Soone Ki Ghari - Article No. 1810

Soone Ki Ghari

سونے کی گھڑی - تحریر نمبر 1810

ان کا پیوں کتابوں کے بیچ میں ایک گھڑی جگمگاتی دکھائی دی گھڑی کی چمک دمک سے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ سونے کی ہے

منگل 29 ستمبر 2020

ایم رضوان ملغانی
اس رات ابا بڑی دیر سے گھر آئے اور آتے ہی اپنے کمرے میں چلے گئے۔ عموماً وہ جب بھی گھر آتے کچھ نہ کچھ لے کر آتے تھے۔ اس بار وہ خالی ہاتھ تھے۔ آج انھوں نے سلام بھی نہیں کیا تھا،جہاں امی کو پریشانی لاحق ہوئی،وہیں مجھے بھی گڑبڑ لگنے لگی۔
میں اُٹھ کر ابا کے کمرے کی طرف جانے لگا تو امی نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا اور خود بڑھ گئیں۔
میں طرح طرح کی باتیں سوچتا ہوا صحن میں ٹہلنے لگا۔کچھ دیر بعد امی کی واپسی ہوئی۔مجھے ان کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر ہی انداز ہو گیا تھاکہ ضرور میری ہی کوئی بات ہے۔ میرا شک یقین میں تب بدلا جب انھوں نے غصے سے کہا:”جاؤ ،تمہارے ابو بلا رہے ہیں تمہیں۔“
یہ کہہ کر وہ باورچی خانے کی جانب چلی گئیں۔

(جاری ہے)

میں ان کے پیچھے بھاگا:”امی !بتائیں تو آخر ہوا کیا ہے؟“
میں جان گیا تھا کہ انجانے میں شاید مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہو گی تب ہی وہ اتنے غصے میں ہیں۔

میں ابھی اپنا سوال دوبارہ دہرانے والا تھا کہ ابا جان کی گرجاتی ہوئی آواز کانوں میں گونجی:”حمد ان!سنا نہیں تم نے!جلدی آؤ۔“
میں خوف سے ڈرتا کانپتا اندر چلا گیا:”جی ابا جان!“میں نے انھیں دیکھے بنا کانپتی آواز میں کہا۔
”ادھر آکے بیٹھو،میرے پاس۔“ اب کے ان کے لہجے میں سختی نہ تھی،لیکن میں سہما ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ بولتے میں ان کے پاس جاکر بیٹھ گیا تھا۔

”یاد کرو وہ دن جب تمہارا ہائی سکول میں پہلا دن تھا اور میں نے تمہیں کیا نصیحت کی تھی؟“وہ آہستہ آہستہ،لیکن رنجیدہ آواز میں کہہ رہے تھے۔
”جی ابا جان!مجھے اچھی طرح یاد ہے اور میں نے آپ کی ہر نصیحت پر عمل بھی کیا۔“میں نے یہ جملہ انھیں دیکھ کر کہا تھا، تاکہ انھیں میری سچائی پر جھوٹ کا شبہ نہ ہو۔
”اگر ایسا ہے تو جاؤ اپنا بستہ لے کر آؤ۔
“میں فوراً ان کی بات سمجھ نہیں پایا اور حیرت سے انھیں دیکھتا رہا۔
”تم نے سنا نہیں کیا کہہ رہا ہوں،جاؤ اپنا بستہ لے کر آؤ۔“اس بار انھوں نے سخت لہجے میں کہا۔میں پھر ڈر گیا اور بستہ لینے چلا گیا۔ان کے پاس پہنچا تو انھوں نے بستہ مجھ سے چھین لیا۔بستے کی دونوں زپیں کھول کر اس کی تلاشی لینے لگے،انھیں مطلوبہ شے نہ ملی تو انھوں نے بستہ اُلٹ دیا ساری کاپیاں اور کتابیں پلنگ پر بکھر گئیں اور ان کا پیوں کتابوں کے بیچ میں ایک گھڑی جگمگاتی دکھائی دی گھڑی کی چمک دمک سے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ سونے کی ہے۔

