Saat Dumon Wala Choha - Article No. 1140

Saat Dumon Wala Choha

سات دموں والا چوہا - تحریر نمبر 1140

جب میں چاریا پانچ سال کی تھی تو مجھے اپنے پاوٴں کے کئی آپریشن کرانے پڑے تھے اکثر سخت درد ہوتا تھا۔ میری توجہ اِدھر اُدھر کرنے کے لیے میری ماں مجھے اُس چوہے کی کہانی سناتی تھیں جسکی سات دمیں تھیں۔میں نے یہ کہانی کم از کم 100مرتبہ سنی ہوگئی اور اکثر اوقات تو ایک دن میں دس مرتبہ سنی تھی اسکے باوجود اسکی وجہ سے میرا ذہن درد کی طرف سے ہٹ جاتا تھا۔

منگل 26 جون 2018

بپسی سدھوا:
جب میں چاریا پانچ سال کی تھی تو مجھے اپنے پاوٴں کے کئی آپریشن کرانے پڑے تھے اکثر سخت درد ہوتا تھا۔ میری توجہ اِدھر اُدھر کرنے کے لیے میری ماں مجھے اُس چوہے کی کہانی سناتی تھیں جسکی سات دمیں تھیں۔میں نے یہ کہانی کم از کم 100مرتبہ سنی ہوگئی اور اکثر اوقات تو ایک دن میں دس مرتبہ سنی تھی اسکے باوجود اسکی وجہ سے میرا ذہن درد کی طرف سے ہٹ جاتا تھا۔

کم از کم تھوڑی دیر کے لیے ۔ میں چھوٹی سی تھی اور میرے چھوٹے ذہن کے مطابق جو کچھ اس چوہے کے ساتھ ہوا تھا وہ اتنا افسوس ناک تھا کہ اسکے سامنے میری تکالیف ماند پڑ جاتی تھیں۔میری ماں کہانی شروع کرتی ہیں ، بہت دن کا ذکر ہے اور میرے ذہن میں اس شوخ چوہے کی شکل اُبھرنے لگتی اس کے سات روئیں دار دمئیں اور بڑی بڑی شرمیلی آنکھیں تھیں۔

(جاری ہے)


یہ وہ کہانی ہے جو میری ماں سنایا کرتی تھیں۔


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چوہا تھا جسکی سات دمئیں تھیں چوہا اکثر پوچھا کرتا امی امی آپ مجھے اسکول کب بھیجیں گی(اُسکی ماں ہر مرتبہ مسکراتی اور کہتی) تم ابھی بہت چھوٹے ہو،جب تم تین سال کے ہو جاوٴ گے تو پھر میں تمہیں اسکول بھیجونگی۔
آخر کار چوہا تین سال کا ہو گیا۔
اسکی سالگرہ کے چنددن بعد چوہے کی ماں نے اُسے اسکول کا بستہ اور ایک لنچ بکس دیا جس میں آملیٹ اور پراٹھا سینڈوچ رکھا ہوا تھا۔
وہ چوہے کا ہاتھ پکڑکر لے گئی اور اپنے گھر کے باہر اسکول کی بس کا انتظار کرنے لگی۔ جب اسکول کی بس آ گئی تو چوہا خوشی کے مارے پھدکنے لگا اور اُسکی خوبصورت دُمیں دائرے کی شکل میں ایک مرغے کی دُم کی طرح لگنے لگیں۔چوہے کی ماں اپنا ہاتھ ہلاتی رہی جب تک بس سڑک کے ایک موٹر پر جا کر نظروں اُوجھل نہ ہو گئی۔لیکن جب چوہا واپس گھر آیا تو وہ بہت افسر دہ دکھائی دے رہا تھا اسکی ماں نے پوچھا کیا بات ہے، تم اتنے افسردہ کیوں ہو! اسنے کہا کہ اسکول میں چالاک چوہوں نے مجھے چھیڑا ہے۔
وہ کہہ رہے تھے کہ عجیب صورت والے چوہے جس کی سات دمیں ہیں۔ تم کتنے عجیب و غریب چوہے ہو۔ چوہے نے اپنی ماں سے کہا ، کہ وہ اس کی ایک دُم کاٹ دے۔ اسکی ماں نے بڑے افسوس کے ساتھ دم کاٹ دی۔ اس نے کہا کہ اب تمہیں کوئی نہیں چھیڑے گا اور اگلے دن اسے اسکول بھیج دیا۔لیکن چوہا اگلے دن پھر روتا ہوا آیا۔ امی امی چوہوں نے اسکول میں پھر مجھے چھیڑا ہے وہ کہہ رہے تھے کہ عجیب صورت والے چوہے جس کی چھ دمیں ہیں۔
تم کتنے عجیب و غریب چوہے ہو۔ اس نے اپنی ماں سے کہا کہ وہ اسکی ایک اور دم کاٹ دے۔ اسکی ماں نے بڑی افسردگی سے ایک اور دم کاٹ دی۔
وہ چوہا پھر روتا ہوا آیا۔
اسکی ماں نے پوچھا کہ اب کیا بات ہے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے اس نے کہا کہ چوہوں نے اسکول میں اسے چھیڑا ہے کہ وہ کہہ رہے تھے کہ عجیب صورت والے چوہے جسکی پانچ دمیئں ہیں تم کتنے عجیب و غریب چوہے ہو۔
یہ سلسلہ چلتا رہا چوہا روتا ہوا گھر آتا اور اسکی ماں بڑے افسوس کے ساتھ اسکی دم کاٹ دیتی ایک دن اس نے دیکھا کہ صرف ایک دم رہ گئی ہے۔ اس کی ماں نے کہا کہ اب تم دوسرے چوہوں جیسے ہو گئے ہو اب تمہیں کوئی نہیں چھیڑ یگا۔
چوہا خوشی سے اپنی ایک دم ہلاتا ہوا اسکول گیا۔
لیکن چوہا پھر بھی روتا اور اپنی ناک رگڑتا ہوا گھر واپس آیا اس نے کہا کہ امی امی چوہوں نے مجھے چھیڑا ہے ۔
وہ کہہ رہے تھے کہ عجیب صورت والے چوہے تمہاری ایک دم ہے تم کتنے عجیب و غریب چوہے ہو۔اس چوہے نے اپنی ماں سے کہا کہ وہ اسکی دُم کاٹ دے۔ اسکی ماں نے آنسوبہاتے ہوئے اسکی آخری دم بھی کاٹ دی۔وہ چوہا پھر روتا ہوا گھر واپس آیا۔ امی امی چوہوں نے مجھے چھیڑا ہے وہ کہہ رہے تھے او چھوٹے چوہے جسکی کوئی دُم نہیں ہے عجیب و غریب چوہے جسکی کوئی دُم نہیں تم کتنے بے وقوف چوہے ہو۔
میں نے امی سے کہا کہ چوہوں نے اسے کیوں چھیڑا جبکہ اسکی ایک دم تھی اور وہ ان ہی کی طرح تھا۔ میری ماں نے کہا کہ اس چوہے نے چلا چلا کر اس قدر اودھم مچایا کہ دوسرے چوہوں کو اسے چھیڑنے میں مزہ آرہا تھا۔
اگر آپ خود سوچے بغیر دوسرے لوگوں کی رائے پر عمل کرتے ہیں تو پھر یہی کچھ ہوتا ہے۔ میرے اتنے اور بہت کچھ کہنے سننے کے باوجود میری ماں نے اسکا اختتام نہیں بدلا۔

Browse More Moral Stories