Lalchi Dost (last Episode) - Article No. 1683

Lalchi Dost (last Episode)

لالچی دوست (آخری قسط) - تحریر نمبر 1683

سعید نے خیرو کی بات سن کر اس واقعہ پر افسوس کا اظہارکیا اور پھر اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا- آج وہ اپنے دوست بن مانس کے ساتھ جنگل کے بہت اندر تک گیا تھا اورپیدل چلتے چلتے اس کی ٹانگوں میں بھی درد ہونے لگا تھا

اتوار 15 مارچ 2020

تحریر: مختار احمد


ایک روز کا ذکر ہے- سعید تمام بھیڑ بکریوں کو گھر گھر چھوڑ کر جب نمبردار کی بکریوں کو چھوڑنے اس کے گھرپہنچا تو اس نے دیکھا نمبر دار کی بیوی ایک کونے میں سردیے سبک سبک کر رو رہی تھی- سعید نے بکریوں کو ان کی جگہ پر باندھا اور نمبر دار کے ایک ملازم سے پوچھا-کیوں بھئی خیرو- یہ نمبردارنی کو کیا ہوگیا ہے- کیا نمبردارسے جھگڑا ہوگیا ہے؟"-
خیرو نے کہا- "نہیں بھیا سعید، جھگڑا وگڑا تو خیر نہیں ہواہے- بات یہ ہوئی ہے کہ نمبردار صاحب آج شہر گئے تھے-وہاں سے انہوں نے پورے سات ہزار کے زیورات اپنی نمبردارنی کے لیے خریدے- جب وہ واپس آ رہے تھے تو دوپہر کا کھانا کھانے کیلئے جنگل میں ایک جگہ بیٹھ گئے- سونے کے زیورات ایک ریشمی پوٹلی میں بندھے ہوئے تھے- وہ پوٹلی انہوں نے گھٹنوں کے نیچے دبا کر کھانا نکالا- وہاں پر درختوں پر بہت سارے بندر بھی تھے- نمبردار صاحب نے جیسے ہی ایک لقمہ لیا، ایک بندر نے ایک شاخ پر جھول کر ان کے سرپر رکھی ہوئی کامدار ٹوپی اچک لی اور دوسرے درخت پر کودگیا- نمبردار صاحب نے پہلے تو اپنے قریب رکھا ہوا جوتا اس کے کھینچ مارا پھر ٹوپی حاصل کرنے کے لیے اس کے پیچھے لپکے- مگر بندر درخت پر بہت اونچائی پر چڑھ گیا تھا-
وہ بے بسی سے ہاتھ ملتے ہوئے دوبارہ اپنی جگہ پر آئے تو یہ دیکھ کران کے ہوش اڑ گئے کہ زیورات کی پوٹلی وہاں سے غائب تھی-کوئی بدمعاش بندر اس پوٹلی کو لے اڑا تھا- نمبردار صاحب نے آس پاس کے تمام درخت چھان مارے مگر پوٹلی نہیں ملی-تھک ہار کر وہ واپس آگئے- نمبردارنی نے جب سے یہ واقعہ سنا ہے، اس کے آنسو ہی نہیں تھم رہے ہیں- حالانکہ نمبردارصاحب نے اس سے وعدہ بھی کر لیا ہے کہ وہ شہر جا کر دوسرے زیورات لے آئیں گے- مگر یہ بات نمبردارنی کی سمجھ میں نہیں آتی ہے- ہم بھی کیا کریں"-