”یہ کہاں سے آئی تمہارے بیگ میں!بولو جواب دو۔“انھوں نے ایک ہاتھ میں گھڑی لہرائی اور دوسرے ہاتھ سے میرے بازو کو دبوچ کر کہا۔
”ابا!مجھ سے قسم اُٹھوالیں میں نہیں جانتا یہ کس کی ہے اور میرے بستے میں کیسے آئی۔“میں نے روتے ہوئے جواب دیا۔
”بکواس بند کرو اور سچ سچ بتاؤ مجھے۔“وہ ایک بار پھر غصے سے بولے تھے۔میں کچھ نہ سمجھتے ہوئے گزرے دن یاد کرنے لگا ۔
کافی سوچ بچارکے بعد مجھے یاد آیا۔
یہ اس دن کا واقعہ ہے جب بارش ہو رہی تھی اور میرا سکول جانے کا قطعاً دل نہیں چاہ رہا تھا۔ابا چھتری لے کر باہر جانے لگے تو ان کی مجھ پر نظر پڑی۔
”ابھی تک تیار کیوں نہیں ہوئے،جلدی تیار ہو کر آؤ میں انتظار کرتا ہوں تمہارا ،آج رکشے سے جائیں گے سکول۔“انھوں نے اس انداز میں کہا کہ مجھے ان کی بات ماننی پڑی۔
میں تیار ہو کر آیا تو امی نے فوراً ناشتہ میرے آگے رکھ دیا۔میں نے جھٹ پٹ ناشتہ ختم کیا اور ابا کے ساتھ ہو لیا۔
رکشے میں سوار ہوئے تو ابا مجھے بتانے لگے:”آج سکول میں پرنسپل نے پارٹی رکھی ہے شہر کا کوئی بڑا سیاست دان آرہا ہے ۔دہم کلاس کے دو اور سیکشن بنوانے ہیں۔اسٹاف روم کی چھت ٹپکتی ہے۔پانی کی ٹنکی لیک ہو گئی ہے۔میری کینٹین بھی چھوٹی ہے اسے بڑا کرنا ہے ۔
لاکھوں کا خرچہ ہے۔اس وجہ سے پرنسپل صاحب نے انھیں مدعو کیا ہے۔“
وہ ذرا دیر کے لئے رکے پھر بولے:”ممکن ہے دوپہر کا کھانا بھی سکول میں ہی پرنسپل کے ساتھ ہو۔کاش دلاور چودھری مان جائے اور فنڈ کی منظوری دے دے۔“وہ تحمل سے بتا چکے تو میں بھی دل ہی دل میں دعا کرنے لگا۔
ابا جان گزشتہ برسوں سے اس سرکاری سکول میں کینٹین چلا رہے تھے ۔
اس کے ساتھ ساتھ سکول میں جب بھی کوئی خاص موقع یا تقریب ہوتی منتظم کے طور پر ان کا سکول میں ہونا لازم ہوتا۔
ہم سکول پہنچے تو مجھے ابا جان نے اسمبلی کے لئے گھنٹی بجانے کا حکم دیا اور خود پرنسپل آفس چلے گئے۔ واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں لسٹ تھی میں نے اس لسٹ کی بابت پوچھا تو بتانے لگے کہ یہ پکوان تیار کروانے ہیں ۔وہ بتاتے ہی کینٹین چلے گئے اور میں سکول سے لیٹ آنے والوں لڑکوں کے نام ایک فائل میں نوٹ کرنے میں لگ گیا۔
پرنسپل صاحب نے یہ قانون بنایا تھا کہ سکول کی ہر کلاس کا مانیٹر اپنی باری آنے پر یہ ڈیوٹی سر انجام دے گا ۔اس روز منگل تھا اور منگل کے دن میری باری ہوتی تھی۔میں فائل ہاتھ میں لئے لڑکوں کے نام درج کرنے میں لگا ہوا تھا کہ میں نے فیصل کو بھی اس قطار کا حصہ بنتے دیکھا۔وہ انتہائی غصے سے آگ بگولہ ہو کر مجھے دیکھ رہا تھا۔اس کا نام فائل میں لکھنے کی باری آئی تو وہ بولا:”میرا نام فائل میں لکھنے کی غلطی مت کرنا۔
“وہ انتہائی بد تمیزی اور اکھڑ لہجے میں حکم دینے والے انداز میں بولا۔
”’میں اس وقت اپنی ذمے داریاں نبھا رہا ہوں اور میرا فرض ہے جو بھی لیٹ آئے سب کے نام فائل میں درج کروں۔“میں اس کا نام لکھنے لگا ۔اس کا نام لکھ چکا تو اس نے مجھے اُنگلی کھڑی کرتے ہوئے کہا:”تمہیں تو میں دیکھ لوں گا۔“وہ کمرہ جماعت کی طرف بڑھ گیا اور میں باقی طالب علموں کے نام لکھ کر فائل پرنسپل صاحب کے دفتر پہنچا کر کلاس روم میں داخل ہو گیا۔
ششماہی امتحانات سر پر تھے سب کو اپنی اپنی فکر تھی۔تقریباًسب ہی کے فزکس کے پریکٹیکل مکمل تھے اور سب نے چیک کروا دیے تھے ،لیکن ایک فیصل تھا کہ جس نے ابھی تک پریکٹیکل مکمل نہیں کیا تھا۔
وہ کافی دنوں سے مجھ سے کہہ رہا تھا کہ میں اس کا پریکٹیکل مکمل کر دوں۔میرا اپنا کام زیادہ تھا۔امتحانات کی تیاری بھی کرنی تھی۔لہٰذا اس کے بار بار اصرار کرنے پر میں نے بھی بار بار انکار ہی کیا تھا۔
سر خاور جو فزکس پڑھاتے تھے ،اس دن آپے سے باہر ہو گئے ۔انھوں نے فیصل کو کافی ڈانٹ ڈپٹ کر پرنسپل آفس بھجوا دیا۔ یہ فیصل کی بد قسمتی تھی کہ اس وقت پرنسپل آفس میں علاقے کے ایم این اے دلاور چودھری بھی موجود تھے۔اس طرح کی کسی شکایت کا علاقے کے ایم این اے کے سامنے انھیں موصول ہونا کافی تضحیک کی بات تھی۔پرنسپل صاحب شدید قسم کے جذباتی ہو گئے اور فیصل کے جماعت نہم کے بورڈ کے امتحانات کا داخلہ فارم بھجوانے سے انکار کر دیا اور سزا کے طور پر آفس میں کان پکڑ کر ایک ٹانگ پر کھڑے ہونے کا کہا۔
فیصل جیسے لڑکے کے لئے یہ سب برداشت کرنا انتہائی مشکل تھا۔شاید تب ہی وہ مجھ سے بدلہ لینے کے کئی منصوبے ترتیب دیتا رہتا تھا۔
آدھی چھٹی کی گھنٹی بجی تو بچوں نے فیصل کو پرنسپل آفس میں اس حالت میں کھڑے دیکھ کر اس کا خوب مذاق اُڑایا ۔کئی لڑکوں نے فقرے کسے،کئی لڑکوں نے سیٹیاں بجائیں کہ اس وقت ابا جان کھانے کا سارا انتظام کر چکے تھے ۔
ہال میں میز پہ کھانا لگا دیا گیا تھا۔ آدھی چھٹی کے فوراً بعد دلاور چودھری کو تقریر بھی کرنا تھی ۔سارا اسٹاف پرنسپل صاحب اور دلاور چودھری ہال میں جمع تھے۔
ادھر فیصل اکیلا کھڑا سب کو کھانے والی نظروں سے گھور رہا تھا۔ ادھر جب میری نظر پرنسپل آفس کی کھڑکی سے اندر پڑی تو میں نے اس کے ہاتھ میں جگمگاتی ہوئی گھڑی کو دیکھا ۔اس کی نظر گھڑی سے ہٹ کر مجھ پر پڑی تو میں اس کی چمکتی آنکھوں میں شرارت بھانپ لی تھی ،لیکن دلاور چودھری صاحب کی دھواں دھار تقریر کے بعد میں سب کچھ بھول بھال گیا تھا۔

