Makkar Pari - Article No. 1637

Makkar Pari

مکّار پری (پہلی قسط)تحریر: مختار احمد - تحریر نمبر 1637

ایک سپاہی کا بیٹا ہونے کے سبب عمر بھی بہت باہمت تھا-وہ اپنی ماں کو خدا حافظ کہہ کر چلا گیا تھا- جنگ ہوتی رہی وہ لوگ بہت بے جگری سے دشمن کا مقابلہ کرتے رہے- اس لڑائی نے طول کھینچا اور پھر تین سال بعددونوں ملکوں میں ایک دوسرے پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ ہوگیا

پیر 20 جنوری 2020

پورے گاؤں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی- عمر پورے تین سال کے بعد جنگ کے میدان سے لوٹ کر صحیح سلامت واپس آ گیا تھا- اس کے ساتھ اس گاؤں کے اور بھی کئی نوجوان سپاہی بن کر گئے تھے- مگر ان میں سے کوئی بھی لوٹ کر نہیں آیا تھا- یہ تین سال پہلے کی بات ہے جب عمر اٹھارہ سال کا نوجوان لڑکا تھا- وہ اپنی ماں کا واحد کفیل تھا- دن بھر محنت مزدوری کے بعد جو کچھ ملتا وہ ماں کے ہاتھ پر لا کر رکھ دیتا تھا- اسے اپنی ماں سے بہت محبّت تھی اور وہ ہمیشہ یہ ہی کوشش کرتا تھا کہ اس کی ماں کو کوئی تکلیف نہ ہونے پائے- اس کی ماں اس سے بہت خوش تھی اور ہر وقت اسے دعائیں دیتی تھی-ماں بیٹے پر مشتمل یہ مختصر سے گھرانہ بڑی خوش وخرّم زندگی گزار رہا تھا کہ بادشاہ کی طرف سے یہ فرمان جاری ہوا کہ ملک کے تمام نوجوان فوج میں بھرتی ہو کرسرحدوں پر پہنچ جائیں کیونکہ ان کے پڑوسی ملک کے بادشاہ نے ان کے ملک پر قبضہ کرنے کے لیے اچانک حملہ کر دیا تھا- وہ ملک بہت بڑا تھا- اس کی فوج بھی بہت زیادہ تھی- اس لیے یہ بہت ضروری ہو گیا تھا کہ نوجوانوں کو سپاہی بنا کر ان کے مقابلے کے لیے بھیجاجائے- عمر کا گاؤں زیادہ بڑا نہیں تھا- پورے گاؤں کی آبادی چار پانچ سو نفوس پر مشتمل تھی- بچوں بوڑھوں اورعورتوں کو نکال کر کل چالیس نوجوان تھے- جنہوں نے فوج میں بھرتی ہو کر میدان جنگ میں جانا قبول کرلیا تھا-انہی نوجوانوں میں عمر بھی شامل تھا-عمر کی بیوہ ماں بہت اداس تھی مگر ملک کی سلامتی کاسوال تھا- اسی ملک کی سلامتی کے لیے اس نے اپنے شوہر کو بھی قربان کردیا تھا تو بیٹے کو کیسے روک سکتی تھی- عمر کا باپ بھی ایک سپاہی تھا اور میدان جنگ میں بڑی جوانمردی سے لڑتے ہوئے وطن کی سلامتی پر قربان ہوگیا تھا- ایک سپاہی کا بیٹا ہونے کے سبب عمر بھی بہت باہمت تھا-وہ اپنی ماں کو خدا حافظ کہہ کر چلا گیا تھا- جنگ ہوتی رہی وہ لوگ بہت بے جگری سے دشمن کا مقابلہ کرتے رہے- اس لڑائی نے طول کھینچا اور پھر تین سال بعددونوں ملکوں میں ایک دوسرے پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ ہوگیا- یوں دوسرے سپاہیوں کی طرح عمر بھی واپس اپنے گاؤں آگیا- گاؤں میں اس کا بڑا شاندار استقبال ہوا- وہاں کے لوگوں کے پر خلوص