج تھا اسی ظلم و ستم اور غارت گری میں مجھ سمیت سینکڑوں افراد اپنے پیاروں سے بچھڑ گئے

ہفتہ 12 اگست 2023

حافظ غلام صابر
14 اگست کا دن ایک خاص اہمیت کا حامل اور حب الوطنی کے جذبے سے بھرپور ایک یادگار دن ہے۔اسی دن برصغیر کے مسلمانوں کے نحیف و نزار لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اپنی ذہانت،فطانت،دیانت،جہدِ مسلسل اور عظیم قائدانہ صلاحیتوں کے زور پر انگریزوں اور ہندوؤں کو چاروں شانے چت کر کے ہمارے لئے الگ وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
جب ہزاروں خاندانوں نے اپنی جائے پیدائش،گھر بار،کاروبار سب کچھ چھوڑ کر ایک نئے وطن کی طرف ہجرت کی اور ان دیکھی سر زمین کی طرف نئی امیدوں کے ساتھ چل پڑے۔لاکھوں افراد اپنے پیاروں سے بچھڑ گئے۔نجانے کتنے بچے اپنی ماؤں سے جدا ہو گئے کتنی بہنوں،بیٹیوں،ماؤں کو وحشیانہ آبروریزی کے بعد ذبح کر دیا گیا۔

(جاری ہے)

اس ملک کی بنیادوں میں لاکھوں مسلمانوں کا خون شامل ہے لیکن بدقسمتی سے آج کے نوجوان مملکتِ خداداد پاکستان کے قیام کے مقاصد کے لئے دی جانے والی عظیم قربانیوں کو فراموش کر چکے ہیں۔

آج بھی پاکستان کے حصول کیلئے دی جانے والی قربانیوں کی یاد کو زندہ رکھنا انتہائی ضروری ہے اس ملک کے قیام کے پیچھے ہزاروں لرزہ خیز کہانیاں دفن ہیں۔ان کہانیوں میں ایک کہانی لاہور کے علاقہ گڑھی شاہو میں مقیم راقم الحروف کے دادا محمد رمضان کی ہے۔جب میں نے اپنے دادا سے یہ داستان سنی تو اس وقت ان کی عمر بیاسی (82) سال تھی۔برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کو 50 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا تھا لیکن اس تقسیم کے نتیجے میں محمد رمضان اور ان کے خاندان پر گزرنے والی قیامت کا ایک ایک لمحہ ان کے ذہن پر نقش تھا۔
تقسیم کے دوران گزرنے والی قیامت صغریٰ کے واقعات محمد رمضان کی زبانی سنتے ہیں۔
”میرا خاندان برصغیر کی تقسیم سے پہلے امرتسر کے مشہور علاقہ خزانہ گیٹ کا رہائشی تھا تقسیمِ ہند کے وقت میری عمر اٹھائیس،انتیس سال تھی۔میرا ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی۔امرتسر میں ہمارا چارپائیاں بنانے اور برتن قلعی کرنے کا وسیع کاروبار تھا۔پاکستان کا قیام 26 ماہ رمضان المبارک 1368ھ بمطابق 14 اگست 1947ء عمل میں آیا۔
یہ اللہ تعالیٰ کی کسی خاص مصلحت یا مشیت کی طرف اشارہ تھا کیونکہ یہ رات لیلة القدر تھی۔اگلا دن 27 رمضان المبارک اور جمعة الوداع تھا اور اس کے تین روز بعد عید الفطر آنے والی تھی۔مسلمانوں کیلئے یہ ہر اعتبار سے ایک مبارک رات،مبارک دن اور مبارک ماہ تھا۔پورے ہندوستان کے مسلمان خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔جشنِ آزادی کی تیاریوں میں مبارک بادیں دی اور لی جا رہی تھیں۔
نعرہ تکبیر بلند ہو رہے تھے۔
گلی گلی،گاؤں گاؤں اور شہر شہر‘پاکستان زندہ باد‘ اور ’قائد اعظم زندہ باد‘ کے فلک شگاف نعرے گونج رہے تھے۔
دوسری جانب ہندوؤں اور سکھوں کے سینے پر سانپ لوٹ رہے تھے۔ان کے ہاں سوگ برپا ہو گیا،صفِ ماتم بچھ گئی اور آہ و بکا شروع ہو گئی۔تقسیمِ ہند کے اعلان کے بعد پورے پنجاب میں ہندو،سکھ مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔
15 اگست 1947ء کو ہمارے گاؤں کے مسلمانوں سکھوں کے مظالم کے ڈر سے اپنی عزتوں اور زندگیوں کو بچانے کی کوشش میں بے سر و سامانی کے عالم میں اپنے گھر بار چھوڑ کر پاکستان کی طرف روانہ ہوئے۔ابھی چند کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا تھا کہ سکھوں کے ایک مسلح جتھے نے ہمارے قافلے پر بندوقوں تلواروں،کرپانوں،نیزوں،برچھیوں اور کلہاڑیوں سے حملہ کر دیا اس حملے میں اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں کے دفاع کے لئے قافلے کے ہم چند مسلمانوں جوان سینہ تان کر سکھوں کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے۔
اس موقع پر ہمارے کئی نوجوان ساتھیوں کو شہید کر دیا گیا اور قافلے کے تمام لوگ ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر گئے۔ہر طرف بربریت کا راج تھا اسی ظلم و ستم اور غارت گری میں مجھ سمیت سینکڑوں افراد اپنے پیاروں سے بچھڑ گئے۔
(جاری ہے)

Browse More Moral Stories