Yeh Shaadi Nahi Ho Sakti - Article No. 2608

Yeh Shaadi Nahi Ho Sakti

یہ شادی نہیں ہو سکتی - تحریر نمبر 2608

لالچی اور موقع پرست لوگوں سے دور کی دعا سلام اچھی

پیر 11 دسمبر 2023

تسنیم شریف
آج ایمل کی گڑیا کی شادی تھی۔بارات بس آنے ہی والی تھی۔گڑیا کی جدائی کا سوچ سوچ کر ایمل کے ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے۔اس کی تمام سہیلیاں گھر میں جمع تھیں اور ڈھولک بجا کر شادی کے گیت گا رہی تھیں۔ایمل نے ان سب پر ایک نظر ڈالی اور باورچی خانے کی راہ لی،جہاں سے اُٹھتی خوشبوئیں بتا رہی تھیں کہ کھانے کی تیاری مکمل ہے۔

”امی!بریانی پک گئی؟“ ایمل نے پوچھا۔
امی نے مسکرا کر کہا:”ارے میری گڑیا!سب تیار ہے۔بریانی اور رائتہ بھی،کسٹرڈ اور شربت بھی۔کیا بارات آ گئی؟“
’ابھی تو نہیں،فریال نے کہا تھا وہ چھے بجے آئے گی۔“ابھی اس کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ شور بلند ہوا اور وہ بات ادھوری چھوڑ کر باہر کی جانب لپکی۔

(جاری ہے)

امی مسکراتے ہوئے پھر کھانے کی جانب متوجہ ہو گئیں۔

ایمل کی گڑیا کی شادی کا سوٹ امی نے خود سیا تھا۔سرخ شرارہ کُرتی اس پر چھوٹا سا دوپٹہ،جس پر لگا گوٹا امی سے پوچھ پوچھ کر ایمل نے خود ٹانکا تھا،پھر جہیز میں اس نے اپنے ہاتھوں سے ماچس کی خالی ڈبیوں سے صوفہ سیٹ بنایا تھا۔کترنوں سے بہت سارے سوٹ امی نے سی کر دیے تھے۔چھوٹے چھوٹے اسٹیل کے برتن بھی تھے،جو ایمل کو اس کی سالگرہ پر اس کی نانی نے دیے تھے اور سب سے قیمتی تو وہ ہار تھا،جو ابا جان نے جماعت سوم میں اول آنے پر ایمل کو دیا تھا۔

ایمل چوتھی جماعت میں پڑھتی تھی۔وہیں اس کی فریال سے دوستی ہوئی تھی اور آج اسی فریال کے گڈے سے اس کی گڑیا کی شادی تھی۔باراتی بھی اس کی ہم جماعت تھیں۔ایمل اور اس کی سہیلیوں نے باراتیوں کا استقبال مسکراہٹ اور کھلے بازوؤں سے کیا اور انھیں کمرے میں لا بٹھایا۔
ایک دفعہ پھر سب ڈھولک پر گیت گانے میں مگن تھیں کہ ایمل کو اُداس دیکھ کر فریال اس کے پاس آئی:”واہ ایمل جہیز تو تم نے بہت اچھا دیا ہے،مگر یہ اس صندوق میں کیا ہے؟“
”اس میں کہانیوں کی میری کتابیں ہیں تمہارے گھر میں جب گڑیا فارغ ہوا کرے گی تو انھیں پڑھا کرے گی۔
“ایمل نے شرما کر جواب دیا۔
”لو․․․․․فریال تو پورے دن تمہاری گڑیا سب کام کروائے گی،اسے فرصت ملے گی تو پڑھے گی نا۔“حمنہ بولی تو سب ہنسنے لگے۔
”جی نہیں میں کوئی ظالم ساس نہیں ہوں جو اپنی گڑیا سے سارے دن کام کراؤں۔میں تو اسے پیار سے رکھوں گی اور یہ اسٹوریز تو ہم مل کر پڑھیں گے۔“
”اوہو․․․․․اوہو․․․․․اوہ۔
“حمنہ نے پھر چوٹ کی۔
اس سے پہلے کہ فریال کچھ جواب دیتی التمش بھائی نکاح پڑھانے آ گئے۔آئے تو وہ نکاح پڑھانے تھے،مگر اس سے پہلے اپنے دوستوں کو پٹی پڑھانا نہیں بھولے تھے کہ جیسے ہی وہ نکاح شروع کریں اور سب کی توجہ ان کی طرف ہو وہ میز پر رکھے چھواروں کا تھال غائب کر دیں۔آخر ایمل نے پورے ایک پاؤ چھوارے ابا جان سے منگوائے تھے اور اپنے چھوٹے بھائی کو ایک بھی نہیں دیا تھا،سزا تو ملنی تھی۔

