Lazawaal Dhnon Ke Khaaliq

Lazawaal Dhnon Ke Khaaliq

لازوال دھنوں کے خالق

”انشاء جی اُٹھواب کوچ کرو اس شہر میں جی کا لگانا کیا“ موسیقار خلیل احمد

ہفتہ 16 فروری 2019

 شاہد لطیف
3نومبر 1936کو آگرہ شہر میں پیدا ہونے والے خلیل احمد خان یوسف زئی کو زمانہ پاکستانی فلموں اور پاکستان ٹیلی ویژن کے نامور موسیقار خلیل احمد کے نام سے جانتا ہے ۔ان کے بعض تذکروں میں پیدائش کی تاریخ 3مارچ اور شہر گورکھ پور بھی ملتا ہے ۔ابتدا ہی سے گلوکاری سے رغبت رہی ۔طالب علمی کے دور میں گیت گانے کے مقابلوں میں حصہ لیا اور انعامات بھی حاصل کئے۔
انہی تذکروں میں آ گرہ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرکے 1952ء میں پاکستان ہجرت کرنے کا بھی ذکر ملتا ہے ۔یہ پاکستان بننے کے بعد ڈھاکہ ،مشرقی پاکستان چلے آئے ۔
یہیں وہ ریڈیو پاکستان ڈھاکہ کے شعبہ ،موسیقی سے منسلک ہوئے ۔روز مرہ بنگلہ زبان اور بنگالی لوگ اور روایتی موسیقی بھی سیکھی۔پھر وہ کراچی منتقل ہو گئے ۔

(جاری ہے)

یہاں ایک پٹرولیم کمپنی سے وابستگی اختیار کی پھر مالی حالات میں بہتری آنے پر ایک دفعہ پھر سے اپنے اندر کے خلیل احمد کے شوق کو پورا کرتے ہوئے ریڈیو پاکستان کراچی سے منسلک ہو گئے ۔

اُس وقت ریڈیو پاکستان کراچی کے شعبہ ،موسیقی میں پنڈت کے درجے کے موسیقار ،پنڈت غلام قادر جو مہدی حسن کے بڑے بھائی تھے اور مہدی ظہیر جیسے ماہرِ موسیقی موجود تھے ۔
یہ دونوں نامور موسیقار حمد ونعت ،منقبتوں ،گیتوں اورغزلوں کی دھنیں بناتے تھے ۔مہدی ظہیر نے اُس وقت کی کمر شل سروس کے مقبول ترین غنایہ اشتہارات بھی بنائے ۔مجھے قوی اُمید ہے کہ خلیل احمد نے ریڈیو پاکستان کراچی میں ان کو کام کرتے دیکھا ہو گا۔
اس بات کا بھی روشن امکان ہے کہ موسیقار بننے کی خواہش بھی یہیں پیدا ہوئی ہو گی ۔ایسا ہونا عین فطری اور منطقی بات ہے ۔میں موسیقار خلیل احمد سے متعلق مزید معلومات لینے اُستاد سلامت حسین ،بانسری کے اُستاد ہیں ان سے ملا‘ انہوں نے بتایا: ”خلیل احمد کی مہدی ظہیر سے بہت گاڑھی چھِنتی تھی ۔اِن میں موسیقی کار جحان تھا۔جب یہ گانا گاتا تو آواز میں بنگالی موسیقی کی مٹھاس محسوس ہوتی “۔