سعید نے خیرو کی بات سن کر اس واقعہ پر افسوس کا اظہارکیا اور پھر اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا- آج وہ اپنے دوست بن مانس کے ساتھ جنگل کے بہت اندر تک گیا تھا اورپیدل چلتے چلتے اس کی ٹانگوں میں بھی درد ہونے لگا تھا- اب وہ کافی تھکن محسوس کر رہا تھا- کنویں سے پانی بھر کر وہ نہانے بیٹھ گیا- نہانے سے فارغ ہو کر اس نے کلن نانبائی کی دکان پر جا کر کھانا کھایا اور پھر جو وہ بے سدھ ہو کر بسترپر گرا ہے تو پھر اس نے صبح کی خبر ہی لی تھی-حسب معمول آج بھی صبح سویرے وہ بھیڑ بکریو ں کو ہانکتے ہوئے جنگل کی طرف چل دیا- جب وہ اس بڑے سے میدان میں پہنچا جہاں بھیڑ بکریاں چرتی تھیں اور جہاں میدان کے ختم ہوتے ہی جنگل شروع ہوجاتا تھا تو یہ دیکھ کر اس کو تھوڑی سی حیرت ہوئی کہ آج بن مانس اس جگہ موجود نہیں تھا جہاں پر وہ روز اس کا انتظار کرتا تھا- سعید گھاس پر لیٹ کر جنگل کی طرف دیکھنے لگا- اسے امید تھی کہ بن مانس ضرور آ ئے گا- مگر سورج سر پر آگیا تب بھی بن مانس کا دور دور تک پتہ نہیں تھا-
سعید اپنے دوست بن مانس سے بیحد محبّت کرنے لگا تھا- وہ آج نہیں آیا تو سعید کا دل بے چین ہوگیا- وہ اپنے ساتھ جو کھانا لایا تھا وہ ابھی تک جوں کا توں پڑا تھا- اس کا دل ہی نہیں چاہ رہا تھا کھانے کو- وہ تو یہ سوچ کر فکر میں مبتلا ہوا جارہا تھا کہ کہیں اس کے پیارے دوست کو کوئی حادثہ تو پیش نہیں آ گیا ہے- پھر یکایک اس نے سوچا کہ چل کر دیکھاجائے کہ کیا معاملہ ہے- وہ جگہ چونکہ بالکل سنسان تھی اس لیے بھیڑ بکریوں کی طرف سے سعید کو یہ فکر نہیں تھی کہ انھیں کوئی پکڑ کر لے جائے گا- وہ اٹھ کر جنگل کی طرف روانہ ہوگیا- پہلے تو اس نے وہ جگہیں دیکھیں جہاں پر بن مانس اسے اپنے ساتھ لے جاتا تھا مگر ان جگہوں پر بھی وہ نہیں ملا-
ایک گھنٹے کی تلاش کے بعد سعید ایک جگہ کھڑے ہو کر سوچنے لگا کہ اب اسے کہاں تلاش کرے- ابھی وہ کوئی فیصلہ بھی نہیں کر پایا تھا کہ اس کے کانوں میں گولی چلنے کی آواز آئی-جنگل کے اس پار شہزاد نگر نامی شہر تھا اور وہاں سے اکثرلوگ شکار کی خاطر اس جنگل میں نکل آتے تھے- گولی کی آواز سنکر وہ ٹھٹھک کر رہ گیا- انجانے خدشوں نے اسے پریشان کر دیا- وہ سوچنے لگا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی شکاری پارٹی نے اس کے بن مانس دوست کو گھیر گھار کرگولی کا نشانہ بنا دیا ہو- اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا- وہ اس سمت بھاگا جدہر سے گولی کی آواز آئی تھی- پھروہ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ اسے جلدی سے ایک درخت کی آڑ میں ہوجانا پڑا- سامنے ہی درختوں کے جھنڈ میں ایک شکاری کھڑا تھا- اس کی پشت سعید کی جانب تھی اور وہ خاکی کوٹ پتلون میں ملبوس تھا- اس کے ایک ہاتھ میں رائفل تھی اور دوسرے ہاتھ میں ایک ریشمی کپڑے کی پوٹلی تھی اوراس کے قریب ہی زمین پر ایک بندر اوندھا پڑا ہوا تھا- اس کے ساکت جسم اور بالشت بھر کے سینے میں ایک رنگین سوراخ دیکھ کر کوئی بھی بڑی آسانی سے یہ سمجھ سکتا تھا کہ بے چارہ بندر اس دنیا سے رخصت ہوچکا ہے-