ساری لڑکیاں خاموش ہو کر بیٹھ گئیں۔التمش بھائی نے ٹوپی سر پر اچھی طرح جمائی اور ابھی صرف بسم اللہ ہی پڑھی تھی کہ ایک آواز گونجی:”ٹھیرو!یہ شادی نہیں ہو سکتی۔“
سب نے دروازے کی طرف دیکھا جہاں رانی غصے میں بھری کھڑی تھی۔
”کیوں؟“فریال نے پوچھا۔
”کیونکہ پہلے تم نے میری گڑیا کا رشتہ مانگا تھا اور جب میں نے ساری تیاری کر لی تو تم ایمل کے ہاں بارات لے آئیں۔
میں ایسا ہر گز نہیں ہونے دوں گی۔“
”میرا گڈا ہے۔میری مرضی میں کسی سے بھی شادی کروں!ویسے بھی تمھاری گڑیا میٹرک فیل ہے اور میرا گڈا ایم اے پاس۔“فریال نے تنک کر اپنی معلومات کا رعب جھاڑا۔
”اس ایم اے پاس گڈے کی تو ایسی کی تیسی،ٹافیاں تم نے مجھ سے کھائیں،روز اسکول میں میرے ساتھ کھاتی پیتی رہیں اور شادی ایمل کی گڑیا سے۔
ایسا ہر گز نہیں چلے گا۔“
رانی نے آگے بڑھ کر فریال کے بال پکڑ لیے۔فریال نے لات چلائی۔فریال کی سہیلیاں اسے چھڑانے آگے بڑھیں تو رانی کی سہیلیوں نے انھیں پکڑ لیا۔خوب دھینگا مشتی ہوئی۔کسی کے بال نوچے جا رہے تھے تو کسی کی ٹانگ مروڑی جا رہی تھی۔کوئی زمین پر پڑی کراہ رہی تھی تو کوئی مکے برسا رہی تھی۔
یہ دھما چوکڑی سن کر امی اندر آئیں تو ہکا بکا رہ گئیں۔
ایمل اور اس کی سہیلیاں ایک طرف کھڑی تھر تھر کانپ رہی تھیں۔رانی اور فریال ابھی تک گتھم گتھا تھیں۔امی کی آواز بھی دونوں کو ہوش میں نہ لا سکی تو انھوں نے آگے بڑھ کر دونوں کو چھڑایا:”یہ کیا بدتمیزی ہے۔انسانوں کی طرح بات کرو۔تم دونوں یہی کچھ سیکھنے اسکول جاتی ہو!“
فریال اور رانی ایک دوسرے کو غصے سے گھورتی رہیں۔
”دیکھیے نا آنٹی!فریال نے پہلے میری گڑیا سے رشتہ کیا تھا۔
میں نے ہاں بھی کر دی تھی۔جب میں نے ساری تیاری کر لی تو ایمل کی گڑیا سے شادی کرنے آ گئی۔“رانی روتے ہوئے بولی۔
”کیوں بیٹا فریال!جب آپ نے رانی سے بات طے کر رکھی تھی تو ایمل کو رشتہ کیوں دیا؟“
”آنٹی!میرا گڈا ہے،میری مرضی میں کسی سے بھی شادی کروں،میں نے وہ رشتہ توڑ دیا۔“
”سچ سچ بتاؤ نا کہ ایمل کی کہانی کی کتابیں اور کھلونے دیکھ کر تمہاری رال ٹپک پڑی۔
اسی لالچ میں تم نے ایمل کو رشتہ دیا ہے۔“
رانی چلائی تو فریال کو غصہ آ گیا۔اس نے ایک بار پھر رانی کے بال پکڑ لیے۔پھر سے ہاہا کار مچ گئی۔امی نے فریال کو قابو میں کیا اور زبردستی اسے ایک کرسی پر بٹھایا اور اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر خفگی سے کہا:”اک تو چوری اوپر سے سینہ زوری۔بھلا انسان وہ ہے جو اپنی زبان کا پاس رکھے اور وعدے کی پاس داری کرے۔
رشتہ طے کرنا بھی ایک طرح کا عہد ہی ہے۔ایک تو وعدہ خلافی کی دوسرے جھگڑا بھی کرتی ہو۔چلو جاؤ اپنے گھر اب یہ شادی واقعی نہیں ہو سکتی۔“امی نے فریال کو ڈپٹ کر اس کے دونوں ہاتھ چھوڑے اور اسے دروازے کا راستہ دکھایا۔
فریال غصے میں کھولتی ہوئی اُٹھی۔رانی کو دیکھ کر منہ پر ہاتھ پھیرا اور اپنی سہیلیوں کے ساتھ چلی گئی۔ایمل نے آگے بڑھ کر اپنی گڑیا کو دیکھا۔
اس ہنگامے کی زد میں وہ بھی آ گئی تھی۔اس کا ایک ہاتھ ٹوٹ گیا تھا۔قمیض پھٹ گئی تھی۔اس کی یہ حالت دیکھ کر ایمل کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تو امی نے پیار سے ایمل کا گال تھپکا:”اچھا ہوا جو شادی سے پہلے ہی فریال کی اصلیت پتا چل گئی۔لالچی اور موقع پرست لوگوں سے دور کی دعا سلام اچھی۔ایسے لوگ کبھی کسی کے دوست نہیں ہوتے۔غم نہ کرو۔تمہاری اور رانی کی گڑیا کا بہت اچھا رشتہ آ جائے گا۔
اللہ پر بھروسا رکھو۔ان دونوں گڑیاؤں کی اِکٹھی برات آئے گی اور ہم سب مل کر ان کا استقبال کریں گے،کیوں رانی!“امی نے رانی کا ہاتھ پیار سے دبایا جو ابھی تک رو رہی تھی۔“چلو اب ساری بچیاں ہاتھ منہ دھو لیں۔میں کھانا لگاتی ہوں۔“
”لیکن بھئی آئندہ رشتہ کرو تو خوب دیکھ بھال کے کرنا،کیونکہ آج امی کا بہت خرچہ ہو گیا ہے۔‘التمش بھائی جو اس سارے ہنگامے سے فائدہ اُٹھا کر چھواروں سمیت غائب ہو گئے تھے،پھر سے آن موجود ہوئے۔
ان کی بات سن کر روتی ہوئی ایمل اور رانی کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔انھیں ہنستا دیکھ کر التمش بھائی کو یقین ہو گیا کہ اگلی دفعہ کے چھوارے بھی پکے ہیں۔

Browse More Moral Stories