اکثر میں لال محمد ،مہدی ظہیر ،بلند اقبال اور خلیل ریڈیو کی کینٹین میں بیٹھا کرتے تھے ۔لال محمد تو اکثر دھنیں بنا یا کرتا تھا لیکن میں نے کبھی خلیل احمد کو دھنیں بناتے نہیں دیکھا“۔ پھر خلیل احمد لاہور چلے گئے ۔آیا اُن کو کسی فلم کی پیشکش ملی تھی ؟اس بات کا سلامت بھائی کو علم نہیں ۔البتہ وہ جب خود لاہور منتقل ہوئے تو اُس وقت خلیل احمد کی دو فلمیں بطور فلمی موسیقار آچکی تھیں ۔
فلم ”آنچل“(1962) اور فلم ”دامن “
(1963) ۔سلامت حسین نے لاہور میں اپنے پہلے فلمی گیت کے بارے میں بتلایا:”لاہور میں میرا پہلا فلمی گیت فلم ”خاموش رہو“(1964) کے لئے ریکارڈ ہوا۔اس کے موسیقار خلیل احمد تھے ۔گیت نگار حبیب جالب تھے ۔گلوکارہ مالا تھیں “:
میں نے تو پریت نبھائی
سانو ریارے نکلا تو ہر جائی
کہنے لگے:”ایک روز شاہ دین بلڈنگ میں واقع گر ا موفون کمپنی آف پاکستان میں کام کرکے فارغ ہوا تو ایک وجیہہ قد کا ٹھ اور گورے چٹے شخص نے میرا نام لے کر کہا:”سلامت کیا تو نے خلیل احمد کے پیسے دینے ہیں جو اُسی کا ہی کام کرتا ہے ؟“اور ساتھ ہی اپنا تعارف کروایا۔
یہ مشہور موسیقار خواجہ خور شید انور تھے ۔پھر اُس دن کے بعد وہ مجھ سے ہی فلمی گیتوں میں بانسری بجوایا کر تے تھے ۔عجب اتفاق ہے کہ لاہور میں میرا پہلا فلمی گیت موسیقار خلیل احمد کے لئے تھا اور آخری بھی اُن ہی کی فلم ”خاندان“ (1980) کے لئے تسلیم فاضلی کا لکھا یہ گیت تھا جسے نور جہاں نے گایا:
آئے ہوا بھی بیٹھو تو سہی جانے کی باتیں جانے دو جی بھر کے تمہیں میں دیکھ تو لوں اِن باہوں میں آنے دو ”میں نے لاہور میں اپنے قیام کے دوران فلموں کے ساتھ ساتھ خلیل احمد اور دوسرے موسیقاروں کے ساتھ پاکستان ٹیلی ویژن لاہور مرکز میں کوفی کام کیا“۔
فلموں کے کامیاب موسیقار مشہور ہونے کے بعد بھی خلیل احمد کے سلوک ،مزاج اور برتاؤ میں کوئی فرق نہیں آیا۔بلا سبب بار بار ریکارڈنگ کو نہیں کہتے تھے ۔میوزیشنوں کے ساتھ بہت میٹھے اندازسے پیش آتے تھے ۔
فلم ”لوری“(1966) کے گیتوں کی تخلیق کے بارے میں انہوں نے بتایا:”حمایت علی شاعر نے گیتوں کے بول پہلے لکھے اور دھنیں بعد میں بنیں ۔ایک گیت کی کئی کئی طرزیں بنتی تھیں ۔
ڈائریکٹر ایس سلیمان بھی موجود ہوتے ہیں ۔مہدی حسن کی غزل :’خدا وندا یہ کیسی آگ سی جلتی ہے سینے میں․․․․․․․‘کی بھی کئی ایک استھائیاں بنی تھیں “۔ فلمی گیتوں کی صدا بندی کے سلسلے میں انہوں نے بتایا کہ خلیل احمد تیز کام کرتے تھے ۔
عام طور پر وہ اچھی خاصی تعداد میں میوزشنوں کے ساتھ ریکارڈنگ کرواتے تھے ۔میوزیشن اور گلوکار سب ایک ساتھ ریہر سل اور ریکارڈنگ کرتے تھے ۔
اُس زمانے میں ٹریک ریکارڈنگ کا چلن نہیں تھا۔پاکستان ٹیلی ویژن لاہور میں خلیل احمد کے کام کے بارے میں اُستاد سلامت حسین کا کہنا ہے :”خلیل احمد نے فلم کے ساتھ ساتھ پھر ٹیلی ویژن کا بھی کام کرنا شروع کر دیا۔میں نے بھی ایک سال خلیل اور دوسرے موسیقاروں کے ساتھ لاہور ٹی وی میں کام کیا“۔