رویے نے عمر کو میدان جنگ کی تمام تکلیفیں بھلا دی تھیں- وہ لوگوں سے ملتا ملاتا اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا- اس کی جنگی خدمات کے اعتراف کے طور پر بادشاہ نے اسے بے پناہ انعام و اکرام سے نوازا تھا- اس کی پشت پر جو تھیلا لٹک رہا تھا وہ اشرفیوں سے بھرا ہوا تھا- عمر سوچ رہا تھا کہ اب وہ اپنی ماں کے رہنے کے لیے ایک شاندار سا گھر تعمیر کروائے گا اور اس کی خدمت کے لیے ایک کنیز بھی رکھوا دے گا- مگر جب وہ اپنے گھر کے سامنے پہنچا تو اندر جانے سے پہلے اسے گاؤں کے ایک بوڑھے شخص نے روک کرکہا- "بیٹے عمر- ہم تمہارے آنے کی خوشی میں تمہیں ایک افسوسناک خبر سنانا بھول گئے تھے- تمھاری ماں اب اس دنیا میں نہیں ہیں- وہ ایک سال پہلے اس دنیا سے جا چکی ہیں- تم ایک سپاہی ہو، سپاہی کا دل مضبوط ہوتا ہے- امیدہے تم اس صدمے کو ہنس کر سہو گے"-بوڑھے کی بات سن کر عمر کی آنکھوں تلے اندھیرا چھاگیا- اس کے تو وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ جب وہ گھر پہنچے گا تو اس کی ماں منوں مٹی کے نیچے جا سوئی ہوگی- اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے- لوگ اسے دم دلاسہ دے کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے- عمر نے کچھ دیر بعد اپنی حالت پر قابو پا لیا- اس نے گھرکے اندر داخل ہونا چاہا مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دروازہ اندر سے بند ہے- وہ سوچنے لگا کہ اب اس گھر میں کون رہتا ہے- جہاں تک اسے یاد پڑتا تھا اس دنیا میں اب اس کا کوئی رشتہ دار نہیں تھا- پھر اندر کون ہے- اس نے الجھن آمیز انداز میں دروازے پر دستک دی-دروازہ پہلی دستک پر ہی کھل گیا- دروازہ کھولنے والی ایک حسین لڑکی تھی- وہ سولہ سترہ سال کی ہی ہوگی-اس کا رنگ میدے کی طرح صاف تھا اور چہرے پر بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں تھیں- عمر لڑکی کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگا- لڑکی ایک طرف کو ہٹ کر کھڑی ہوگئی جیسے اسے اندر آنے کا راستہ دے رہی ہو- عمر اندرداخل ہوگیا تو لڑکی نے دروازہ بند کردیا اور بولی- "اندرچلئے- آپ بڑی دور سے آ رہے ہیں- تھک گئے ہوں گے"- عمر نے حیرت زدہ ہو کر کہا- "مگر آپ کون ہیں؟"-"آپ کو سب پتہ چل جائے گا- میں آپ کی آمد کا چھ ماہ سے انتظار کر رہی تھی"- لڑکی نے جواب دیا-عمر کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا- وہ کمرے میں آگیا- کمر پر سے تھیلا اتار کر اس نے ایک طرف رکھا-لڑکی اس کے لیے شربت لے کر آء- عمر کو بہت پیاس لگ رہی تھی- اس نے شربت کو غنیمت جانا اور ایک ہی سانس میں سارا شربت چڑھا گیا- لڑکی اسے بڑے غورسے دیکھ رہی تھی- شربت پی کر اس نے پیالہ ایک طرف