Khargosh Lomri Aur Lakar Bhaga - Article No. 1311

Khargosh Lomri Aur Lakar Bhaga

خرگوش لومڑی اور لکڑ بھگا - تحریر نمبر 1311

ایک ویران کنویں کے نزدیک سے گزرتے وقت خرگوش نے بوڑھی لومڑی کی آوازیں سنیں:”ارے بچاؤ! کوئی مجھے باہر نکالو!“

پیر 4 مارچ 2019

سنبل فاطمہ۔کراچی
ایک ویران کنویں کے نزدیک سے گزرتے وقت خرگوش نے بوڑھی لومڑی کی آوازیں سنیں:”ارے بچاؤ! کوئی مجھے باہر نکالو!“
کنواں عرصے سے ویران پڑا تھا۔اس میں تھوڑا سا پانی باقی ر ہ گیا تھا۔برسوں کی دھول اور سوکھے پتوں سے کنواں تقریباً آدھا بھر گیا تھا۔
کنویں کی منڈیرپر کھجور کاایک تنا گرا ہوا تھا جس پر ایک چرخی پر رسی لپٹی ہوئی تھی ۔

رسی کا ایک سراتنے سے بندھا رہتا تھا۔دوسرے سے بالٹی بندھی تھی جوعموماً کنویں کے اندر ہی پڑی رہتی تھی ۔اس میں کئی سوراخ تھے۔
کنویں میں سے پھر آواز آئی:
”ارے کوئی ہے جو اس بوڑھی دکھیا کو باہر نکالے․․․․․؟“
خرگوش نے جھانک کر پوچھا”مگر تم یہاں آئے کیسے․․․․․؟“
لومڑی بولی ”ارے بیٹا ! رات کے وقت ادھر سے گزررہی تھی ۔

(جاری ہے)

اس عمر میں نہ تو بینائی کام کرتی ہے اور نہ عقل۔پیر پھسلا اور میں یہاں آپڑی ۔خرگوش میرے لال ،مجھے باہر نکالو۔“
خوبصورت ننھا مناخرگوش محض خرگوش ہی تو تھا ۔کمزور ،نازک جسم والا۔بھلا وہ کس طرح لومڑی کو باہر نکالتا․․․․؟خرگوش گہری سوچ میں ڈوب گر پنجے مسلنے لگا۔رات ہو چکی تھی ۔لومڑی نہ صرف بد شکل تھی بلکہ اس کا مزاج بھی خراب تھا۔
وہ ہمیشہ ہی غصے میں بھری رہتی تھی اور ذرا ذرا سی بات پر کسی کو بھی کھسوٹ لیتی۔سب جانور اس سے دور رہنا ہی پسند کرتے تھے۔جس پر وہ بگڑ جاتی ۔بھوت کی طرح جانوروں سے چمٹ جاتی تھی۔
خرگوش بولا”دیکھو بڑی بی ! تمہیں باہر نکالنا میرے لیے ناممکن ہے ۔کوئی جانور مدد کو اس لیے نہیں آئے گا کہ تمہارا مزاج بڑا خوفناک ہے ۔بہر حال کسی نہ کسی کو پکڑ کر لاتا ہوں ۔
مگر ایک بات کا خیال رہے جب تک تم باہر نہ آجاؤ ،نہ تو غصہ دکھاؤ گی اور نہ منہ سے کوئی لفظ نکالو گی۔“
شام کا وقت تھا۔لکڑ بھگا خرگوش کی تاک میں اس کے بھٹ کے آس پاس منڈلا رہا تھا۔اچانک اس نے خرگوش کو کسی سے کہتے سنا:”کیسی بد قسمتی ہے کہ چاند کے دیس کی حسین شہزادی کل رات زمین پر اتری اور پیپل کے درخت کے نزدیک والے کنویں میں گر پڑی ۔
جانتے ہو وہ زمین پر کس لیے آئی تھی ․․․؟“سنو! یہ شہزادی لکڑ بھگے کی نسل کی ہے ۔اس نے سنا تھا کہ ہمارے جنگل میں ایک شہزادے جیسا لکڑ بھگا رہتا ہے ۔بس اسی کی تلاش میں وہ یہاں آئی ہے ۔
خرگوش کے منہ سے یہ باتیں سن کر لکڑ بھگے نے دل ہی دل میں کہا ”میں سب کچھ سن رہا ہوں احمق خرگوش! لکڑ بھگے سے کوئی بات بھی چھپی نہیں رہ سکتی۔“لکڑ بھگا ہنستا ہوا کنویں کی سمت چلا اور وہاں جا کر چلایا۔

”اے حسین شہزادی میں جانتا ہوں چاند دیس سے تم میری تلاش میں آئی ہو اور اس نے بالٹی کنویں پھینکتے ہوئے کہا کہ اس میں بیٹھ جاؤ۔“لکڑ بھگے نے تنے سے بند ھا ہوا سرا کھول کر اپنی دُم میں باند ھا اور کنویں سے دور چلانا شروع کیا۔لومڑی غصے سے پاگل ہی تو ہو گئی ۔وہ سمجھی کہ وہ اسے ”حسین شہزادی “
کہہ کر اس کا مذاق اڑا رہا ہے ۔
لکڑ بھگا مسلسل کہے جارہا تھا:”اے خوبصور ت شہزادی ! تم کس قدر بھاری ہو ،جیسے پتھروں سے بھری بوری ۔ہائے میری دُم ٹوٹی جارہی ہے۔اُف !او،ارے میری دُم اکھڑ جائے گی!“
لومڑی دانت پیس کر بڑ بڑا رہی تھی :”ٹھہر جا موذی! ذرا بھی باہر آجانے دے ۔اس کے بعد مزہ چکھاؤں گی ہنسی اڑانے کا ۔تب تجھے پتا چلے گا کہ یہ حسین شہزادی کیا درگت بناتی ہے ۔

لکڑ بھگا رسی پر زور لگا رہا تھا۔دُم ٹوٹی جارہی تھی ۔اس کی آنکھوں میں درد سے آنسو بھر آئے تھے ۔آخر بالٹی اوپر آگئی ۔اسی وقت لکڑ بھگے پر قیامت ٹوٹ پڑی ۔چاند دیس کی حسین شہزادی ایک خوفناک بھوک کی طرح اس پر ٹوٹ پڑی اور دانتوں اور پنجوں سے اسے کھسوٹتی ہوئی بولی:
”یہ لے ۔اور یہ لے۔گستاخ ،بدتمیز ،مردہ خور! مجھ ،بڑھیا کو حسین شہزادی کہہ کر میرا مذاق اڑارہا تھا!“
لکڑ بھگا حیرت سے لومڑی کو تک رہا تھا۔لومڑی نے بھبھوڑ کر اسے لہو لہان کر دیا تھا،لکڑ بھگا زخموں سے نڈھال دُم دبا کر بھاگ نکلا۔

Browse More Moral Stories