Rone Nahi Doon Ga - Article No. 2257

Rone Nahi Doon Ga

رونے نہیں دوں گا - تحریر نمبر 2257

”میرے ہسپتال کا نام ہو گا ”الیکٹرانک کھلونوں کا ہسپتال“ وہاں بیمار یعنی ٹوٹے ہوئے کھلونوں کا علاج کیا جائے گا،سب سے پہلے اپنے پیارے ہیلی کاپٹر کا علاج کروں گا،یہ دوبارہ اُڑے گا،یہ میرے بچپن کا دوست ہے۔“

منگل 17 مئی 2022

نذیر انبالوی
بلال کے ہاتھ میں ہیلی کاپٹر کا ریموٹ تھا۔وہ ریموٹ کو جیسے جیسے حرکت دے رہا تھا،ہیلی کاپٹر اُسی سمت اُڑتا چلا جا رہا تھا۔وہ اب ہیلی کاپٹر کو کمرے سے صحن میں لے آیا تھا۔ریموٹ پر بلال کی اُنگلیاں خوب چل رہی تھیں۔وہ ریموٹ سے ہیلی کاپٹر کو حرکت دے رہا تھا۔اُڑتے اُڑتے اس کا تیز رفتار ہیلی کاپٹر درخت سے ٹکرایا تو اس کا ایک پَر ٹوٹ گیا۔
پَر ٹوٹنے کی دیر تھی کہ ہیلی کاپٹر دھڑام سے زمین پر آ گرا۔بلال تیزی سے اپنے ہیلی کاپٹر کی طرف بڑھا۔اپنے تباہ شدہ ہیلی کاپٹر کو دیکھ کر بلال رو دیا۔
کچھ دیر بعد بلال نے گیراج میں رکھے اوزاروں میں سے اپنے مطلوبہ اوزار لیے،شام تک بلال نے ایلفی سے ہیلی کاپٹر کے ٹوٹے پَر کو جوڑ لیا۔

(جاری ہے)

بلال نے پَر جوڑنے کے بعد اپنے پیارے ہیلی کاپٹر کو مخاطب کیا:”اب تم تندرست ہو،اُڑان کے لئے تیار ہو جاؤ۔


اگلے ہی لمحے ریموٹ بلال کے ہاتھ میں تھا۔ہیلی کاپٹر تھوڑی دیر اُڑا،پھر اس کا پَر ٹوٹ گیا تو وہ زمین پر آ گرا۔بلال اپنے ہیلی کاپٹر کو دوبارہ یوں زمین پر گرا دیکھ کر اُداس سا ہو گیا تھا۔
”میں مارکیٹ سے تمہارے لئے نئے پَر خریدوں گا،میں تمہیں ٹھیک کروں گا،گھبرانا مت،تم اُڑان بھرو گے،اُڑو گے،خوب اونچا اُڑو گے۔“بلال ہیلی کاپٹر سے یوں باتیں کر رہا تھا جیسے وہ اس کی ہر بات سمجھ رہا ہو۔