رکھ دیا- لڑکی نے کہا- "آپ اپنے گھر میں مجھے دیکھ کر حیران ہو رہے ہوں گے- میں یہاں دو سال سے رہ رہی ہوں- آپ کی کی امی ایک مہربان عورت تھیں- انہوں نے مجھے ہمیشہ اپنی بیٹیوں کی طرح چاہا تھا-اپنی ماں کے تذکرے پر عمر کی آنکھیں پھر بھیگ گئی تھیں- بھرائی ہوئی آواز میں بولا- "اچھی لڑکی یہ میری بدقسمتی ہے کہ میں اپنی ماں سے آخری مرتبہ مل بھی نہ سکا"- "آپ کو اب صبر کرنا چاہئیے- آپ کی امی ہر وقت آپ کاتذکرہ کرتی رہتی تھیں-"- یہ کہہ کر وہ چپ ہوگئی-کمرے میں کچھ دیر تک خاموشی طاری رہی- پھر عمرنے پوچھا- "مگر آپ نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ آپ کون ہیں؟"- لڑکی نے ایک گہری سانس لے کر کہا- "میرا نام زبیدہ ہے-میں پرستان کے بادشاہ کی بیٹی ہوں"-زبیدہ کی بات سن کر عمر اسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگا- "یعنی کہ تم پرستان کی شہزادی ہو؟"- اس نے پوچھا- "ہاں- ٹہریے- میں آپ کو شروع سے یہ کہانی سناتی ہوں-یہ اس وقت کی بات ہے"- زبیدہ نے کہنا شروع کیا- "جب میں پیدا بھی نہیں ہوئی تھی- پرستان میں ایک بادشاہ کی حکومت تھی- اس بادشاہ کا ایک لڑکا بھی تھا- اس کا نام شہزادہ پرویز تھا- پرستان کا شہزادہ پرویز انسانوں کی دنیا دیکھنے کا بہت شائق تھا- ایک روز وہ پرستان سے نکل کر انسانوں کی دنیا میں آگیا- یہاں پر اس کی ملاقات ایک بہت ہی خوبصورت لڑکی سے ہوگئی- اس لڑکی کا نام عذرا تھا- شہزادہ پرویز نے اپنے باپ سے چھپ کر اس لڑکی سے شادی کرلی اور انسانوں کی دنیا ہی میں رہنے لگا- جب بادشاہ نے اس کی گمشدگی کا سراغ لگایا تو اس پر یہ حقیقت کھلی کہ اس کے بیٹے نے انسانوں کی دنیا میں ایک خوب صورت لڑکی سے شادی کرلی ہے تو وہ بہت ناراض ہوا- اس نے فوراً شہزادہ پرویز کو پرستان بلوالیا اور اس کے محل سے باہر جانے پر پاپندی عائد کر دی- شہزادہ پرویز اپنی پیاری بیوی کی جدائی برداشت نہ کرسکا اور بیمار پڑ گیا- دنیا بھر کی دوائیں بھی اس کوٹھیک نہ کرسکیں- مجبور ہو کر بادشاہ نے اسے صرف اتنی اجازت دے دی کہ وہ جب چاہے بیوی سے جا کر مل سکتا ہے مگر اسے پرستان نہیں لا سکتا- شہزادہ پرویزاس پر بھی راضی ہوگیا-پھر خدا نے انھیں ایک بیٹی دی- اس کا نام انہوں نے زبیدہ رکھا- میں وہ ہی زبیدہ ہوں- میرے ابا ہم ماں بیٹی سے آکر مل جایا کرتے تھے- انہوں نے ہمارے رہنے کے لیے ایک محل بنوادیا تھا- اور وہ جب بھی ہم سے ملنے آتے تھے تو میرے لیے پرستان سے ڈھیر سارے کھلونے اور مزیدار مٹھایاں لاتے تھے- دن یونہی ہنسی خوشی بسر ہورہے تھا- میں دیکھتے ہی دیکھتے چودہ برس کی ہوگئی-ایک روز جب میں سو رہی تھی تو میرے ابّا پرستان سے آئے- انہوں نے امی کو پورے محل میں ڈھونڈ لیا مگر وہ انھیں کہیں نہ ملیں- انہوں