درآمدی تیل پر ٹیکسوں کی بھرمار سے عام آدمی اور معیشت متاثر ہو رہے ہیں،میاں زاہد حسین

بدھ 9 ستمبر 2015 16:59

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 09 ستمبر۔2015ء)پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ درآمد ہونے والے تیل پر ٹیکسوں کی بھرمار سے جہاں عام آدمی اور معیشت متاثر ہو رہی ہے وہیں ایران و افغانستان سے ایندھن کی اسمگلنگ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔دونوں ممالک کی سرحدیں اسمگلروں عملاً سمگلروں کیلئے جنت کا درجہ رکھتی ہیں جہاں سے دیگر اشیاء کے علاوہ آنے والا تیل ملک میں استعمال ہونے والے کل ایندھن کا پندرہ سے بیس فیصد بتایا گیا ہے۔

اسی طرح ایل پی جی کی کل کھپت میں ایران سے اسمگل ہو کر آنے والی گیس کا حصہ تیس فیصد تک ہے جس نے مقامی پروڈیوسرز کو مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔تیل و گیس کی اسمگلنگ سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے اس دھندے میں بڑی مچھلیاں ملوث ہیں جنکا دہشت گردوں کا آلہ کار ہونا ناممکن نہیں۔

(جاری ہے)

میاں زاہد حسین نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ ایندھن پر ٹیکسوں میں اضافہ کا سلسلہ برآمدات بڑھانے والے اداروں کی ناکام پالیسیوں کا ثبوت ہے۔

اگر برآمدات اور دیگر اہم شعبے اپنا کام کر رہے ہوتے تو نہ تیل پر اتنے ٹیکس لگائے جاتے نہ بینک ٹرانزیکشن پر 0.6 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے کی نوبت آتی۔ دسمبر اور جنوری کے بعدایندھن پر تیسری بار ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے جو غریب عوام کو تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں کمی کے فوائد سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔اس کی وجہ اہم اداروں میں نا اہلی اور ٹیکس اصلاحات پر عمل نہ کرنا ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ فیصلہ کن مرحلے میں ہے جس پرامسال کم از کم دو کھرب روپے کی لاگت آ رہی ہے۔ اس جنگ سے ملک اور آنے والی نسلوں کا مستقبل وابستہ ہے جسے جیتنے اور کشکول کو توڑنے کیلئے اشرافیہ پر ٹیکس عائد کرنا ضروری ہے کیونکہ ہمیشہ قربانیاں دینے والے عوام مزید بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں۔

راولپنڈی میں شائع ہونے والی مزید خبریں