Sadiq Ka Roza - Article No. 1116

Sadiq Ka Roza

صادق کا روزہ - تحریر نمبر 1116

صادق ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو وہاں رکھے ہوئے کیلے، امردو، سیب ، سموسے اور کچوری پر اس کی نظر پڑی۔ اتنی ساری چیزیں دیکھ کر اس کی بھوک چمک اٹھی۔ اس وقت ڈرائنگ روم میں کوئی بھی نہیں تھا۔ صادق نے سب سے پہلے جگ سے پانی پیا اور پھر ایک سموسہ کھایا۔

منگل 15 مئی 2018

خلیل جبار:
صادق ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو وہاں رکھے ہوئے کیلے، امردو، سیب ، سموسے اور کچوری پر اس کی نظر پڑی۔ اتنی ساری چیزیں دیکھ کر اس کی بھوک چمک اٹھی۔ اس وقت ڈرائنگ روم میں کوئی بھی نہیں تھا۔ صادق نے سب سے پہلے جگ سے پانی پیا اور پھر ایک سموسہ کھایا۔ اس نے جیسے ہی کچوری کی طرف ہاتھ بڑھایا اسے یاد آگیا کہ اس کاروزہ ہے۔

صادق کو بھوک شدت سے لگی ہوئی تھی اس نے یہ سو چ کر جب روزے میں دو گلاس پانی پی کر ایک سموسہ کھا لیا تو پھر ایک کچوری کھا لینے میںکیا حرج ہے وہ کچوری بھی کھالی۔دوپہر کا وقت تھاسخت دھوپ تھی وہ گھر کے کسی کام سے باہر گیا تھا۔ گرمی کی شدت سے صادق کا بُرا حال ہو گیا تھا۔ گرمی اور دھوپ نے ایسا کام دکھایا پیاس کے مارے صادق کے حلق میں کانٹے پڑ گے۔

(جاری ہے)

گھر پہنچنے پر اس نے پانی اور کھانے کی چیزیں دیکھیں تو اس سے برداشت نہ ہو سکا اور پانی پینے کے بعد سموسہ اور کچوری بھی کھالی۔ صادق نے اس ڈر سے کہ کوئی اسے دیکھ نہ لے جلدی جلدی اپنا منھ صاف کرنے لگا۔اسی دوران دادا جان بھی ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے اور انھوں نے صادق کو اپنے منہ پر ہاتھ سے کچھ صاف کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ ابھی وہ صادق سے کچھ کہنے ہی والے تھے کہ ڈرائنگ روم میں اس کی امی جان بھی داخل ہو گئیں ۔
صادق ، امی جان کو دیکھ کر ڈر گیا دونوں میں انھیں یہ بات بالکل بھی گوارا نہیں تھی کہ روزے داروں کے سامنے کوئی کھائے پیے۔ جن بچوں کی روزے کی عمر نہیں تھی، انھیں بھی کھانا اس طرح دیتی تھیں کہ کسی روزے دار کو پتا نہ چل سکے۔ صادق یہ سوچ کر کانپ اُٹھا کہ امی جان کو اس کے سموسے اور کچوری کھانے اور پانی پینے کا علم ہو جانے پر وہ اس روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیں گی۔
صادق نے دادا جان کی طرف رحم طلب نظروں سے دیکھا۔ دادا جان اس کا چہرہ دیکھ کر سمجھ گئے اور ذرا رعب دار آواز بنا کر بولے:” صادق میاں! تم ڈرائنگ روم میں کیا کر رہے ہو۔ جاو¿، اپنے کمرے میں جا کر آرام کرو۔“
” جی دادا جان!“ یہ کہتے ہوئے صادق اپنے کمرے میںچلاگیا۔
وہ اس بات پر بہت خوش تھا کہ دادا جان نے اسے بچا لیا ہے، ورنہ وہ امی جان سے بہت مار کھاتا۔
صادق نے بھی روزے کی حالت میں ایسا نہیں کیا تھا آج پہلی بار ایسا ہوا تھا۔ صادق کے چند روزے اچھے گزرے تھے آج وہ باہر جانے پر گرمی سے اتنا بے حال ہو گیا تھا کہ گھر آنے پر اسے یہ بھی یاد نہیں رہا کہ وہ روزے سے ہے۔صادق کو اس بات پر حیرت ہو رہی تھی کہ دادا جان خود روزے کے معاملے میں بہت سخت تھے مگر پھر بھی انھوں نے اسے امی جان کی ڈانٹ سے بچا لیا۔
یہ بات اس کے ذہن میں بُری طرح کھٹک رہی تھی۔ صادق نے سوچا، اپنے ذہن کو اُلجھانے سے بہتر ہے کہ یہ بات دادا جان سے ہی پوچھ لی جائے اور ان کا شکریہ بھی ادا کر لیا جائے۔عصر کی نماز کے بعد صادق سیدھا دادا جان کے کمرے میں پہنچا۔ وہ اس وقت کمرے میں اکیلے ہی تھے۔دادا جان نے صادق کو دیکھ کر کہا:” آو¿ بھئی صادق! کیا بات ہے !کچھ پوچھنا ہے؟“۔

