Hazir Dimagh - Article No. 2585

حاضر دماغ - تحریر نمبر 2585
اب اس کا قصور وار کون ہے؟
ہفتہ 7 اکتوبر 2023
غلام فرید کمبوہ
ایک قاضی صاحب نے اپنے شاگردوں کا امتحان لینے کے لئے ان کے سامنے ایک مقدمہ رکھا اور ان کو اپنی رائے لکھنے کو کہا۔
ایک شخص کے گھر مہمان آئے۔اس نے ان کی خاطر مدارات کے لئے اپنے ملازم کو دودھ لینے بھیجا،تاکہ مہمانوں کے لئے کھیر بنائی جا سکے۔ملازم دودھ کا برتن سر پر رکھے آ رہا تھا کہ اوپر سے ایک چیل گزری جس کے پنجوں میں سانپ تھا۔سانپ کے منہ سے زہر کے قطرے نکلے جو دودھ میں جا گرے۔مہمانوں نے اس دودھ سے بنی کھیر کھائی تو سب ہلاک ہو گئے۔اب اس کا قصور وار کون ہے؟
پہلے شاگرد نے لکھا:”یہ غلطی ملازم کی ہے اسے برتن ڈھانپنا چاہیے تھا۔لہٰذا مہمانوں کا قتل اس کے ذمے ہے اسے سزا دی جائے گی۔“
قاضی صاحب نے کہا:”یہ بات درست ہے کہ ملازم کو برتن ڈھانپنا چاہیے تھا،لیکن یہ اتنا بڑا جرم نہیں کہ اسے موت کی سزا دی جائے۔
“
دوسرے شاگرد نے لکھا:”اصل جرم گھر کے مالک کا ہے۔اسے پہلے خود کھیر چکھنی چاہیے تھی،پھر مہمانوں کو پیش کرنی چاہیے تھی۔“قاضی صاحب نے یہ جواز بھی مسترد کر دیا۔
تیسرے نے لکھا:”یہ ایک اتفاقی واقعہ ہے۔مہمانوں کی تقدیر میں مرنا لکھا تھا۔اس میں کسی کو سزا وار قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔“
قاضی صاحب نے کہا:”یہ کسی جج کی سوچ نہیں ہونی چاہیے۔جج اگر مقدمات تقدیر پر ڈال دے گا تو انصاف کون کرے گا!“
چوتھے نے کہا:”سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ یہ سارا منظر کس نے دیکھا کہ چیل کے پنجوں میں سانپ ہے؟کس نے سانپ کے منہ سے زہر نکلتا دیکھا؟اگر اس منظر کا گواہ ملازم ہے تو وہ مجرم ہے۔اگر گواہ مالک ہے تو وہ مجرم ہے اور اگر کوئی گواہ نہیں تو جس نے یہ کہانی گھڑی ہے؟وہ قاتل ہے۔“
قاضی صاحب نے اپنے چوتھے شاگرد کو شاباش دی اور صرف اسے قاضی کے منصب کا اہل قرار دیا۔
ایک قاضی صاحب نے اپنے شاگردوں کا امتحان لینے کے لئے ان کے سامنے ایک مقدمہ رکھا اور ان کو اپنی رائے لکھنے کو کہا۔
ایک شخص کے گھر مہمان آئے۔اس نے ان کی خاطر مدارات کے لئے اپنے ملازم کو دودھ لینے بھیجا،تاکہ مہمانوں کے لئے کھیر بنائی جا سکے۔ملازم دودھ کا برتن سر پر رکھے آ رہا تھا کہ اوپر سے ایک چیل گزری جس کے پنجوں میں سانپ تھا۔سانپ کے منہ سے زہر کے قطرے نکلے جو دودھ میں جا گرے۔مہمانوں نے اس دودھ سے بنی کھیر کھائی تو سب ہلاک ہو گئے۔اب اس کا قصور وار کون ہے؟
پہلے شاگرد نے لکھا:”یہ غلطی ملازم کی ہے اسے برتن ڈھانپنا چاہیے تھا۔لہٰذا مہمانوں کا قتل اس کے ذمے ہے اسے سزا دی جائے گی۔“
قاضی صاحب نے کہا:”یہ بات درست ہے کہ ملازم کو برتن ڈھانپنا چاہیے تھا،لیکن یہ اتنا بڑا جرم نہیں کہ اسے موت کی سزا دی جائے۔
(جاری ہے)
دوسرے شاگرد نے لکھا:”اصل جرم گھر کے مالک کا ہے۔اسے پہلے خود کھیر چکھنی چاہیے تھی،پھر مہمانوں کو پیش کرنی چاہیے تھی۔“قاضی صاحب نے یہ جواز بھی مسترد کر دیا۔
تیسرے نے لکھا:”یہ ایک اتفاقی واقعہ ہے۔مہمانوں کی تقدیر میں مرنا لکھا تھا۔اس میں کسی کو سزا وار قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔“
قاضی صاحب نے کہا:”یہ کسی جج کی سوچ نہیں ہونی چاہیے۔جج اگر مقدمات تقدیر پر ڈال دے گا تو انصاف کون کرے گا!“
چوتھے نے کہا:”سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ یہ سارا منظر کس نے دیکھا کہ چیل کے پنجوں میں سانپ ہے؟کس نے سانپ کے منہ سے زہر نکلتا دیکھا؟اگر اس منظر کا گواہ ملازم ہے تو وہ مجرم ہے۔اگر گواہ مالک ہے تو وہ مجرم ہے اور اگر کوئی گواہ نہیں تو جس نے یہ کہانی گھڑی ہے؟وہ قاتل ہے۔“
قاضی صاحب نے اپنے چوتھے شاگرد کو شاباش دی اور صرف اسے قاضی کے منصب کا اہل قرار دیا۔
Browse More Moral Stories

تنہا لومڑی
Tanha Lomri

اجازت۔۔تحریر:طیبہ ثناء
Ijazat

بے زبانوں پر ظلم
Bezubanoon Per Zulm

خفیہ نیکی
Khufia Naike

افواہ سازی
Afwah Sazi

تبدیلی آگئی
Tabdele Agaia
Urdu Jokes
دو افیمی
Do afeemi
بچہ
bacha
بدھو وکیل
Budhoo Wakeel
فلسفی۔۔۔۔۔گنجا اور حجام
Falsify......Gunja aur hajam
استاد اور شاگرد
ustad aur shagird
نیند کی گولیاں
neend ki golian
Urdu Paheliyan
اک گھر میں دو رشتے دار
ek ghar me do rishtedar
دیکھا ایک ایسا دربار
dekha ek aisa darbar
پانی نیچے سے لے کر آتا ہے
paani neeche sy ly kar ata hy
پانی پی پی پھول رہی ہے
pani pee pee phool rahi hai
ہری ہری پانی میں گھولی
hari hari pani me gholi
سر ہے چمٹا منہ نوکیلا
sar hi chimta munh nokeela
ArticlesStoriesMiscellaneousGamesBaby NamesUrdu Videos