نے مجھے جگایا اور امی کی گمشدگی کی اطلاع دی- پھر ہم دونوں نے انھیں ہر جگہ ڈھونڈ لیا مگر امی نہ مل سکیں- میرے ابّا بہت پریشان تھے- پندرہ دن تک انہوں نے امی کو تلاش کیا مگرمایوسی کے سوا کچھ نہ ملا- ادھر پرستان میں میرے دادایعنی بادشاہ سلامت نے میرے ابّا کو بلوالیا- چونکہ وہ مجھے اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتے تھے- اس لیے انہوں نے مجھے آپ کی امی کے حوالے کر دیا اور کہا کہ وہ کسی مناسب وقت پر مجھے اپنے ساتھ لے جائیں گے- میںآ پ کی امی کے پاس رہنے لگی- آپ جنگ پر گئے ہوئے تھے- آپ کے متعلق آپ کی امی نے ہی بتایا تھا- میں ان کے ساتھ ہر طرح سے خوش تھی ایک روز وہ بھی دنیا سے رخصت ہوگئیں- ان کی موت میرے لیے ایک بہت بڑاسانحہ تھا-میرے ابّا جو کہ وہاں کبھی کبھی مجھ سے ملنے آجایا کرتے تھے انھیں بھی ان کی موت کا بہت دکھ ہوا-آپ کی امی کے انتقال کے بعد بھی میں نے آپ کے گھر میں رہنے کو ترجیح دی- پھر ایک روز میرے ابّا مجھے لینے کے لیے آ گئے- میرے دادا انتقال فرما گئے تھے اوراب تخت و تاج کے مالک میرے ابّا تھے- اب مجھ پر یامیری امی پر پابندی لگانے والا کوئی نہ تھا مگر میری امی تو کھو گئی تھیں، رہ گئی میں، تو میں نے اپنے ابّا سے کہہ دیا کہ جب تک اس گھر کا مالک واپس نہیں آ جاتا اس وقت تک میں کہیں نہیں جاؤں گی- خدا کا شکر ہے کہ آپ آج واپس لوٹ آ? ہیں- اب میں اپنے ابّا کے پاس پرستان جا سکتی ہوں"- عمر بڑی دلچسپی سے زبیدہ کی کہانی سن رہا تھا- وہ خاموش ہوئی تو اس نے کہا- "زبیدہ آپ نے تو بڑی عجیب کہانی سنائی ہے- میں آپ کا بڑا شکر گزار ہوں کہ آپ نے میرا انتظار کیا- آپ اپنے ابّا کے پاس ضرور جائیے- خداکرے کہ آپ کی امی بھی مل جا ئیں"-"وہ نہ جانے کہاں ہوں گی"- زبیدہ اداس ہو کر بولی- خداہی بہتر جانتا ہے کہ میں اب ان سے ملوں گی بھی یا نہیں"-آپ نے میری امی کی بہت خدمت کی ہے- میں آپ کی امی کو ڈھونڈنے کی کوشش کروں گا تاکہ بدلہ اتار سکوں"-عمر نے کہا-اس کی بات سن کر زبیدہ خوش ہوگئی- پھر اس نے کمرے کے کونے میں رکھا ہوا ایک خوبصورت قالین نکالا اوربولی-"یہ جادو کا قالین ہے- یہ ہمیں تھوڑے سے وقت میں پرستان پہنچا دے گا"- "ہمیں سے کیا مطلب ہے؟"- عمر نے تعجب سے پوچھا-"میری خواہش ہے کہ آپ بھی میرے ساتھ پرستان چلیں"-زبیدہ نے کہا- "چند دن میرے مہمان رہیے گا- پھر ہم دونوں مزے سے پورے پرستان سیر کریں گے"-اس کی بات سن کر عمر نے مسکرا کر کہا- "یہ تو بڑی اچھی بات ہے- بچپن میں پریوں کی کہانی سنتا تھا، اب پریوں کی سرزمین کو اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ لوں گا"-ہم یہ سفر رات کو شروع کریں گے ورنہ اگر لوگوں نے ہمیں اڑتا دیکھ لیا تو حیرت کے مارے بے