سعید فوراً ہی سمجھ گیا کہ یہ وہ ہی بندر تھا جو کل نمبردارصاحب کی زیورات کی پوٹلی لے کر بھاگ گیا تھا- اس شکاری نے کچھ دیر بعد اپنی رائفل ایک درخت سے ٹکا کر کھڑی کردی اور پوٹلی کو کھول کر اس کا جائزہ لینے لگا-سعید درخت کے پیچھے سے نکل کر اس شکاری کے قریب پہنچا- اپنے پیچھے آہٹ محسوس کر کے شکاری نے جلدی سے گردن گھمائی- سعید ایک لمحہ کو تو حیران رہ گیا- پھرخوشی سے چلا کر بولا- "ارے ارشد صاحب آپ؟"-ارشد نے جلدی سے پوٹلی چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے حیرت اور ناگواری کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ پوچھا- "اوئے سعید تو یہاں کیا کر رہا ہے؟"-سعید اس سے یہ تو نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ اپنے ایک بن مانس دوست کو تلاش کرتے ہوئے یہاں آیا ہے کیونکہ اس کی بات سن کر ارشد کو یقین ہی نہیں آتا اور وہ اس کا مذاق اڑانے لگتااس لیے وہ بولا- "جی بس میں آپکی گولی کی آواز سنکر یہاں چلا آیا تھا- دراصل میں آجکل بھیڑ بکریوں کو چرانے کیلئے یہاں لانے لگا ہوں- ویسے آپ نے اس بندر کو مار کر بہت اچھا کیا ہے- یہ کل اپنے نمبردار کے زیورات کی پوٹلی لے بھاگا تھا- ویسے ارشد صاحب آپ کو نمبردار صاحب بہت یادکرتے ہیں- گاؤں کے چوپال میں جب بھی بیٹھتے ہیں تو پہلے تو شکار کا تذکرہ چھڑتا ہے- اس کے بعد آپ کا ذکر ہونے لگتاہے"-ارشد نمبر دار کا دوست تھا- وہ دونوں گاؤں ہی میں ایک ساتھ پلے بڑھے تھے- پھر جوان ہو کر ارشد شہزاد نگر میں جا بساتھا- مگر وہ کبھی کبھار گاؤں بھی آ جاتا تھا- وہ شکار کا بہت شوقین تھا اور وہ جب بھی گاؤں آتا تھا اس کا نمبردار کے ساتھ شکار کا پروگرام ضرور بنتا تھا-
سعید کی بات سن کر ارشد نے زیورات کی پوٹلی کو چھپانا بے سود سمجھا- اس نے وہ تھیلی سعید کو دکھا کر کہا- "میں تمہارے گاؤں ہی آ رہا تھا- گھوڑا بھوکا تھا- اسے گھاس چرنے کے لیے چھوڑ کر میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ میری نظر اس موٹے بندر پر پڑ گئی- یہ پوٹلی اس نے بغل میں دبارکھی تھی- مجھے خیال گزرا کہ اس پوٹلی میں ضرور کوئی قیمتی چیز ہے- اس لیے میں نے اسے مار گرایا"-"نمبر دار صاحب کی بیوی کو ان زیورات کے کھو جانے کابہت افسوس ہے- آپ فوراً گاؤں چلے جائیے- زیورات کے مل جانے پر وہ بہت خوش ہوں گی"-ارشد لاکھ نمبردار کا دوست سہی مگر اتنے قیمتی زیورات پاکر اس کی بھی نیّت بدل گئی تھی- اس نے بڑی نرمی سے کہا- "سعید اس بات کو اپنے