قو می اسمبلی نے پمز ہسپتال کوذولفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی سے علیحدہ کرنے کے بل 2017کی کثرت رائے سے منظور ی دیدی

بل کے تحت پمزہسپتال کو شہیدذولفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی سے انتظامی طور پر علیحدہ کیا جا رہے ہیں،پمز ہسپتال یونیورسٹی کا ٹیچنگ ہسپتال برقرار رہے گا اور یونیوسٹی کا نام تبدیل نہیں کیا جاے گا،بل سے یونیورسٹی پر کوئی اثر نہیں پڑیگا، شہید ذولفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کے ساتھ 5پرائیویٹ میڈیکل کالج یونیورسٹی کے ساتھ منسلک اور 13مختلف ادارے یونیورسٹی کے ساتھ الحاق شدہ ہیں،9ہزار800طالبعلم یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں،ہسپتال میں ڈیپوٹیشن پر کام کرنے والے ڈاکٹروں کو نکالا نہیں جائے گا اور ملازمین کا تحفظ کیا جائے گا، وزیر مملکت برائے کیڈ ڈاکٹر طار ق فضل چو ہدری کا اظہار خیال

پیر 6 نومبر 2017 22:07

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 06 نومبر2017ء) قو می اسمبلی نے پمز ہسپتال کو شہید ذولفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی سے انتظامی طور پر علیحدہ کرنے کے حوالے سے شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی اسلام آ باد ( ترمیمی ) بل 2017کی کثرت رائے سے منظور ی دے دی جبکہ وزیر مملکت برائے کیڈ ڈاکٹر طار ق فضل چو ہدری نے کہا ہے کہ بل کے تحت پمزہسپتال کو شہیدذولفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی سے انتظامی طور پر علیحدہ کیا جا رہے ہیں،پمز ہسپتال یونیورسٹی کا ٹیچنگ ہسپتال برقرار رہے گا اور یونیوسٹی کا نام تبدیل نہیں کیا جاے گا،بل سے یونیورسٹی پر کوئی اثر نہیں پڑیگا، شہید ذولفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کے ساتھ 5پرائیویٹ میڈیکل کالج یونیورسٹی کے ساتھ منسلک ہیں اور 13مختلف ادارے یونیورسٹی کے ساتھ الحاق شدہ ہیں،9ہزار800طالبعلم یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں،ہسپتال میں ڈیپوٹیشن پر کام کرنے والے ڈاکٹروں کو نکالا نہیں جائے گا اور ملازمین کا تحفظ کیا جائے گا۔

(جاری ہے)

پیر کو قو می اسمبلی کے اجلاس میں ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی اسلام آ باد ( ترمیمی ) بل 2017 ایوان میں پیش کیا۔ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے بل پر ارکان اسمبلی کے خیالات پر ردعمل دیتے ہوئے ہوے کہا کہ ارکان نے 80فیصد باتیں غلط کی ہیں، پاکستان میں کہیں بھی نہیں ہوتا کہ یونیورسٹی کا وائس چانسلر ہسپتال کا بھی انتظام چلائے، اب ہم ہسپتال کو انتظامی طور پر علیحدہ کر رہے ہیں، پرانی غلطی درست کر رہے ہیں، پمز ہسپتال یونیورسٹی کا ٹیچنگ ہسپتال رہے گا، بل کے تحت فیڈرل میڈیکل اور ڈینٹل کالج کو بھی یونیورسٹی کے ساتھ منسلک کر رہے ہیں، اس وقت یونیورسٹی کے ساتھ 5پرائیویٹ میڈیکل کالج یونیورسٹی کے ساتھ منسلک ہیں اور 13مختلف ادارے یونیورسٹی کے ساتھ الحاق شدہ ہیں، 18ادارے منسلک ہیں،90ہزار800طالبعلم یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں، بل کے تحت ہسپتال اور یونیورسٹی کی انتظامیہ کو علیحدہ کیا جائے گا، ذوالفقار علی بھٹو کا نام تبدیل نہیں کیا جائے گا اور اس کے اثاثے بھی موجود رہیں گے، انتظامیہ بہتر کرنے سے کارکردگی بہتر ہو گی، ملازمین کو نکالنے کے حوالے سے کنفیوژن ہے، ملازمین کا معاملہ علیحدہ ہے، فاٹا، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور پنجاب کے ملازمین کو واپس نہیں بھیجا جائے گا، سندھ ہائی کورٹ کا آرڈر آیا ہے کہ ڈیپوٹیشن پر جانے والے ملازمین واپس آئیں، اگر یہ حکم نافذ ہوا تو وفاق کے تمام اداروں میں نافذ ہو گا، ملازمین کا تحفظ کر رہے ہیں اور ان کو واپس نہیں بھیجا جائے گا۔