آپی،بلال کی اُداس شکل دیکھ کر پریشان سی ہو گئی تھیں۔
”میرا خیال ہے،اب یہ ہیلی کاپٹر ٹھیک نہیں ہو گا۔“
”یہ ہیلی کاپٹر ضرور ٹھیک ہو گا،آپ میرے ساتھ مارکیٹ چلیے۔“بلال نے معصوم سی صورت بنا کر کہا۔اگلے دن بلال ،آپی کے ہمراہ مارکیٹ میں موجود تھا۔ہیلی کاپٹر بلال کے ہاتھ میں تھا۔ہر دکان دار نے تقریباً ایک ہی بات کہی کہ یہ ٹھیک نہیں ہو سکتا،اس کے پَر مارکیٹ سے نہیں ملیں گے۔
اسے اب پھینک ہی دیں۔“
”کیوں پھینک دوں،اپنے پیارے سے ہیلی کاپٹر کو،یہ دوبارہ اُڑے گا۔“بلال کو دکان داروں کی بات اچھی نہ لگی تھی۔
چند دنوں بعد ماموں عرفان کویت سے آ گئے۔آپی نے فون کرکے انھیں بلال کے ہیلی کاپٹر کے بارے میں بتا دیا تھا۔ماموں عرفان نے بیگ سے ایک بڑا ہیلی کاپٹر نکال کر میز پر رکھا تو بلال نے نئے ہیلی کاپٹر کو سرسری نظر سے دیکھا۔
پرانے ہیلی کاپٹر نے اس کے دل میں ایسا گھر کیا تھا کہ دوسرا ہیلی کاپٹر اس کی جگہ نہ لے سکتا تھا۔اس نے تھوڑی دیر ہیلی کاپٹر اُڑایا،مگر بلال خوش نہیں تھا۔نیا ہیلی کاپٹر پرانے ہیلی کاپٹر کی جگہ نہ لے سکا تھا۔
ماموں عرفان کے جانے کے بعد بلال نے ایک مرتبہ بھی نیا ہیلی کاپٹر الماری سے نہ نکالا۔سالانہ امتحان کی تیاری کے باعث اب اس کے پاس وقت کم تھا۔
وہ جب بھی الماری میں جھانکتا،پرانے ہیلی کاپٹر کو دیکھ کر بے اختیار کہہ اُٹھتا:”میں تمہیں بھولا نہیں ہوں،میں تمہارا علاج کروں گا،تم ٹھیک ہو جاؤ گے،پہلے کی طرح اُڑو گے،اونچی اُڑان بھرو گے۔“
وقت تیزی سے گزرتا گیا۔ننھا بلال اب انجینئرنگ یونیورسٹی میں مکینکل انجینئرنگ کے آخری سال میں تھا۔وہ لوگ کچھ عرصے قبل ہی پرانے گھر سے ایک نئی ہاؤسنگ سوسائٹی کے بڑے سے گھر میں آئے تھے۔
پرانے گھر سے آنے والا سامان ڈبوں میں بند پڑا تھا۔ایک ڈبے میں بلال کے بچپن کے کھلونے تھے،اُن کھلونوں میں ہیلی کاپٹر بھی تھا۔ہیلی کاپٹر ایک مرتبہ پھر بلال کے کمرے میں موجود تھا۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد بلال نے جب اپنے والدین کو بتایا کہ وہ کھلونوں کے علاج کے لئے ہسپتال کھولے گا تو انھوں نے اسے حیرت سے دیکھا تھا۔
”میرے ہسپتال کا نام ہو گا ”الیکٹرانک کھلونوں کا ہسپتال“ وہاں بیمار یعنی ٹوٹے ہوئے کھلونوں کا علاج کیا جائے گا،سب سے پہلے اپنے پیارے ہیلی کاپٹر کا علاج کروں گا،یہ دوبارہ اُڑے گا،یہ میرے بچپن کا دوست ہے۔
“بلال یہ کہتے ہوئے یوں لگ رہا تھا جیسے ننھا سا بچہ بن گیا ہو۔
چاند پلازہ میں کھلونوں کے ہسپتال کا افتتاح ہوا۔اس موقعے پر بہت سے بچے موجود تھے۔بچے اپنے ”بیمار“ کھلونے بھی ساتھ لائے تھے۔حمزہ اپنے سفید بھالو کے بیمار ہونے کے باعث پریشان تھا۔بلال نے بھالو کا چیک اپ کرنے کے بعد حمزہ کو تسلی دی کہ تمہارا بھالو ٹھیک ہو جائے گا،یہ پہلے کی طرح ناچے گا،گائے گا اور تالیاں بجائے گا۔
جب بلال نے بھالو کے اندرونی سرکٹ کو درست کیا تو جیسے ہی بٹن دبایا تو بھالو ناچنے گانے اور تالیاں بجانے لگا۔حمزہ کے تو خوشی کے مارے پاؤں زمین پر نہ ٹکتے تھے۔وہ خوشی میں بھالو کی طرح تالیاں بجانے لگا تھا۔حمزہ کو خوش دیکھ کر بلال بھی خوش ہو گیا۔
وہ تو اس وقت بھی خوش ہوا تھا جب اس کے بچپن کے ساتھی پیارے سے ہیلی کاپٹر نے علاج ہونے کے بعد پہلی اُڑان بھری تھی۔
کھلونوں کے ہسپتال میں بیمار کھلونوں کی تعداد خاصی بڑھ گئی۔بچے روتے ہوئے آتے اور ہنستے مسکراتے واپس جاتے۔
بلال نے چونکہ ایک مختلف کام شروع کیا تھا،اس لئے بہت سے چینل اس کا انٹرویو کرنے آنے لگے۔بلال سے جب کھلونوں کے ہسپتال بنانے کی وجہ پوچھی جاتی تو وہ ایک ہی جواب دیتا:”بچوں کو کھلونوں سے پیار ہوتا ہے،وہ اپنے کھلونوں سے مانوس ہو جاتے ہیں،جب کوئی کھلونا خراب ہوتا ہے تو بچہ اُداس ہو جاتا ہے۔میرا پیارا ہیلی کاپٹر خراب ہوا تو میں بھی اُداس ہوا تھا،بہت رویا تھا،اب میں کسی بچے کو اُداس نہیں ہونے دوں گا،کسی بچے کو کھلونا خراب ہونے پر رونے نہیں دوں گا۔“

Browse More Moral Stories