تک ہی محدود رکھنا کہ میں نے بندر کو مار کر یہ زیورات حاصل کر لیے ہیں- نمبردار تو بہت امیر آدمی ہے- وہ کچھ اور رقم خرچ کر کے دوسرے زیورات بھی خرید سکتا ہے- میں ایک غریب آدمی ہوں- شہر میں اینٹوں کے ایک بھٹے پر کام کرتا ہوں جہاں سے مجھے نہایت قلیل معاوضہ ملتا ہے- اگر یہ زیورات میرے قبضے میں رہیں تو میں ان کو فروخت کر کے کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرلوں گا"-
سعید بدک کر بولا- "ارشد صاحب دوستی ہی کا کچھ لحاظ کیجئے- میں تو آپ کو اتنا بے ایمان نہیں سمجھتا تھا"-ارشد کے تیور ایکدم بدل گئے- لہجہ بدل کر بولا- "اگر تو اپنی زبان بند رکھنے کا وعدہ کرے تو میں تجھے ابھی اسی وقت پچاس روپے دے سکتا ہوں- یاد رکھ اگر تو نے انکار کیا تومیں تجھے زندہ اس لیے نہیں چھوڑوں گا کہ تو یہ ساری باتیں نمبردار سے جا کر بک دے گا- یہ زیورات میں نے حاصل کیے ہیں اور ان پر میرا ہی حق بنتا ہے"- یہ کہتے ہوئے ارشدنے درخت سے ٹکی ہوئی اپنی رائفل کی طرف دیکھا اور سعید کو گھورنے لگا-
سعید جان چکا تھا کہ ارشد کی آنکھوں پر لالچ نے پٹی باندھ دی ہے- وہ یہ بھی سمجھ گیا تھا کہ ارشد اس کے انکار پر اسے زندہ نہیں چھوڑے گا اور سعید اس کے لیے تیار نہیں تھا کہ محض پچاس روپے کی خاطر وہ بھی ایک جرم میں شریک ہوجائے- اس نے اپنی ناک سہلا کر دو تین مرتبہ پلکیں جھپکائیں اور پھر اچانک ہی ارشد کے ہاتھوں سے زیورات کی پوٹلی جھپٹ کر ایک طرف کو بھاگ نکلا-ارشد کو سعید سے اس حرکت کی بالکل توقع نہیں تھی- ایک لمحہ کو تو وہ ہکا بکا رہ گیا پھر اس نے بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اپنی رائفل اٹھائی اور بھاگتے ہوئے سعید پر ایک فائرداغ دیا- مگر چونکہ فائر جلدی میں کیا گیا تھا اس لیے نشانہ چوک گیا- پھر ارشد کو دوسرا فائر کرنے کی مہلت ہی نہیں ملی تھی کیونکہ سعید درختوں کے جھنڈ میں گھس کر نظروں سے غائب ہوگیا تھا-
ارشد نے سوچا کہ اگر سعید بچ کر چلا گیا تو اسے زیورات سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے اور وہ نمبردار کے علاوہ گاؤں کے لوگوں کی نظروں سے بھی گرجائے گا- کیونکہ سعید یقینی طور پر وہاں اس کی بے ایمانی کا پول کھول دیتا- لہٰذا اس نے فیصلہ کر لیا کہ سعید کو ہر قیمت پر موت کے گھاٹ اتار کررہے گا تاکہ اس کی بنی ہوئی عزت محفوظ رہے- یہ سوچتے ہی وہ بھی اس طرف دوڑا جہاں پر سعید روپوش ہوگیا تھا-