ڈاکٹر عذرافضل پیچوہو نے کہا کہ پمز ہسپتال کو یونیورسٹی کے ساتھ منسلک رکھا جائے، یونیورسٹی کو ٹیچنگ ہسپتال کی ضرورت ہوتی ہے۔طاہر اقبال نے کہا کہ میں نے بل 2014میں پیش کیا تھا لیکن موجودہ بل میں میری تجاویز شامل نہیں ہیں، ہسپتال کو انتظامی طور پر علیحدہ ہونا چاہیے، میرا بل غائب ہو گیا اور اس کی جگہ نیا بل لایا گیا ہے، اس پر شدید احتجاج ہے۔

نوید قمر نے کہا کہ آج بڑی زیادتی ہو رہی ہے کہ بل کو کمیٹی میں بھیجے بغیر پاس کرایا جا رہا ہے، پارلیمانی اصولوں کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، اس طرح سے قانون سازی نہیں ہوتی، بل کو کمیٹی مسترد کر چکی ہے، بل سے کچھ ملازمین کو فائدہ ہو گا، پارلیمنٹ کو بے وقعت کر دیا گیا ہے اب اس کا جنازہ ہی پڑھنا ہے اس کے سوا باقی کچھ نہیں رہ گیا ہے، شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹ یکو ختم کیا جا رہا ہے، بغیر ہسپتال کے میڈیکل یونیورسٹی کبھی نہیں بنتی، اداروں کو تباہ کر کے ملازمین کو فائدہ مت دیں، اس طرح سے یونیورسٹی بند ہو جائے گی، بل کی حمایت نہیں کرتے ۔

اسد عمر نے کہا کہ لگ رہا ہے کہ بل جلدی میں پاس کیا جا رہا ہے لیکن حقیقت میں تاخیر سے بل منظور کیا جا رہا ہے، بل کے تحت ہسپتال کو انتظامی طور پر علیحدہ کرنا درست ہے اس طرح یونیورسٹی بہتر انداز میں چلے گی، حکومت وعدہ کرے کہ یونیورسٹی کیلئے نئے ہسپتال کیلئے زمین فراہم کرے گی، بل پر تمام سٹیک ہولڈر راضی ہیں اس کو پاس کیا جائے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ کچھ لوگ پمز کے ہسپتال پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، خفیہ ایجنڈا یہ ہے کہ پمز کے اربوں روپے کے اثاثوں پر ناجائز کوشش کی جا رہی ہے، واحد ہسپتال جہاں پر لاکھوں مریضوں کے بڑے بڑے ٹیسٹ مفت ہوتے ہیں، پمز ہسپتال کو اس کا انتظامی کنٹرول دیا جائے۔

غازی گلاب جمال نے کہا کہ ہسپتال میں ڈیپوٹیشن پر آ کر مستقل ہونے والے ملازمین کو کہا جا رہا ہے کہ آپ واپس جائیں، ان ملاازمین کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ پمز ہسپتال کی حالت خراب ہورہی ہے،پمز کو درست کرنے کیلئے قانون سازی درست۔ غلام احمد بلور نے کہا کہ دیگر صوبوں سے آ کر ہسپتال میں کام کرنے والے ملازمین کا تحفظ دیا جائے۔ملک ابرار نے کہا کہ ڈیپوٹیشن پر آنے والے ملازمین کو مستقل کیا جائے۔

متعلقہ عنوان :

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں