Ehsaas - Pehla Hissa - Article No. 2383

Ehsaas - Pehla Hissa

احساس (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2383

آج پھر کلاس کے بچوں نے اسعد کے ساتھ کھیلنے سے منع کر دیا تھا۔اس کے پاس سے ایک خاص قسم کی بو آتی تھی،جس سے سب بچے چڑتے تھے

پیر 31 اکتوبر 2022

نیلم علی راجہ
آج پھر کلاس کے بچوں نے اسعد کے ساتھ کھیلنے سے منع کر دیا تھا۔اس کے پاس سے ایک خاص قسم کی بو آتی تھی،جس سے سب بچے چڑتے تھے۔ٹیچر کو شکایت لگانے پر ٹیچر نے اسعد کو سب بچوں سے الگ تھلگ ایک کونے میں بیٹھا دیا تھا۔بلیک بورڈ دیکھنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔اسعد جو پہلے ہی کم گو تھا اب اس بات کی وجہ سے اس کا اعتماد بھی جاتا دکھائی دے رہا تھا۔
جیسے تیسے مس ہما کا پیریڈ گزرا۔اگلا پیریڈ اردو کا تھا اور مس عنبرین تو بہت سخت ٹیچر تھیں۔وہ اب اسعد کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گی۔ابھی اسعد انہی سوچوں میں تھا کہ مس عنبرین کے آنے پر سب بچے کھڑے ہو گئے۔
بیٹھنے کا کہنے پر ٹیچر نے کلاس کا ایک چکر لگایا۔اسعد کو الگ تھلگ بیٹھا دیکھ کر پوچھا تو اس کے جواب دینے سے قبل ہی کلاس کا مانیٹر بولا:”میم اسعد نہاتا نہیں ہے۔

(جاری ہے)

