Chamakta Chand Sitara Rahe (Akhri Qist) - Article No. 1781

Chamakta Chand Sitara Rahe (Akhri Qist)

چمکتا چاند ستارہ رہے (آخری قسط) - تحریر نمبر 1781

ابھی سب جھنڈیوں سے فارغ ہوئے تھے کہ ان کے ابو سرور صاحب اور چاچو امجد نے بچوں کو آواز دی کہ کمرے میں آجاؤ دھوپ تیز ہو رہی ہے

بدھ 19 اگست 2020

توصیف سرور کمبوہ
ننھی اسما رہ نے اپنے ماموں عدید کا کافی ہاتھ بٹایا جیسے گوند والے پیالے کو ختم ہوتا دیکھتی فوراً دوبارہ بھر کرلے آتی اور عدید دھڑا دھڑ جھنڈیاں جوڑتا رہا جبکہ نور فاطمہ ابھی بہت چھوٹی تھی وہ شرارتوں میں مگن پھر وہ باہر گلی میں گندے پانی اور کیچڑ میں لت پت بیٹھی کھیل رہی تھی جب اس کی مما کی نظر پڑی تو فوراً اسے گھر لے کر آئی اور نہلا کر سفید فراک جس پر سبز چاند تارے بنے ہوئے تھے پہنا دیئے پھر نور فاطمہ اپنے نانا ابو کے پاس بیٹھی ٹی وی دیکھنے لگی۔
ابھی سب جھنڈیوں سے فارغ ہوئے تھے کہ ان کے ابو سرور صاحب اور چاچو امجد نے بچوں کو آواز دی کہ کمرے میں آجاؤ دھوپ تیز ہو رہی ہے اور ٹی وی پہ پریڈ شروع ہونے لگی ہے سب بچے آکر دیکھ لو بعد میں سب نہا کر سفید اور سبز سوٹ پہن لینا اور ان پر سٹیکر بھی لگا لینا۔

(جاری ہے)

سب بچے پریڈ دیکھنے لگے جب پروگرام ختم ہو گیا تو ارسلان نے بلند آواز میں اعلان کیا۔


ابو میں پڑھ لکھ کر آرمی جوائن کرلوں جی بیٹا کیوں نہیں!ضرور”اسمارہ،نور فاطمہ اور احد کے ابو بھی تو اتنے عرصے آرمی میں افسر ہیں ہم ان کو کہہ کر آپ کو لگوادیں گے ابھی تو تم نویں جماعت میں ہو۔کچھ عرصہ صبر کرو اور اعلیٰ تعلیم کے لئے میں تم کو شہر کے بڑے کالج میں داخل کروں گا کیونکہ ہمارے گاؤں میں تو ایسی کوئی سہولیات نہیں ہیں۔اپنے پوتے ارسلان کی یہ خواہش سن کر اس کے دادا جی کا سینہ فخر سے بلند ہو گیا۔

پھر سب نے نہا دھو کر نئے سفید رنگ کے شلوار قمیض پہن لئے اور سروں پر سبز ہلالی پرچم والی ٹوپیاں پہن لیں۔حسان نے سب کو عمدہ قسم کے سٹیکر دئیے جو وہ اگست کے شروع سے ہی جمع کر رہا تھا وہ روز مرغی کا ایک انڈا بیچ کر پیسے جمع کرتا رہا۔اس کی والدہ روز اپنے بچوں کو ایک ایک انڈا دیتی کہ کھا لیا کرو ان کے گھر کافی مرغیاں تھی لیکن ان دنوں گھر کے حالات کچھ بہتر نہ تھے۔
نیا گھر بنایا اور اوپر سے بڑے بھائی کی شادی کی اس لئے کافی اخراجات ہو گئے۔پیسوں کی قلت تھی کچھ دن پہلے تو عید الاضحی گزری اس لئے حسان روز چپکے سے ایک انڈا نعمان بھائی کی شاپ پہ بیچ آتا اور پیسے جمع کرتا رہا آج اس نے ان پیسوں سے سٹیکر خرید لئے اور اپنے بھائیوں کو گفٹ کر دیئے اس کے اس جذبے سے سب بہت حیران ہوئے اور ممانی تصور نے اس کو گلے لگا لیا حسان بہت خوش ہوا۔

”ابو جی! آج ہمیں آپ شہر تھوڑی دیر گھمانے لے کر چلیں کیونکہ اس بار 14اگست ایسے دنوں میں آیا کہ تعلیمی ادارے بند ہیں لیکن اب لاک ڈاؤن میں نرمی کر دی گئی ہے۔اس لئے تھوڑا شہر میں گھوم پھر آتے ہیں ہمیں سفاری پارک لے چلیں اور کچھ کھلا پلا دیں۔ہم مینار پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں”عدید نے ضد آمیز لہجے میں کہا۔“ہاں پُتر سرور !جالے جا ان معصوم پھولوں کو ذرا تفریح ہو جائے گی ان کی۔
”دادا جی نے اپنی جیب سے دو سو روپے بھی نکال کر اپنے بیٹے کو تھما دئیے۔سرور صاحب نے بالآخر بچوں کی ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیئے۔ ہُرے ہمارے ابو زندہ باد عدید اور ارسلان نے خوشی سے نعرے لگائے۔پھر یہ سارا قافلہ رکشہ پر بیٹھ کر شہر کی طرف چلا آیا۔راستے میں انہوں نے دیکھا کہ آج کچھ خلاف معمول لوگوں کی آمد ورفت تھی اور ہر طرف سبز ہلالی پرچم اور جھنڈیاں لہرا رہی تھیں۔