 موسیقار خلیل احمد خوش قسمت تھے کہ اپنی پہلی ہی فلم ”آنچل “(1962) میں سال کے بہترین موسیقار (اُردو فلم )کا نگار ایوارڈ حاصل ہوا ۔
یہ احمد رشدی کی آواز میں حمایت کملی شاعر کے گیت ’کسی چمن میں رہو تم بہار بن کے رہو ․․․․․․․‘ پر دیا گیا۔ پھر اگلے سال بھی قسمت کی دیوی اِن پر مہربان رہی ۔فلم ”دامن “(1963) میں بھی انہیں سال کے بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ حاصل ہوا۔ یہ بھی حمایت کملی شاعر کے گیت ‘نہ چھڑا سکو کے دامن نہ نظر بچا سکو گے ․․․․․․․‘
پر دیا گیا جس کو نور جہاں نے ریکارڈ کر وایا۔
سال 1965بھی خلیل احمد کے لئے اچھا ثابت ہوا۔اس سال کے بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ بھی انہوں نے حاصل کیا۔یہ علی سفیان آفاقی اور حسن طارق کی مشترکہ فلمسازی میں بننے والی فلم ”کنیز “کے گیت ’جب رات ڈھلی تم یاد آئے ․․․․․․․‘اس گیت کے نغمی نگار بھی حمایت کملی شاعر ہی تھے ۔علی سفیان آفاقی سے 2010میں ہونے والی ایک نشست میں موسیقار خلیل احمد کا ذکر چلا۔
اس پر انہوں نے کئی ایک دلچسپ باتیں کیں ۔
مثلاً:”میری خلیل احمد سے اُس وقت سے ملاقات تھی جب اُن کو صرف گلوکاری کا ہی شوق تھا ،میٹھی آواز تھی ۔اس کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ موسیقار بھی ہیں ۔فخر سے اپنے اور نور جہاں کے ایک دو گانے کا ذکر کرتے رہتے تھے جو انہوں نے فلم ”گلنار“(1953) کے لئے ریکارڈ کروایا تھا “۔ وہ گیت قتیل شفائی نے لکھا جس کی موسیقی ماسٹر غلام حیدر نے ترتیب دی ۔
یہ ماسٹر صاحب کی پاکستان میں بحیثیت موسیقار آخری فلم ہے ۔
اس کے بعد وہ بھارت منتقل ہو گئے ۔بقول آفاقی صاحب یہ دو گا نا خاصا مقبول تھا لیکن خلیل احمد نے پھر اس میدان میں طبع آزمائی نہیں کی ۔البتہ موسیقار بن کر نام کمایا۔آفاقی صاحب نے ایک اور بات بتائی :”خلیل احمد کے ہاں میکلوڈروڈ پر واقع ایک مکان میں جانے کا اتفاق ہوا ۔اس مکان میں فلمی دنیا کے لوگوں کی آمد درفت تھے ۔
اس مکان کی بہت تاریخی اہمیت تھی ۔اوپر جانے والے زینے کے ساتھ ایک چھوٹا سا ’تھڑا‘ تھا۔اسی جگہ پر ایک زمانے میں محمد رفیع بیٹھ کر احباب کو گانا سنایا کرتے تھے ۔گلوکاری کا شوق تھا لیکن گلوکار بننے کا کوئی امکان نہیں تھا“۔
یہ تو موسیقار فیروز نظامی تھے جنہوں نے ان کو بمبئی بلوایا اور نور جہاں اور سید شوکت حسین رضوی کو کافی بحث مباحثہ کے بعد اس بات پر قائل کیا کہ ایک دفعہ محمد رفیع کو سُن تو لیں ۔
خبر دل چسپ بات یہ کہ آفاقی صاحب نے بتایا:”ہم لوگ اکثر خلیل کو مذاقاً کہا کرتے کہ تم بھی نیچے اسی جگہ بیٹھ کر لوگوں کو گانا سنا ؤ تا کہ محمد رفیع کی طرح گلو کار بن جاؤ ! لیکن خلیل بڑے نخرے والے تھے وہ دوستوں کے علاوہ کسی کی فرمائش پر گانا نہیں سناتے تھے “۔ موسیقار خلیل احمد کی پاکستانی فلمی دنیا میں آمد فلم ”آنچل “(1962) سے ہوئی ۔حمایت کملی شاعر کا گیت ’کسی چمن میں رہو تم بہار بن کے رہو ،خدا کرے کسی دل کا قرار بن کے رہو ‘سُپر ہٹ گیت ثابت ہوا ۔

