Saneha Public Army Shool Peshawar Ke Chaar Saal - Article No. 1252

Saneha Public Army Shool Peshawar Ke Chaar Saal

سانحہ پبلک آرمی سکول پشاور کے چار سال - تحریر نمبر 1252

زندگی پھر سے مُسکرانے لگی ‘اُمیدوں کے نئے دئیے جل اُٹھے اس عظیم درسگاہ کے بچے نئی صبح کا آغاز بڑوں کی دعاؤں سے کر چکے ہیں

پیر 17 دسمبر 2018

علی ڈیال
آرمی پبلک سکول(پشاور )کے درد ناک سانحے کو گزرے چار سال بیت گئے ۔جب 16دسمبر 2014 کے روزآٹھ کے قریب سفاک دہشت گرد سکول میں داخل ہوئے اور ایک سوسے زائد بچوں کا بے دردی سے لہو بہایا اور چمن کو اجاڑ نے کی ناکام کوشش کی ۔آج 2018میں زندگی پھر سے مسکرانے لگی اور امیدوں کے نئے دیے بھی جل اٹھے اور سکول کی دیواروں ،کلاس رومز اور صحن سے بچوں کا خون بھی صاف کردیا گیا۔


لیکن اس ماں کے آنسو آج بھی خشک نہ ہوسکے جسے 16دسمبر2014کے روز سکول جاتے ہوئے اسکے بیٹے نے کہا تھا :میں جارہا ہوں ماں خدا حافظ !
کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ 16دسمبر کی صبح گھر سے نکلنے والے آرمی پبلک سکول پشاور کے یہ بچے گھر تابوت میں لوٹیں گے ۔وہ دن بھی عام دنوں کی طرح شروع ہوا تھا ۔

(جاری ہے)

طالب علموں کا استقبال کرنے والا یہ چمچما تا بورڈا بھی خون سے ابھی رنگانہ تھا ۔

کسے معلوم تھا کہ یہ بورڈ معصوم بچوں کے خون کے چھینٹوں سے بھر جائے گا اور اگر کچھ نظر آئے گا تو صرف The Endجو ایک ماں کی خوشیوں کا ،باپ کے خوابوں کا اور ملک کی اُمیدوں کا ہوا ۔
گولیو ں کی تھر تھراہٹ نے گویا وقت کو روک لیا ہو ۔لیکن یہ تھما ہوا وقت ماں کے آنسووں کو نہ روک سکا اور شاید وقت خود بھی کسی کو نے میں پڑا سسک رہا ہے اور سو چنے پر مجبورہے کیوں یہ ہنستے مسکراتے چہرے جو کسی کی آنکھ کا نور تھے آج تا بوت میں بند پڑے ہیں ؟جو ہاتھ کل تک اس معصوم کو محبت سے تھام لیتے تھے آج اسی کے جنازے کو کیسے اُٹھائیں گے ؟
کہتے ہیں دُنیا میں سب سے زیادہ وزن باپ کے کاندھے پر بیٹے کا جنازہ ہوتا ہے اور پشاور میں یہ وزن والدین نے امڈتے ہوئے آنسووں اور کپکپا تے ہونٹوں سے کلمہ شہادت کی آواز بلند کرتے ہو ئے اُٹھایا تھا ۔
دہشت گرد چاہے ان فرشتوں کو خدا کا روپ نہ مانتے ہوں لیکن اس ماں کے لئے اس کا لا ڈلا فرشتوں سے بھی برتر تھا ۔سانحہ میں شہید ہونے والے ایک ہونہار بیٹے کی ماں سے جب انکے جزبات پوچھے گئے تو اس ماں کا کہنا تھا کہ :”میرا ایک ہی بیٹا تھا ۔
بہت ارمان سے میں نے اس کو بڑا کیا تھا ۔میرا بیٹا کہتا تھا :ماں میں میٹرک کے بعد ایچیسن کا لج میں داخلہ لوں گا ۔
میں نے کہا بیٹا آپ میرے سے بہت دور چلے جاؤ گے ۔بیٹا میں نہیں برداشت کر سکتی ۔مگر اس نے کہا تھا ماں میں آپ کے ساتھ ہی ہوں ۔لیکن میرا بیٹا ایسے دور چلاگیا مجھ سے جواب کبھی واپس مڑ کر نہیں آئے گا“۔
یہ وہ الفاظ ہیں جو ہر بنی نوع انسان کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ دہشت گرد خون نا حق کے دھبے خدا سے کیسے چھپائیں گے ؟معصوموں کی قبر پر چڑ ھ کر جنت میں کیسے جائیں گے ۔
؟
دہشت گردں نے ماں سے ایک بیٹا تو چھین لیا لیکن اس کی یادیں تو نہ چھین سکے ۔خون کسی کا بھی گرے بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں ۔ماں باپ کے دل کا قرار اور سکون ہوتے ہیں ۔
دہشت گردوں کی بر بر یت بتانے کے لیے آرمی پبلک سکول کے درودیوار چیخ چیخ کر پکار رہے ہیں ۔
ایسے میں جب اس درد ناک واقع کی بات ہو لیکن باہمت اور دلیرماں پر نسپل طاہرہ قاضی کا ذکر نہ کیا جائے تو زیادتی ہو گی جو دہشت گردوں کے آگے سینہ تانے ہوئے بچوں کوبچاتے ان پر فدا ہو گئیں ۔

پر نسپل طاہرہ قاضی کے خاوند نے انکی بہادری کی داستان سناتے ہوئے کہا کہ :دودفعہ جو آفیسر تھے انھوں نے کہا میڈیم آپ چلی جائیں ۔انھوں نے کہا کہ نہیں بیٹا جب آخری بچہ جائے گا تو میں چلی جاؤں گی“۔
سکول کے درودیوارنہ صرف اس رنج والم کے گو اہ ہیں بلکہ اساتذہ اور طالب علموں کی عظم دہمت کے بھی گواہ ہیں ۔ایک نئے حوصلے سے اپنے سفر پر پھر سے گامزن ہیں ۔دہشت گردکسی بھی صورت میں اس دلیر اور بہادر قوم کے حوصلے پست نہیں کر سکتے ۔آرمی پبلک سکول کے بچے ایک نئی صبح کا آغاز اپنے بڑوں کی دوعاؤں سے دوبارہ کر چکے ہیں ۔کہ وہ تعلیم کے یہ دیپ جلائے رکھیں گے اور اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے سینہ سپرر ہیں گے ۔

Browse More Mutafariq Mazameen