اس سے بہت بدبو آتی ہے۔اس لئے اسے میم ہما نے الگ بیٹھا دیا ہے“۔میم عنبرین نے خلاف توقع اسعد سے نرمی میں پوچھا:”آپ کیوں نہیں نہاتے“؟اسعد کوئی جواب دیئے بغیر ہنوز کھڑا رہا۔میم عنبرین نے اسے خاموش کھڑا دیکھ کر بیٹھنے کا کہہ کر واپس آکر پڑھانا شروع کر دیا۔اسی طرح سکول سے چھٹی کا وقت ہو گیا۔
یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔صفائی کے معاملے میں اسعد کی بہت سی شکایات سکول کی ڈسپلن کمیٹی کے پاس درج تھیں۔
جن میں کبھی اس کے ناخن نہ تراشے ہونا،بال بڑھے ہونا،جسم سے بدبو آنا،یونیفارم میلا ہونا،جوتے گندے ہونا شامل تھیں۔اسعد کو نوٹس دیا جاتا اور ہر دفعہ وہ سائن ہو کر آجاتا مگر ہوتا کچھ نہ تھا۔کلاس کے بچے اس کو مذاق کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔کوئی اس سے دوستی کرنے کو تیار نہیں تھا۔اس سے اسعد کی شخصیت بری طرح متاثر ہو رہی تھی۔گھر پہنچ کر اسعد نے اپنا سکول کا بستہ زور سے جا کر کرسی پر پٹخا۔
ملازمہ کھانا لے کر آگئی۔اسعد نے پوچھا:”ممی کہاں ہیں“؟
بیگم صاحبہ ایک پارٹی میں گئی ہیں۔ملازمہ نے جواب دیا۔”میرا یونیفارم دھو دو صغراں“۔”ابھی دو دن پہلے ہی تو دھویا ہے۔ابھی کہاں گندا ہوا ہے۔پرسوں دھو دوں گی۔ابھی مجھے بہت کام کرنے ہیں“۔صغراں نے ترت جواب دیا۔اسعد خاموش ہو گیا۔وہ اب بحث نہیں کرتا تھا۔نو سال کا ہو گیا تھا۔
اب ہر بات سمجھنا شروع ہو گیا تھا۔مگر اپنی بات نہیں سمجھا پا رہا تھا۔باتھ روم میں جا کر کپڑے بدلے اور بھوکا ہی سو گیا۔اسے اپنے کلاس کے بچوں کی باتیں تکلیف دے رہیں تھیں۔وہ آنسو بھری آنکھوں سے سوچتا سوچتا سو گیا۔
آنکھ کھلی تو گھر میں ہلچل تھی۔اسے حیرت ہوئی کیونکہ وہ اکلوتا تھا اور ممی پاپا یا تو لیٹ آتے ورنہ ممی سارا وقت فون اور ٹی وی میں مصروف ڈرامے دیکھتی رہتیں۔
ممی کے پاس اس کے لئے وقت نہیں تھا۔ان کی اپنی مصروفیات تھیں۔اسعد نے اُٹھ کر منہ دھویا اور کمرے سے باہر نکلا۔اب اسے بھوک بھی زوروں کی لگی ہوئی تھی۔گھڑی پر ٹائم دیکھا تو شام کے چھ بج رہے تھے۔لاؤنج میں ایک عورت بیٹھی صغراں کو ڈانٹ رہی تھی۔وہ ممی تو ہر گز نہیں تھیں۔اسعد حیران ہوتے آگے بڑھا۔جا کر دیکھا تو والہانہ گلے لگ گیا۔وہ اس کی پھپھو ارم تھیں۔
ارم کی ناک سے بدبو کا ایک جھونکا چھو کر گزرا۔چہرے کا زاویہ تھوڑا بگڑا مگر اسعد کی محبت میں اسے بھول کر کے اسعد کو پیار کرنے لگیں۔
”کیسا ہے میرا بیٹا؟“ارم نے اسعد کو پیار کرتے ہوئے پوچھا۔”بالکل ٹھیک آپ اتنی دیر بعد کیوں آئی ہیں؟میں آپ کو روزانہ یاد کرتا ہوں۔اسعد نے معصومیت اور محبت سے پھپھو کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا۔
”پھپھو کی جان اب میں آپ کے پاس چند ماہ رہنے آئی ہوں۔آپ کے انکل ملک سے باہر جا رہے ہیں میں نے سوچا میں آپ کے پاس چلی آؤں“۔ پھپھو نے محبت سے اس کا ماتھا چومتے ہوئے کہا۔”زبردست یہ تو بہت اچھا ہو گیا“۔اسعد نے خوشی سے چھلانگ لگاتے ہوئے کہا۔”صغراں اب مجھے بھوک لگ رہی ہے۔مجھے کھانا لا دو۔اسعد نے صغراں سے کہا۔”آپ نے دن کو کھانا نہیں کھایا؟ارم نے استفسار کیا۔
”نہیں پھپھو دل نہیں چاہ رہا تھا۔اسعد نے لاپرواہی سے جواب دیا۔”دل کیوں نہیں چاہ رہا تھا۔اچھا ایسا کرو صغراں نوڈلز ہیں تو وہ فرائی کر لاؤ۔اب اگر کھانا کھا لیا تو پھر رات کو کھانا نہیں کھائے گا یہ۔ارم نے صغراں کو بولا۔وہ باورچی خانے میں چلی گئی۔ارم نے سکول کی تفصیلات پوچھنا شروع کیں تو اسعد کا موڈ خراب ہونا شروع ہو گیا۔”اب آپ آ گئی ہیں ناں تو میں سکول سے چھٹیاں کروں گا۔
مجھے آپ کے ساتھ رہنا ہے“۔اسعد نے ارم سے کہا۔”سکول سے واپس آ کر ہم ساتھ ہی تو ہوں گے۔اس میں چھٹیاں کیوں کرنی ہیں بھلا۔“ارم نے جواب دیا۔ارم نے محسوس کیا اسعد سکول کے نام پر چڑ جاتا ہے۔اس نے موضوع تبدیل کرتے ہوئے ممی پاپا کا پوچھنا شروع کر دیا۔اسعد نے تفصیل بتانا شروع کی۔ارم سن کر حیران رہ گئی کہ ماں کے ہوتے ہوئے بچہ ملازموں کے بھروسے پل رہا ہے۔ماں کو اس کی بالکل پرواہ نہیں تھی۔وہ کچھ سوچ کر چپ ہو گئی۔اتنے میں اسعد کی ممی ثناء بھی آگئی۔آتے ہی ارم کو دیکھا تو خوشی کے مارے چیخ نکل گئی۔بیگ ایک طرف پھینکا اور لپک کر اسے گلے لگا لیا۔
(جاری ہے)

Browse More Moral Stories