ہوش ہو جائیں گے- میرے ابّا بھی رات کو ہی مجھ سے ملنے کے لیے آتے تھے"- زبیدہ نے کہا-"ٹھیک ہے"- عمر سر ہلا کر بولا- "میں بھی تھوڑی دیرسونا چاہتا ہوں- بہت تھک گیا ہوں"-زبیدہ بولی- "ہاں آپ آرام کیجئے- میں شام کا کھانا پکانیجا رہی ہوں- کھانا کھا کر ہی ہم سفر پر نکلیں گے"-زبیدہ چلی گئی اور عمر کروٹ بدل کر سو گیا- ##### کھانا کھا کر وہ لوگ پرستان جانے کی تیاری کرنے لگے-زبیدہ نے قالین زمین پر بچھایا اور وہ دونوں اس پر بیٹھ گئے- اور قالین دھیرے دھیرے فضا میں بلند ہونے لگا-کافی بلندی پر پہنچ کر اس نے ایک سمت کی طرف تیزی سے اڑنا شروع کردیا- چونکہ رات ہوگئی تھی اس لیے نیچے تاریکی کے سوا کچھ بھی نہیں دکھائی دے رہا تھا-عمر اور زبیدہ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے- یونہی کافی وقت گزر گیا- اچانک انہوں نے محسوس کیاکہ قالین کی رفتار کچھ سست پڑ رہی ہے- انہوں نے جھانک کر نیچے دیکھا اور انکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں- دور دور تک بے حد خوبصورت اور عالیشان مکانوں کی ایک قطار پھیلی ہی تھی- جو کہ دودھیا روشنی سے جگمگا رہی تھی- ان کا قالین شاہی باغ میں اس جگہ اترا جہاں زبیدہ کا باپ یعنی بادشاہ چہل قدمی کر رہا تھا-اپنی بیٹی کو دیکھ کر وہ بیتابی سے اس کی طرف بڑھا اوراسے گلے سے لگا لیا- زبیدہ نے عمر کا تعارف بادشاہ سے کرایا- وہ عمر سے بھی مل کر بہت خوش ہوا- پھر انھیں لیکر محل کے اندر آیا- محل کو دیکھ کر عمر حیرت زدہ رہ گیا- اتنا خوبصورت اور عالیشان محل اس نے خوابوں میں بھی نہیں دیکھا تھا- زبیدہ بھی یہاں آ کر بے حد خوش نظر آ رہی تھی- بادشاہ ایک ٹھنڈی سانس بھر کر بولا-"زبیدہ بیٹی- کاش آج تمھاری ماں بھی اس جگہ ہوتی توکتنا خوش ہوتی- میں نے اسے دنیا کے کونے کونے میں تلاش کروایا ہے- مگر وہ نہیں ملی"- ماں کے ذکر نے زبیدہ کو رنجیدہ کر دیا تھا- وہ سسکیاں لے لے کر رونے لگی- بادشاہ نے بڑی مشکلوں سے اسے چپ کروایا- اس کا دل بہلانے کے لیے فوراً پریوں کے ناچ کا انتظام کے لیے کہا- زبیدہ اور عمر خوبصورت پریوں کے ناچ گانے سے لطف اندوز ہونے لگے- ناچ گاناختم ہوا تو وہ دونوں باغ میں آ نکلے- باغ میں ہر طرف بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی تھی- ان دونوں کو باغ کی سیر کرنے میں بڑا لطف آ رہا تھا- اچانک زبیدہ کو کچھ یاد آگیا- وہ چلتے چلتے رک گئی اور عمر سے بولی-"عمر آپ کو اپنا وعدہ یاد ہے نا؟"