جاتے ہوئے ان کی والدہ عنایت بی بی نے ان کو سبز کلر میں دیدہ زیب ماسک بھی دیئے کہ بیٹا یہ حفاظتی ماسک لازمی پہن لو جو دیکھنے میں بھی دلفریب تھے اور ضرورت بھی تھی۔ہاتھوں میں سبز ہلالی پرچم پکڑے جوش و خروش سے یہ قافلہ جا رہا تھا۔سرور صاحب کا رکشہ ہواؤں سے باتیں کرتا جا رہا تھا اور عدید نے اس میں ملی نغمے فل آواز میں لگا رکھے تھے اور توصیف حسن اور ضمن رکشے کی چھت پر بیٹھے پرچم لہرا رہے تھے ۔
اسمارہ،نور فاطمہ،احد اور حسان چھوٹے تھے اس لئے وہ رکشہ کے اندر بیٹھے مسکراہٹیں بکھیرتے جا رہے تھے۔تفریحی پارکوں میں زیادہ رش نہیں تھا۔چندا کا دکا لوگ تھے لیکن پارک بھی جھنڈیوں سے سجے ہوئے تھے اور باہر سکیورٹی والے بھی کھڑے تھے ۔وہ بغیر ماسک والے بچے کو اندر نہیں جانے دے رہے تھے اور سب کے ہاتھوں پر سینی ٹائزر کا چھڑکاؤ کر رہے تھے۔
زیادہ رش نہیں لگنے دے رہے تھے اور جلدی جلدی بچوں کو باہر نکال دیتے کہ ہجوم نہ بنے۔
تھوڑی دیر میں بچے پارک سے زبردستی باہر نکالے سرور صاحب نے پھر بچوں نے برف کے گولے والے انکل کی ریڑھی کی طرف دیکھ کر شور مچا دیا کہ ہم برف کے گولے کھائیں گے برف کے گولے کھا کر عدید نے سب کو اکسایا کہ اب کچھ نمکین چیز ہو جائے سب نے کہا”زندہ باد عدید بھائی“اور سرور صاحب کے سر ہو گئے اور سموسے پکوڑے کھا کر ہی دم لیا۔
انہوں نے سرور صاحب کی جیب کو کافی ہلکا کر دیا اب سرور صاحب نے واپسی کا ارادہ کیا اور رکشہ صاف کرنے لگے جس میں توصیف نے ان کی مدد کروائی ۔حسن اور ضمن باری باری بچے گن کر رکشہ میں بیٹھاتے جا رہے تھے۔نور فاطمہ اور احد نے اپنے کپڑے برف کے گولوں سے خراب کر لئے اور ڈر رہے تھے کہ امی سے اب ڈانٹ پڑے گی لیکن ارسلان نے دلاسہ دیا کہ کچھ نہیں کہتی آج تو آزادی کا دن ہے انجوائے کرو سب اداس مت ہو۔

سرور صاحب کا رکشہ ہچکولے کھاتا واپسی کے لئے رواں دواں تھا۔ایک جگہ پہ بڑا کھڈا تھا اور بہت بڑا جمپ لگا اور بچوں کی خوف سے چیخیں نکل گئیں پھر حسن نے نور فاطمہ کو پکڑلیا اور اسمارہ کا بازو توصیف نے پکڑ لیا یوں یہ قافلہ بخیریت گھر واپس آگیا”بچو!پھر انجوائے کیا آج کا دن؟“عنایت بی بی بولیں،جی تائی امی بہت زیادہ حسان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
مغرب کی اذان ہو چکی تھی سب نے نماز ادا کی رات کا کھانا تیار تھاگاؤں میں لوگ مغرب ٹائم ہی رات کا کھانا کھا لیتے ہیں۔مامی تصور نے بہت مزے کا سوجی کا حلوہ بنایا تھا سب نے کھانا کھا کر میٹھا کھایا اور پھر دادا جی کے کمرے کی طرف چل دئیے۔دراصل دادا جی روز بچوں کو کہانی سناتے تھے۔جب دادا کے کمرے میں داخل ہوئے تو وہ چار پائی پہ بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔
اس وقت ان کے پاس چاچو امجد اور قاری عباس صاحب بیٹھے تھے یہ ان کا روز کا معمول تھا کھانے کے بعد حقہ پینے اور روز مرہ کے حالات پہ بحث و مباحثہ اور تبصرے کرتے۔عدید نے دادا جی کے پاس جا کر آہستگی سے کہا”دادا جی ہم نے کہا نی سننی ہے آپ کب فری ہوں گے۔“اتنے میں قاری عباس اور چاچو امجد اٹھ کر بیٹھک میں چلے گئے تو دادا نے اشارہ کیا آجاؤ سب۔

دادا جی کوئی اچھی سی کہانی سنایئے نا توصیف نے ان کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔”ارے بچو!میرا تو خیال تھا آج آپ لوگ تھک چکے ہوں گے اور کہانی سننے کے لئے نہیں آئیں گے۔“
”واقعی دادا جی ہم تھک تو کافی گئے ہیں لیکن ہمیں کہانی سنے بغیر نیند نہیں آئے گی۔“ارسلان بولا۔چلو بچوں!ٹھیک ہے میں تم لوگوں کے اصرار پر کہانی ضرور سناؤ گا۔

Browse More Moral Stories