Saudi Arab K Parcham Ki Kahani Kiya Hai? - Article No. 1538
سعودی عرب کے پرچم کی کہانی کیا ہے؟ - تحریر نمبر 1538
عصر حاضر میں جب خود مختار ریاستوں کا رواج آیا تب ہی ہر ملک نے اپنا الگ الگ پرچم بھی بنایا۔ہر ملک کا پرچم منفرد ہے۔
بدھ 9 اکتوبر 2019
وانیہ امین
پیارے بچو!عصر حاضر میں جب خود مختار ریاستوں کا رواج آیا تب ہی ہر ملک نے اپنا الگ الگ پرچم بھی بنایا۔ہر ملک کا پرچم منفرد ہے۔قومی پرچم سرکاری تقریبات میں لہرائے جاتے ہیں ۔پرچم کے سلسلے میں دنیا بھر کے ممالک کے درمیان مسابقت اور مقابلہ آرائی بھی چلتی رہتی ہے۔قدرتی آفات اور سوگ کے مواقع پر قومی پرچم سرنگوں کرنے کی روایت دنیا بھر میں پائی جاتی ہے۔
سعودی پرچم کی تاریخ کہاں سے شروع ہوتی ہے؟سعودی تاریخ کی پروفیسر ڈاکٹر حنان الجد عانی بتاتی ہیں کہ اس کی تاریخ 18ویں صدی عیسوی میں قائم ہونے والی پہلی سعودی ریاست سے شروع ہوتی ہے ۔
(جاری ہے)
ریاست کا نام ”ریاست نجدوحجاز“رکھا گیا۔اس کے پرچم سے تلوار خارج کردی گئی۔پرچم کی شکل سفید اور رنگ سبز رکھا گیا۔1926ء سے 1932ء تک ریاست نجدوحجاز کے نام والا پرچم رائج رہا۔بعض حوالوں میں بتایا گیا ہے کہ شاہ عبدالعزیز کو پرچم کا ڈیزائن ان کے مشیر حافظ وھبہ نے تیار کرکے دیا تھا اور انہوں نے ہی قومی ترانہ بھی کمپوز کیا تھا۔
سعودی عرب کے نئے پرچم کی شکل کیا ہے؟
سعودی عرب کا نیا قومی پرچم شاہ فیصل کے دور میں 15مارچ1973ء کو تیارکیا گیا۔یہ مستطیل(لمبوتری)شکل کا ہے۔اس کی چوڑائی اس کی لمبائی کے 2تہائی کے برابر ہے۔اس کارنگ سبز ہے۔پرچم کے بیچ میں کلمہ(لا الہ الااللہ محمدرسول اللہ)خط ثلث میں تحریر ہے ۔کلمہ کے نیچے عربی تلوار بنی ہوئی ہے۔اس کے دستے کارخ پرچم کے سٹینڈ کی جانب ہے۔تلوار اور کلمے کارنگ سفید ہے۔زمین سبز ہے۔رسم الخط عربی ہے جو اسلام سے نسبت کی علامت ہے۔سعودی پرچم میں تلوار کی شکل اس بات کی علامت ہے کہ انصاف کے سلسلے میں ریاست کسی لاگ لپیٹ سے کام نہیں لے گی جبکہ کلمے کا اندراج یہ ظاہر کرتاہے کہ ریاست نفاذ شریعت کے حوالے سے پر عزم ہے۔
سعودی پرچم کسی بھی حالت میں سرنگوں نہیں کیا جاتا۔سوگ ہو،قدرتی آفت نازل ہو ،کوئی بڑا سانحہ رونما ہو جائے کسی بھی حالت میں اسے سرنگوں نہیں کیا جاتا ہے اور نہ ہی اسے نیچے کیا جاتاہے۔اسے زمین اور گندے پانی پر رکھنے،ناپاک مقامات پر لے جانے یا پرچم پر بیٹھنے کی ممانعت ہے۔یہ پابندی اس پر تحریر کلمے کے احترام میں کی جاتی ہے۔اس پر تلوار کا نقش قومی افتخار کی علامت ہے۔
سعودی پرچم کہاں استعمال ہو سکتا ہے؟پرچم کا نقش قمیضوں پر منع ہے۔سعودی سپورٹس حکام نے کھیلوں کے مقابلوں میں عوام کے لیے متبادل پرچم تیار کر رکھا ہے۔فٹ بال ورلڈ آرگنا ئزیشن نے 2002ء میں پروگرام بنایا تھاکہ شائقین ورلڈفٹ بال کپ میں شریک ممالک کے جھنڈوں پر براجمان ہوں گے۔سعودی عرب نے سرکاری بیان دے کر خبر دار کردیا تھا کہ اسے اپنے پرچم کی توہین برداشت نہیں ہو گی۔
ایسا ہی ایک واقعہ افغانستان میں ہونے والا تھا جہاں امریکی افواج نے ایک فٹ بال تیار کی تھی جسے سعودی عرب سمیت تمام ممالک کے پرچموں سے سجایا گیا تھا۔جشن فتح کا کھیل اسی فٹ بال سے کھیلا جانے والا تھا۔سعودی عرب نے اس موقع پر بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔
شاہی پرچم
سعودی عرب کا شاہی پرچم بھی ہے۔یہ قومی پرچم سے ملتا جلتاہے۔اس کے زیریں حصے میں ملک کا لوگو تلواروں کی کڑھائی سونے کے ریشمی دھاگوں سے بنایاگیا ہے۔تلواروں پر کھجور کا درخت بناہوا ہے۔شاہ فیصل نے 1973ء میں اس کی منظوری دی تھی۔
سول پرچم
یہ سمندر میں تجارتی جہازوں پر لہرایا جاتاہے۔اس کی زمین سبز ہے۔اس کے اندر قومی پرچم بنا ہوا ہے۔پرچم کے اطراف سفیددھاری ہے۔
فوجی پرچم بری ،بحری اور فضائی افواج کے پرچم ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
سعودی سمندر میں داخل ہونے والے ہر غیر ملکی جہاز کو وہ تجارتی ہو یا جنگی سعودی پر چم لہرانا ہوتاہے۔
سعودی عرب میں جمعہ کے دن اور تہواروں کے مواقع پر تمام سرکاری عمارتوں اور پبلک اداروں پر قومی پرچم سورج طلوع ہونے سے لیکر غروب آفتاب تک لہرایا جاتاہے۔
Browse More Moral Stories
محنت رائیگاں نہیں جاتی
Mehnat Raigan Nahi Jati
بارہ اسلامی مہینوں پر مختصر نظر
12 Islami Months Per Mukhtasar Nazar
مکّار پری (پہلی قسط)تحریر: مختار احمد
Makkar Pari
بڑا کام
Baraa Kaam
روپ بہروپ
Roop Behroop
طہارت نصف ایمان
Taharat Nisf Imaan
Urdu Jokes
ایک مصور
Aik musawir
بیٹا باپ سے
Beta baap se
ایک آدمی پرندوں کی دوکان
aik aadmi parindon ki dukaan
استاد
Ustaad
آہ، سردار جی
aah, sardar jee
دو قیدی
Do qaidi
Urdu Paheliyan
گونج گرج جیسے طوفان
gounj garaj jesy toufan
چلتی جائے ایک کہانی
chalti jaye ek kahani
جیسا تو ہے وہ بھی ویسی
jaisa tu hai wo bhi wesi
کوئی ہڈی اور نا بال
koi haddi or na baal
اس کا دیکھا ڈھنگ نرالا
uska dekha rang nirala
گرجی ہو کر لال بھبوکا
garji ho kar lal bhaboka