Phool Wadi - Article No. 2354

Phool Wadi

پھول وادی - تحریر نمبر 2354

ہماری پھول وادی میں صرف ان بچوں کو لایا جاتا ہے،جو سچ بولتے ہیں،بڑوں کا ادب کرتے ہیں،ہر موقع پر نیکی کے کام کرتے ہیں اور جو کبھی کسی کا دل نہیں دکھاتے

جمعرات 15 ستمبر 2022

منزہ بھٹی
اس کے اردگرد،رنگ برنگی گھیر دار فراکیں پہنے بہت ساری پریاں تھیں۔وہ حیرانی سے انھیں دیکھ رہی تھی۔”پیاری لڑکی!تمہارا نام کیا ہے؟“فیروزی فراک پہنے ایک پری مسکراتی ہوئی اس کی طرف بڑھی۔
”میرا نام نوریہ ہے،مگر میں یہاں کیسے آئی؟“اس نے اپنا نام بتاتے ہوئے اس پری سے پوچھا۔
”ارے واہ،تمہاری طرح تمہارا نام بھی بہت پیارا ہے۔
چلو،مل کر کھیلتے ہیں۔“سرخ فراک پہنے ایک اور پری اس کی طرف بڑھی۔اس کی دیکھا دیکھی باقی پریاں بھی اس کے قریب آ گئیں۔
سات سالہ نوریہ خود کو اس خوب صورت وادی میں دیکھ کر بہت حیران تھی۔یہاں چاروں طرف رنگ برنگے پھول ہی پھول تھے۔اسے بھی پریوں جیسا لباس پہنا دیا گیا۔اب وہ بھی ان پریوں کی طرح گھیر دار سفید رنگ کی فراک پہنے ہوئے تھی۔

(جاری ہے)

اس کی دونوں کلائیوں میں موتیے کے پھولوں کے گجرے بھی آ چکے تھے۔نوریہ اب پریوں سے بالکل بھی نہیں ڈر رہی تھی۔وہ خوشی سے جھوم رہی تھی اور ساری پریاں بھی اسے خوش دیکھ کر ہنس رہی تھیں۔
”خاموش ہو جاؤ سب،ملکہ پری آ رہی ہیں۔“ان میں سے ایک پری نے بلند آواز سے سب کو اطلاع دی اور ساری پریاں فوراً ادب سے کھڑی ہو گئیں۔
سفید خوبصورت گھوڑوں کی بگھی چاروں طرف سے پھولوں سے سجی ہوئی تھی۔
ملکہ پری بڑی شان سے بگھی سے نیچے اُتریں۔ملکہ نے گلابی رنگ کی پوشاک پہن رکھی تھی،جو یوں چمک رہی تھی جیسے اس پر تارے جڑے ہوئے ہوں۔ملکہ پری اس کے پاس آ کر ٹھہر گئی:”خوش آمدید پیاری لڑکی!کہو کیسا لگا ہماری پھول وادی میں آ کر؟“ملکہ پری نے بہت نرم لہجے میں نوریہ سے پوچھا۔
نوریہ بہت حیران تھی،بولی:”بہت ہی اچھا لگ رہا ہے۔“
”ہماری پھول وادی میں صرف ان بچوں کو لایا جاتا ہے،جو سچ بولتے ہیں،بڑوں کا ادب کرتے ہیں،ہر موقع پر نیکی کے کام کرتے ہیں اور جو کبھی کسی کا دل نہیں دکھاتے۔

”مگر یہ سب آپ کو کیسے پتا؟“وہ پوچھے بنا نہ رہ سکی۔
”ہماری پھول وادی کے آس پاس جتنے گاؤں ہیں،ہم وہاں رہنے والوں کی خبر رکھتے ہیں۔ہم اپنے اصلی روپ میں نہیں،بلکہ بھیس بدل کر گاؤں والوں کے سامنے آتے ہیں۔“ملکہ پری نے مسکراتے ہوئے کہا تو نوریہ خوشی سے کھل اُٹھی اور مسکرانے لگی۔
ملکہ نے اشارہ کرکے ایک پری سے اس کے لئے بہت سارے تحفے منگوائے۔
نوریہ نے ملکہ پری کا شکریہ ادا کیا۔ملکہ مسکراتے ہوئے واپس اپنی بگھی میں بیٹھ کر پرستان کی طرف چلی گئی۔دفعتاً پھول وادی میں بارش ہونے لگی،ٹھنڈی اور ہلکی ہلکی بارش۔
تمام پریاں خوشی سے جھومنے لگیں۔
نوریہ ایک درخت پر لگے جھولے پر بیٹھ کر جھولا جھولنے لگی۔ایک پری نے کھلکھلاتے ہوئے اس کو زور سے جھولا جھلایا اور وہ ہنستے ہوئے اپنی آنکھیں بند کرکے بارش اور جھولے کا مزہ لینے لگی۔

”نوریہ!اُٹھو،صبح ہو گئی ہے۔اسکول بھی جانا ہے تمہیں۔“اپنی امی کی آواز پر نوریہ نے ایک دم سے اپنی آنکھیں کھولیں۔
امی اس کے چہرے پر پانی کے ہلکے ہلکے چھینٹے مار رہی تھیں۔
نوریہ نے حیرانی سے خود کو چارپائی پر لیٹا دیکھا اور مسکرانے لگی۔
وہ تیار ہو کر اسکول جانے لگی۔اسکول سے واپس گھر آئی تو ایک بار پھر حیران رہ گئی۔چارپائی پر رنگ برنگے چمک دار کاغذوں میں لپٹے بالکل ویسے ہی تحفے رکھے تھے،جیسے ملکہ پری نے اسے دیے تھے۔
”امی!یہ سب کہاں سے آئے؟“اس نے اپنی امی سے پوچھا۔
”یہ تمہارے چھوٹے ماموں نے تمہارے لئے دبئی سے بھجوائے ہیں۔“

Browse More Moral Stories