وہ ایک ماہر شکاری تھا- وہ نہایت تیزی سے بغیر کوئی آواز پیداکیے دوڑ سکتا تھا- اس کو جلد ہی سعید نظر آ گیا- وہ جنگل کے اندرونی حصّے کی طرف بڑی تیز رفتاری سے بھاگ رہاتھا- ارشد کے لیے یہ کافی مشکل بات تھی کہ سعید کو اپنی گولی کا نشانہ بنا سکے کیونکہ بڑے بڑے درختوں کے تنے سعید کی ڈھال بنے ہوئے تھے- سعید بار بار گردن موڑ کرپیچھے کی جانب دیکھ رہا تھا- اور وہ بھی اس بات سے باخبرہو گیا تھا کہ ارشد اس کے تعاقب میں ہے- اس لیے وہ یہ ہی کوشش کر رہا تھا کہ درختوں کی آڑ لے کر بھاگے تاکہ اگر ارشد کی طرف سے کوئی فائر ہو بھی تو وہ ان درختوں کی وجہ سے محفوظ رہے-
ارشد نے سوچ لیا تھا کہ اس بھاگ دوڑ سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا اس لیے اس نے چالاکی سے سعید کو گھیرنے کا منصوبہ بنایا- اس نے خود کو جھاڑیوں میں گرادیا- جب سعید نے تھوڑی دیر بعد پیچھے مڑ کر دیکھا تو ارشد کو غائب پا کر وہ بے حد حیران ہوا- ایک موٹے سے تنے کے درخت کے پیچھے چھپ کر وہ گردن نکال کر ارشد کو تلاش کرنے کی کوشش کرنے لگا- ارشد کا تو جی چاہتا تھا کہ یہیں سے گولی چلا کر سعید کی کھوپڑی اڑا دے مگر خاردار جھاڑیوں کی وجہ سے صحیح نشانہ لینا ممکن نہیں تھا- وہ دانت پیستے ہوئے سعیدکو دیکھنے لگا-
____________
سعید بے حد حیران تھا- وہ سوچ رہا تھا کہ آخر ارشد کہاں غائب ہوگیا ہے- وہ جانتا تھا کہ ارشد ایک شاطر انسان ہے اس لیے وہ اتنی آسانی سے اس کا پیچھا نہیں چھوڑے گا- وہ سمجھ تو گیا تھا کہ ارشد کہیں چھپ گیا ہے- مگر وہ یہ نہیں جانتا تھاکہ وو چھپا کہاں ہے- وہ کچھ دیر تک تو اس درخت کے پیچھے سے گردن نکال کر ارشد کو دیکھ لینے کی کوشش کرتا رہا پھروہ آہستگی سے زمین پر لیٹا اور سینے کے بل گھسٹتا ہواآگے کی طرف بڑھنے لگا-
اسی طرح سینے کے بل گھسٹتے ہوئے اس نے کافی فاصلہ طے کر لیا تھا- پھر وہ ایک درخت کے پاس آ کر رک گیا- اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اس درخت پر چڑھ کر خود کو گھنے پتوں میں چھپا لے گا- پھر جب ارشد اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک جائے گا تو وہ اس درخت پر سے اتر کر گاؤں میں پہنچ کروہاں پر ارشد کی مکّاری کا راز کھول دے گا- وہ بڑی پھرتی سے درخت پر چڑھا اور خوب اونچائی پر پہنچ کر گھنے پتوں میں چھپ کر بیٹھ گیا- اسے کیا پتہ تھا کہ ارشد جھاڑیوں میں چھپا اس کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے- سعید کو درخت پر چڑھتا دیکھ کر ارشد کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی- کچھ دیر بعد وہ جھاڑیوں میں سے نکلا اور تیز تیزقدموں سے اس درخت کے پاس آیا جس پر سعید چڑھا ہوا تھا- اس نے چلّا کر کہا- "سعید میں نے تجھے دیکھ لیا ہے- سیدھی طرح نیچے اتر آ"-سعید سمجھ گیا تھا کہ اب کھیل ختم