-"ہاں مجھے اچھی طرح یاد ہے"- عمر سر ہلا کر بولا-"آپ کی امی کو ڈھونڈنے کی میں پوری کوشش کروں گا"- اس کی بات نے زبیدہ کو مطمئن کر دیا تھا- مگر عمرسوچ میں پڑ گیا کہ اس نے زبیدہ سے وعدہ تو کر لیا ہے مگر اس کی امی کو کہاں تلاش کرے گا- یہ کام بہت مشکل تھا مگر عمر ایسا نوجوان نہیں تھا کہ ہمت ہار بیٹھتا- اس نے عہد کر لیا کہ جب تک زبیدہ کی امی نہیں مل جاتیں،وہ چین سے نہیں بیٹھے گا- #### زبیدہ کی دوستی کئی پریوں سے ہو گئی تھی- کیونکہ وہ پرستان کی شہزادی ہو گئی تھی اس لیے اسے بڑی عزت دی جا رہی تھی- محل کی کنیز پریوں سے بھی اس کی گاڑھی چھننے لگی تھی- اس وقت وہ انہیں کے ساتھ باغ میں جھولا جھول رہی تھی- عمر بادشاہ سے باتوں میں مصروف تھا- ابھی کچھ دیر پہلے بادشاہ سے ایک بوڑھی پری مل کر گئی تھی- عمر بھی وہیں موجود تھا- بادشاہ نے اس سے کہا- "یہ بڑی بی میرے رشتے کی خالہ ہیں-جب میں نے تمھاری دنیا میں عذرا سے شادی کی تھی توسب سے زیادہ شور ان ہی بڑی بی نے مچایا تھا- میرے ابّاحضور کے کان یہ ہی آ آ کر بھرتی تھیں- دراصل یہ اپنی لڑکی کی شادی مجھ سے کرنا چاہتی تھیں- ان ہی کی وجہ سے میری بیوی اور بیٹی نے اتنی مصیبتیں اٹھائی ہیں- ان کی بزرگی کا خیال کر کے میں انہیں کچھ نہیں کہتا ہوں-ورنہ میرا تو جی بھی نہیں چاہتا کے ان کی شکل دیکھوں-اب بھی ان کا اصرار ہے کہ میں انکی لڑکی سے شادی کرلوں- مگر میں کبھی بھی ایسا نہیں کروں گا- اگر یہ میرے ابّا حضور کے کان نہ بھرتیں تو میرے ابّا کبھی بھی عذرا پر پرستان میں داخلے پر پابندی نہ لگاتے - اس طرح وہ گم بھی نہ ہوتی- بے چاری اب نہ جانے کس حال میں ہوگی وہ"- بادشاہ بے حد اداس ہوگیا- تھوڑی دیر بعد عمر اس سے اجازت لے کر وہاں سے اٹھ گیا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیا- اس کا کمرہ بھی بے حد خوبصورت قیمتی اشیا سے مزین تھا- وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا ہی تھا کہ اسی بوڑھی پری کو دیکھ کرچونک گیا- وہ اس کے بستر کے پاس پڑی ہوئی ایک کرسی پر بیٹھی تھی- عمر کو دیکھ کر اس کے چہرے پرمسکراہٹ پھیل گئی- اس نے کہا- "میں تمھارا ہی انتظارکر رہی تھی- مجھے تم سے چند ضروری باتیں کرنا ہیں-میں بادشاہ کی خالہ لگتی ہوں اور گلشن پری میرا نام ہے"-"فرمائیے آپ کو مجھ سے کیا کام پڑ گیا ہے"- عمر نے دوسری کرسی پر بیٹھے ہو? خوش اخلاقی سے کہا-بوڑھی گلشن پری بولی- "مجھے شہزادی زبیدہ کی زبانی پتا چلا ہے کہ تم ایک معمولی سپاہی ہو اور میں جانتی ہوں کہ سپاہی بہت غریب ہوتے ہیں- سنو اگر تم میرا ایک کام کردو تو میں تمہیں اتنی دولت دوں گی کہ تم شہزادوں کی طرح زندگی بسر کرو گے"-"مجھے دولت کا کوئی لالچ نہیں ہے تم اپنا کام بتاؤ اگرمیرے بس کا ہوا تو میں ضرور کرنے کی کوشش کروں گا"- "تمہیں معلوم ہے کہ بادشاہ کی بیوی کھو گئی ہے- بغیرملکہ کے بادشاہ کچھ اچھے نہیں لگتے- لہٰذا تم بادشاہ کومجبور کرو کہ وہ میری لڑکی سے شادی کرنے پر آمادہ ہوجائے"- گلشن پری نے خوشامدانہ انداز