دراصل وہ گھڑی دلاور چودھری ہی کی تھی۔پرنسپل آفس کے ساتھ متصل واش روم میں جاتے ہوئے وہ اپنی گھڑی اُتار کر ٹیبل پہ رکھ گئے تھے ۔ہال میں جاتے ہوئے بھی شاید وہ گھڑی پہننا بھول گئے تھے۔اسی کا فائدہ اُٹھا کر فیصل نے آدھی چھٹی کے وقت ہی وہ گھڑی میرے بیگ میں ڈال دی تھی ۔فیصل کا یہ منصوبہ اس لحاظ سے بھی کامیاب رہا کہ چودھری صاحب نے سکول کے لئے فنڈ دینے کی منظور ی دے دی تھی اور اس خوشی میں پرنسپل صاحب نے اور دیگر اسٹاف نے انھیں تحائف دینے کا بندوبست بھی کر رکھا تھا۔
ایک ہاتھ سے تحائف وصو ل کرتے اور دوسرے ہاتھ میں موبائل پکڑے اسے کان سے لگائے وہ اگلی میٹنگ میں آنے کا کہہ کر روانہ ہوگئے۔اسی ہڑ بڑی میں شاید وہ بالکل بھول گئے تھے کہ ان کے ہاتھ میں سونے کی بیش قیمت گھڑی بھی تھی۔فیصل گھڑی میرے بیگ میں ڈال کر نو دو گیارہ ہو گیا تھا،میری بد قسمتی کہ اس کے نکل جانے کے بعد ابا جان نے مجھے پرنسپل آفس بھیجا کہ میں الماری سے ٹشو بکس لے آؤ،مجھے آفس آتے کئی لڑکوں نے دیکھا اور سب نے یہ بھی دیکھا کہ جب میں آفس گیا تو وہاں فیصل موجود نہیں تھا، اس لئے جب گھڑی کے سلسلے میں چودھری صاحب کا فون آیا اور پرنسل صاحب نے ابا سے ذکر کیا تو ان کا سو فیصد شک مجھ پر ہی تھا۔

جب میں نے اباجان کو سارا واقعہ سنایاتو ابا جان نے میری پیشانی چوم لی اور انھیں میری بات پر یقین آگیا۔
میں ابا جان کے ساتھ فیصل کے گھر گیا۔فیصل خود بھی اپنے کیے پہ شرمندہ تھا۔اس نے نہ صرف مجھ سے بلکہ ابا جان سے بھی معافی مانگی اور یہ تہیہ کیا کہ آئندہ وہ اپنا کام خود کرے گا!گھڑی کسی طریقے سے چودھری صاحب کو بھجوادی گئی تھی۔

Browse More Moral Stories