ہو گیا ہے- وہ درخت سے کچھ نیچے کھسک آیا اور ایک موٹی سی شاخ پر بیٹھتے ہوئے بڑے نفرت بھرے لہجے میں بولا- "ان زیورات کو سنبھالو-انہوں نے تمہیں اندھا کر دیا ہے"-یہ کہہ کر اس نے زیورات کی پوٹلی ارشد کی طرف پھینک دی- وہ جھاڑیوں میں جا گری-ارشد نے کہا- "انداز تو تمہارا ایسا ہے جیسے کہ تم مجھ پراحسان کر رہے ہو- مگر ابھی بات ختم نہیں ہوئی ہے- میں جانتاہوں کہ اگر میں نے تمہیں زندہ چھوڑ دیا تو تم گاؤں بھر میں مجھے بدنام کر دو گے- اس دنیا میں صرف تم ہی ایک واحدفرد ہو جو کہ اس راز کے بارے میں جانتے ہو کہ میں نے نمبردار کے زیورات کی پوٹلی بندر سے حاصل کرلی ہے-تمہاری موت اس بات کی ضمانت ہوگی کہ یہ راز ہمیشہ رازہی رہے گا"-یہ کہہ کر ارشد نے رائفل کا رخ درخت پر بیٹھے ہوئے سعید کی طرف کر دیا- سعید کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا- وہ ٹکٹکی باندھے ارشد کی طرف دیکھ رہا تھا- ارشد نے سعید کے سر کا نشانہ لیا اور اس کی انگلی رائفل کے گھوڑے پر لرزنے لگی-
____________
کوئی لمحہ ہی جاتا تھا کہ ارشد کی رائفل سے نکلی ہوئی گولی سعید کی زندگی کا خاتمہ کر دیتی کہ جھاڑیوں میں اچانک ہی جیسے بھونچال آ گیا- پھر ایک بھیانک چیخ نے ارشد کے اوسان خطا کر دئیے- اس نے گھبرا کر دائیں طرف دیکھا-ایک دیو کی مانند بن مانس اس کے سر پر پہنچ گیا تھا- سعید کی خوشی سے ایک چیخ نکل گئی- یہ اس کا دوست بن مانس تھا-
بن مانس نے اپنے لمبے اور طاقتور ہاتھ کی ایک ہی ضرب سے ارشد کو پیچھے کی جانب گرجانے پر مجبور کر دیا- اس کے ہاتھ سے رائفل چھوٹ کر زمین پر گر پڑی- ارشد کے منہ سے ڈری ڈری چیخیں نکلنے لگی تھیں- وہ زمین پر چت پڑارحم طلب نظروں سے بن مانس کو دیکھ رہا تھا- بن مانس کے منہ سے خوفناک غرا ہٹیں نکل رہی تھیں- اس نے اپنے بھاری بھرکم پاؤں ارشد کے سینے پر رکھا اور اس پر سوار ہو گیا-ارشد کے منہ سے خون کا ایک فوارہ نکلا اور وہ ذبح ہوتے ہوئے بکرے کی طرح چیختے ہوئے تڑپنے لگا- پھر بن مانس اس وقت تک اس پر سے نہیں اترا تھا جب تک اس کا جسم بالکل ساکت نہیں ہوگیا تھا-سعید ایک چھلانگ مار کر درخت سے کود کر نیچے اترا اوربن مانس سے لپٹ گیا- بن مانس کا جسم کچھ بھیگا بھیگا تھا-ایسا معلوم دیتا تھا جیسے وہ پانی سے نکل کر آ رہا ہو- اپنے دوست کے دشمن کو ختم کر کے بن مانس بھی بیحد خوش نظر آرہا تھا- اس نے سعید کا ہاتھ پکڑا اور اسے لیکر ایک طرف کوچل دیا- تھوڑی ہی دور پر ایک جھیل تھی جو جنگل کے کافی بڑے حصّے میں پھیلی ہوئی تھی- جھیل کے پانی میں دو تین لکڑیوں کے موٹے موٹے شہتیر پڑے ہوئے تھے-