گو کہ احمد رشدی فلمی گلوکار کے طور جانے پہچانے تھے لیکن یہ گیت خلیل احمد کے ساتھ احمد رشدی کو بھی مقبول کر گیا۔خلیل احمد نے جس طرح احمد رشدی کی آواز کو استعمال کرایا وہ نہایت قابلِ تعریف بات ہے ۔مذکورہ فلم کے تقریباً تمام گیت ہی ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتے تھے مثلاً :ناہید اور نجمہ نیازی کی آواز میں جناب ناظم پانی پتی کا گیت چھم چھم چھم ،ملیں ہیں صنم ،لُٹ گئے ہم اللہ قسم ‘،’ ہم نے تو محبت میں تم کو بھی خدا جانا․․․․․․‘غزل حمایت علی شاعر ،آواز نا ہید نیازی ،’کھٹی کڑی میں مکھی پڑی ہائے میری امّاں ․․․․․‘مزاحیہ گیت حمایت علی شاعر ،آواز یں احمد رشدی اور آئرین پروین ،’تجھ کو معلوم نہیں ،تجھ کو بھلا کیا معلوم‘نظم حمایت علی شاعر ،یہ نظم ناہید نیازی اور سلیم رضا کی آوازوں میں الگ الگ ریکارڈ ہوئی ۔
کمال ہے کہ دونوں گیت ایک جیسے ہی مقبول ہوئے ۔
’بھولی دلہنیا کا جیا لہرائے ․․․․․․․‘گیت حمایت علی شاعر، آوازیں ‘نسیمہ شاہین اور آئرین پروین ۔اس کے بعد فلم ”دامن “(1963)کی موسیقی بھی خاص وعام نے بہت پسند کی ۔مذکورہ فلم میں حمایت علی شاعر کے لکھے کچھ گیت آج تک مقبول ہیں جیسے:’ نہ چھڑا سکو گے دامن نہ نظر بچا سکو گے ․․․․․․․‘یہ نور جہاں کی آواز میں خوشی اور غم کا الگ الگ ریکارڈ کیا گیا۔
‘واللہ سر سے پاؤں تلک موجِ نور ہو ․․․․․․․․‘ آواز احمد رشدی ۔پھر فلم ”خاموش رہو “(1964) نمائش کے لئے پیش ہوئی ۔
اس کا ایک گیت بے حد مقبول ہو ا :’میں نے تو پر یت نبھائی ،سانو ریا رے نکلا تو ہر جائی‘ ۔علی سفیان آفاقی اور حسن طارق کی فلمسازی میں فلم ”کنیز “(1965) کے گیتوں نے بھی قبولِ عام کا درجہ حاصل کیا:
حمایت علی شاعر کا بچوں کے لئے لکھا گیت ‘ایک تارا گگو تار ادو تارا گگو تارا․․․․․․․‘ آوازیں مالا اور ساتھی ۔
آغاحشر کا شمیری کی غزل :’غیر کی باتوں پہ آخر اعتبار آہی گیا․․․․․․․‘آواز نسیم بیگم،’پیار میں ہم اے جانِ تمنا ،جان سے جائیں تو مانو گے ․․․․․‘گیت حمایت علی شاعر ،آواز احمد رشدی ،’جب رات ڈھلی تم یاد آئے ․․․․․‘ گیت حمایت علی شاعر ،دو گانا آوازیں مالا اور احمد رشدی ۔
حمایت کملی شاعر اور موسیقار خلیل احمد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ 1965کی پاک بھارت جنگ کے دوران ریلیز ہونے والی فلم ”مجاہد “کے عنوانی جنگی ترانے کو اس جنگ کے دوران جوبے پناہ شہرت حاصل ہوئی وہ قسمت والوں ہی کو ملتی ہے ۔
یہ گیت ہے :’ ساتھیو مجاہدو جاگ اُٹھا ہے سارا وطن ساتھیو ساتھیو مجاہدو ‘،آوازیں مسعود رانا ،شوکت علی اور ساتھی ۔فلمساز حمایت علی شاعر کی سُپر ہٹ گولڈن جو بلی فلم ”لوری “( 1966) حمایت صاحب اور موسیقار خلیل احمد دونوں کے لئے ایک سنگِ میل ثابت ہوئی ۔فلم کے بیشتر گیت عوام میں مقبول ہوئے : ’اے خدا تو ہی بتا ،ظلم کیا میں نے کیا ․․․․․․‘آواز آئرین پروین ،’چندا کے ہنڈو لے میں ،اُڑن کھٹولے میں ․․․․․․‘یہ گیت الگ الگ نور جہاں اور ثریا حیدر آبادی کی آوازوں میں صدا بند کیا گیا۔