میں کہا- " وہ تمھارے سمجھانے سے ضرور مان جائیگا"- عمر کو اس بات کی ذرا سی بھی توقع نہیں تھی کہ گلشن پری اس سے اس قسم کا کام کرنے کو کہے گی- وہ سوچ میں پڑ گیا- پھر اس نے کہا- "تم مطمئن رہو- میں بادشاہ سے اس مسلے پر گفتگو کروں گا"- گلشن پری خوش ہو کر چلی گئی- عمر کو وہ بوڑھی پری بڑی مکّار معلوم دی- ایک دم سے اس کے دماغ میں یہ خیال آیا کہ کہیں وہ تو زبیدہ کی امی کی گمشدگی کی ذمہ دار نہیں ہے- ہوسکتا ہے اس نے یہ سوچ کر زبیدہ کی امی کو کہیں چھپا دیا ہو کہ بادشاہ اس کی طرف سے مایوس ہوکر دوسری شادی اس کی بیٹی سے کرلے- یہ خیال اس کے دل کو بھا گیا- مگر اس کی تصدیق ضروری تھی- اس نے اسی روز واپس اپنی دنیا میں جانے کا فیصلہ کرلیا-رات زیادہ ہوئی تو اس نے زبیدہ سے کہا- "زبیدہ میں انسانوں کی دنیا میں جانا چاہتا ہوں- کیا آپ مجھے وہ جادوکا قالین دے سکیں گی؟"- زبیدہ پریشان ہو کر بولی- "کیا آپ کا دل پرستان میں نہیں لگ رہا ہے یا پھر آپ کو کوئی بات تو بری نہیں لگ گئی؟"-"نہیں نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے"- عمر نے ہنس کرجواب دیا- "میں یہاں پر بہت خوش ہوں وہ بس ایک ضروری کام یاد آگیا تھا"-"اگر یہ بات ہے تو پھر ٹھیک ہے- یہاں کی کوئی چیز بھی استعمال کرنے کے لیے آپ کو اجازت مانگنے کی ضرورت نہیں ہے"- زبیدہ نے کہا-"بہت بہت شکریہ- اچھا زبیدہ ایک بات تو بتایں- جب آپ اپنی امی کے ساتھ محل میں رہا کرتی تھیں تو وہاں پر آپ کے کتنے ملازم تھے؟"- عمر نے پوچھا-"صرف ایک- وہ بھی چودہ پندرہ سال کا ایک لڑکا تھا- اس کا کام صرف اتنا تھا کہ وہ بازار سے سودا سلف لا دیاکرتا تھا- باقی گھر کا ہر کام امی خود ہی اپنے ہاتھوں سے کرتی تھیں"- زبیدہ نے بتایا-"کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ وہ لڑکا اب کہاں ملے گا؟"- عمرنے دوبارہ سوال کیا-"جب میں امی کی گمشدگی کے بعد محل سے چلی تھی تواس لڑکے کو بھی نوکری سے جواب دیدیا گیا تھا- اس نے مجھے بتایا تھا کہ اب وہ ایک نانبائی کے پاس نوکری کرے گا- مگر یہ سب کچھ آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟"- زبیدہ نے حیرت سے پوچھا-"یونہی- وقت آنے پر آپ کو سب کچھ پتہ چل جائے گا"-عمر نے جواب دیا- پھر اس نے جادو کا قالین نکالا اوراس پر بیٹھ کر اپنی دنیا کی طرف چل دیا- اس نے زبیدہ سے اس جگہ کے متعلق اچھی طرح دریافت کر لیا تھاجہاں پر ان کا محل تھا اور جس میں وہ اپنی امی کے ساتھ رہتی تھی- قالین نے اسے اس کے گھر میں اتارا تھا- رات زیادہ ہو گئی تھی اس لیے اس نے قالین کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا اور بستر پر گر گیا- (اس کہانی کا بقیہ حصہ آخری قسط میں پڑھیے)

Browse More Moral Stories