بن مانس پانی میں گھس کر ایک شہتیر پر جا کر بیٹھ گیا اور اپنے پاؤں کو ادھر ادھر مارنے لگا جس سے شہتیر آگے بڑھنے لگا- بن مانس دانت نکال کر سعید کو دیکھنے لگا- جیسے اسے بھی جھیل کے اس مزے دار کھیل سے لطف اندوز ہونے کی دعوت دے رہا ہو-اب سعید نے سوچا کہ اس کا بن مانس دوست صبح سے اس انوکھے کھیل میں مصروف ہوگا اسی لیے وہ اس سے ملنے کے لیے نہیں آ سکا تھا- وہ بھی مسکراتے ہوئے پانی میں داخل ہوگیا- پھر کافی دیر تک بن مانس کے ساتھ جھیل کی سیرکرنے کے بعد اس نے بن مانس کو اشاروں میں یہ بتانے کی کوشش کی کہ اب وہ گھر جانا چاہتا ہے-پھر اس کے پاس سے چلے آنے کے بعد وہ سب سے پہلے ان جھاڑیوں میں آیا جہاں پر اس نے زیورات کی پوٹلی پھینکی تھی- زیورات کی پوٹلی اٹھا کر جب وہ جانے لگا تو اس کی نظر ارشد کی لاش پر پڑی جو کہ بے حد خوفناک لگ رہی تھی-
سعید کو ایک جھرجھری سی آ گئی- اس نے سوچا کہ اگر اس کا دوست بن مانس اس کی مدد کو نہ آتا تو لالچی ارشدضرور اس کا خاتمہ کر دیتا- اسے اس بات پر حیرانی تھی کہ بن مانس اس کی مدد کو کیسے پہنچ گیا مگر جب وہ بن مانس کے ساتھ جھیل کی سیر کر رہا تھا تو اس کی حیرانی دور ہوگئی کیونکہ جس درخت پر وہ بیٹھا تھا وہ درخت وہاں سے صاف دکھائی دے رہا تھا اور بن مانس اس کی شکل دیکھ کر ہی وہاںآ یا تھا- ارشد کے تیور دیکھ کر اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ اس کے دوست سعید کا دشمن ہے- لہٰذا اس نے اس کا خاتمہ کردیا-جنگل سے باہر آ کر وہ بھیڑ بکریوں کو ساتھ لے کر گاؤں کی طرف چل دیا- وہ سب سے پہلے نمبردار کے مکان پر پہنچااور اس کے سامنے زیورات کی پوٹلی رکھ دی-نمبردار بے حد حیران تھا- کبھی کووہ زیورات کی پوٹلی کی طرف دیکھتا اور کبھی سعید کی شکل کو-
سعید نے نمبردار کو شروع سے لے کر آخر تک پوری داستان سنا دی-نمبردار سعید کی بہادری، شرافت اور ایمانداری سے بے حدخوش ہوا- کیونکہ اگر سعید چاہتا تو بڑی خاموشی سے تمام زیورات خود ہی ہضم کر سکتا تھا- کسی کو کانوں کان بھی خبر نہیں ہوتی- نمبردار نے اس کی ایمانداری کا یہ صلہ دیاکہ اسے اپنا بیٹا بنا لیا کیونکہ اس کے کوئی اولاد بھی نہیں تھی-پورے گاؤں میں سعید کی ایمانداری کے چرچے ہوگئے تھے-سعید نے نمبردار کا منہ بولا بیٹا بننے کے بعد بھیڑ بکریاں چرانا چھوڑ دیں اور دل لگا کر پڑھنے لگا-ویسے اس کی بن مانس سے دوستی اب بھی قائم تھی- نمبردارجب تک زندہ رہا اسے ہمیشہ اس بات کا بے حد افسوس رہا کہ اس کے بچپن کے دوست نے صرف دولت کی خاطر اسے دھوکہ دینے کی کوشش کی تھی اور آخر اس لالچ نے اس کی جان لے لی-

Browse More Moral Stories