Bholi Hoi Naiki - Article No. 1168

Bholi Hoi Naiki

بھولی ہوئی نیکی - تحریر نمبر 1168

”ماسٹر صاحب ! آپ کو تو پتا ہی ہے کہ میرے ابو گاؤں کے وڈیرے خان آصف کے ملازم ہیں اور پچھلے تین ماہ سے میرے ابو کو تنخواہ نہیں ملی ،اسی وجہ سے میں نئی کاپیاں نہیں خرید سکااور آج تو بھو کے پیٹ اسکول آنا پڑا ۔“

پیر 27 اگست 2018

گلا ب خان سولنگی
” مدثر میاں ! آج آپ نے پھر گھر کا کام نہیں کیا ؟“ مدثر اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا اور موٴ دبانہ انداز میں کہا :
”ماسٹر صاحب ! آپ کو تو پتا ہی ہے کہ میرے ابو گاؤں کے وڈیرے خان آصف کے ملازم ہیں اور پچھلے تین ماہ سے میرے ابو کو تنخواہ نہیں ملی ،اسی وجہ سے میں نئی کاپیاں نہیں خرید سکااور آج تو بھو کے پیٹ اسکول آنا پڑا ۔

“ یہ کہتے ہی وہ آبدیدہ ہوگیا ۔اسے یوں روتا دیکھ کر استاد نے آگے بڑھ کر اسے دلا سا دیتے ہوئے کہا : ” ارے بیٹا ! روتے نہیں ہیں ۔مجھے کیا پتا تھا کہ آپ نے ناشتا نہیں کیا ۔شاباش بیٹے ! آنسو پونچھ لو ،ابھی تمہارے لیے بسکٹ منگوا تا ہوں ۔‘ ‘ اسی جماعت میں وڈیرے آصف کا بیٹا ایوب بھی پڑھتا تھا ،وہ بھی اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور استاد سے کہا :” ماسٹر صاحب ! میں اپنے ابو سے اس سلسلے میں بات کروں گا ۔

(جاری ہے)

مجھے اُمید ہے کہ وہ مدثر کے ابو کی تنخوا ہ کی ادائی ضرور کردیں گے ۔جب تک میں اپنی نئی کاپیاں مدثر کو دیتا ہوں ۔“ اس نے بیگ سے نئی کاپیاں نکالیں اور آگے بڑھ کر مدثر کے حوالے کیں ۔ایوب کی ہمدردی کا جذبہ دیکھ کر سب بچوں نے تالیاں بجائیں اور اس کو داد دی ۔استاد صاحب نے بھی شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور شاباش دی ۔وہ گاؤ ں کا واحد پر ائمری سکول تھا ،جہاں وڈیرے اور کسانوں کے بچے ایک ساتھ تعلیم صاصل کرتے تھے ۔
اس اسکول کے استاد کانام عباس خان تھا ،وہ نہایت ایمان دار ،فرض شناس اور رحم دل انسان تھے ۔دوسرے دن مدثر کافی خوش نظر آرہاتھا ۔اس نے استاد کو بتایا :” ماسٹر صاحب ! میرے ابو کو تنخواہ مل گئی ہے او ر اب ہمارے گھر کے حالات پہلے سے بہتر ہیں ۔میں مشکور ہوں اپنے دوست ایوب کا ،جس نے اپنے والد دسے سفارش کی ۔“ استاد عباس خان نے مسکرا کر کہا :” ارے بھئی ،اس میں سفارش کیسی ،آپ کے والد صاحب نے محنت کی اور یہ ان کا حق تھا ۔
آج سے ہر بچہ یہ عہد کرے کہ وہ سخت سے سخت محنت کرے گا اور علم کی طاقت سے اپنے حالات کا مقابلہ کرے گا اور بڑا ہوکر ایک ایمان دار اور سچے پاکستانی ہونے کا ثبوت دے گا ۔“ بہت سا وقت گز ر گیا ۔اس اسکول کے بچے ایک دوسرے سے جدا ہوکر آج بڑے بڑے عہدوں پر تعینات تھے ۔کوئی افسر بن گیا ،کوئی باہر چلا گیا تو کوئی استاد ۔وڈیرے آصف کے بعد گھر کے حالات بدتر ہوگئے تھے ۔
اس کے چھوٹے بھائیوں نے زمین جائداد بیچ دی تھی ۔انھوں نے اپنے بھتیجے ایوب کو زمین کا حصہ نہیں دیا اور یوں وہ اپنی بوڑھی والدہ کے ساتھ شہر آگیا اور کرائے کے مکان میں رہنے لگا ۔ایوب بی اے پاس تھا اور کسی نوکری کی تلاش میں درخواست دے رکھی تھی ۔آج اسے انٹر ویو کا خط وصول ہوا تو وہ بہت خوش ہوا ۔
اس نے اپنی والدہ سے دعائیں لیں اور مقر ر ہ وقت پر روانہ ہو گیا ۔
انٹرویو کے لیے بہت سے اُمید وار آئے ہوئے تھے ۔آخر کافی انتظار کے بعد اس کا بلاوا آیا ۔وہ انٹر ویو کے لیے کمرے میں داخل ہوا ۔تین معزز شخصیات اس کے سامنے موجود تھیں ۔سب نے باری باری اس کے کوائف پڑھے ۔ان میں سے دو تو عمر رسید تھے ،مگر ایک شخص ایوب کا ہم عمر تھا ۔ایوب کو محسوس ہوا کہ اس نے کہیں اس شخص دیکھا ہے ،مگر اسے یاد نہیں آرہا تھا ۔
مختلف سوالات کے بعد انھوں نے آپس میں باہمی مشورہ کیااور پھر جو ایوب کا ہم عمر تھا ،بولا :” ایوب صاحب ! اگر بچپن میں آپ نے ایک غریب کسان کے بچے کی مدد نہ کی ہوتی تو آپ کے سامنے بیٹھا یہ خا کسار مدثر نہ جانے کہاں ہوتا ۔“ ایوب کو سب یاد آگیا ۔سامنے بیٹھا شخص اس کا ہم جماعت مدثر تھا ،جو اپنی محنت سے کمپنی کا ایک بڑ اافسر بن گیا تھا ۔پھر تو دونوں دوست ایک دوسرے کے گلے ملے ،دونوں ایک دوسرے کے آنسو پونچھ رہے تھے اور اپنے استاد کو یاد کر رہے تھے ،جواب اس دنیا میں نہیں رہے تھے ۔واپسی پر نوکری کا خط ایوب کے ہاتھ میں تھا ۔

Browse More Moral Stories