” دادا جان! آپ کو کیسے علم ہوا کہ میں کچھ پوچھنے آیا ہوں؟“ صادق نے حیرت سے پوچھا۔
دادا جان نے کہا:” یہ میں نے اس لیے پوچھا ہے کہ تم اس وقت قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہو ، لیکن تم میرے کمرے میں آگئے ہو اور میرے ذہن میں بھی ایک الجھن ہے، میں تم سے پوچھنا چاہتا تھا۔“
” کیسی اُلجھن؟“ صادق چونکا۔
”آج روزے میں جو تم نے حرکت کی ہے۔

صادق نے کہا:”روزے کی حالت میںکھانے پینے والی بات۔“
” ہاں، کچھ کھاتے ہوئے تو میں نے تمہیں نہیں دیکھا،لیکن مجھے تمہارے انداز سے محسوس ہو اکہ میرے ڈرائنگ روم میں داخل ہونے سے پہلے تم نے کچھ کھایا ہے۔ میں تم اس بارے میں پوچھنا چاہ رہا تھا، مگر ڈرائنگ روم میں اسی وقت تمہاری والدہ آگئیں اور تمہاری والدہ کو یہ بات پتا چلتی تو تمہیں سمجھانے کی بجائے ان کا زور پٹائی پر زیادہ ہوتا ، اس لیے میں نے تمہیں کمرے میں جانے کا کہہ کر پٹائی سے بچا لیا۔

” دادا جان!آپ روزے کے معاملے میں اتنے سخت ہیں، پھر بھی مجھے بچا لیا؟“
صادق نے حیرت سے پوچھا۔
” میں تم سے اس بات کی وجہ جاننا چاہتا ہوں کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟“
صادق نے کہا:” دادا جان ! میں کام سے باہر گیا تھا۔ باہر دھوپ اور گرمی اس قدر تھی کہ میرا بُرا حال ہو گیا۔ میں جب گھر میں داخل ہوا پانی کا جگ دیکھ کر پیاس کی شدت برداشت نہ ہوئی اور میں نے پانی پی لیا۔
سموسے کو دیکھ کر شدید بھوک کا احساس ہوا اور میں نے ایک سموسہ بھی کھا لیا۔ سموسہ کھا لینے کے بعد مجھے یاد آیا کہ میرا روزہ ہے۔ میں نے سوچا کہ جب پانی پی لیا اور سموسہ کھا لیا ہے۔ پھر ایک کچوری کھا لینے میں کیا حرج ہے ، یہ سو چ کر میں نے کچوری کھا لی۔“
” صادق بیٹے! ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ اگر روزے میں بھول کر کھا پی لیا جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔
اس طرح اگرکھاتے وقت یاد آجائے تو اور منھ میں کچھ باقی ہو تو اسے نکال دے اور اسی وقت کھانا پینا چھور کر اور کلی کر لے۔ تمہیں جب یاد آگیا تھا کہ تمہارا روزہ ہے پھر تمہیں کچوری کھانے کے بجائے کلی کر لینی چاہیے تھی۔“
صادق ندامت بھرے لہجے میں بولا:” دادا جان! یہ بات مجھے معلوم نہیں تھی۔“
” صادق بیٹے! میں نے آج تمہیں پٹائی سے ضرور بچا لیا ہے ، لیکن غور کرو، قیامت کے دن تمہیں کون بچائے گا۔
اس دن سب ہی کو اپنی اپنی پڑی ہو گئی۔” دادا جان نے صادق کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
صادق کا سرشرم سے جھک گیا، واقعی اس سے بہت بڑی غلطی ہوئی کہ اس نے روزہ توڑ لیا ہے۔
” دادا جان! میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آیندہ ایسا نہیں ہو گا۔“
” شاباش! اپنی غلطی پر پشیمان ہونا اچھی بات ہے جب تم نے یہ ارادہ کر لیا ہے کہ آئندہ نہیں کرو گے تو یقینا اللہ تمہیں معاف کر دے گا۔“ دادا جان نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔

Browse More Moral Stories