’ہوانے چپکے سے کہہ دیا کیا․․․․․․․․․‘آواز مالا،’خدا وندایہ کیسی آگ سی جلتی ہے سینے میں ،تمنا جو نہ پوری ہو وہ کیوں پلتی ہے سینے میں ‘آواز مہدی حسن ،’میں خوشی سے کیوں نہ گاؤں میرا دل بھی گار ہا ہے ۔․․․․․․‘ آواز مجیب عالم ۔بچوں کے لئے گیت ’تالی بجے بھئی تالی بجے․․․․․․․‘آواز آئرین پروین اور باتش ۔
1966 ہی میں پیش ہونے والی فلم ”تصویر “ کے بھی کچھ گیت یادگار ہیں جیسے :’ اے جان وفا دل میں تیری یاد رہے گی ․․․․․․․․‘حمایت علی شاعر کا یہ گیت دو دفعہ ریکارڈ کیا گیا۔

ایک مہدی حسن اور دوسرے مہدی حسن کے ساتھ مالا کا دو گانا ‘،زندگی کی ہر مسرت آپ کے پہلو میں ہے ․․․․․․․‘گیت نگار حمایت علی شاعر ،آواز نور جہاں اور مولانا الطاف حسین حالی کی نعت ’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا․․․․․․․․‘ آواز مسعود رانا۔سُن 1966 موسیقار خلیل احمد کے لئے اچھا ثابت ہو ا اور پاکستانیوں کو بھی اچھے گیت سننے اور دیکھنے کو ملے ۔

فلم ”میرے محبوب “ کی ایک غزل سُپر ہٹ ہوئی :’ ہر قدم پر نِت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ ،دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ ‘حمایت علی شاعرکی غزل کو موسیقار خلیل احمد نے نور جہاں سے نہایت مہارت کے ساتھ الفاظ اور معنی کو سامنے رکھتے ہوئے ریکارڈ کر وایا۔آج بھی اگر اصل گیت سُنا جائے تو ایک عجیب کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔فلم ”ولی عہد “(1968) کا ایک گیت خاصا مقبول ہوا ۔

اسے حمایت علی شاعر نے لکھا اور آواز رونا لیلیٰ کی تھی :”تیری خاطر زمانے بھر کو ہم ٹھکرا کے آئے ہیں ․․․․․․․․‘فلم ” داستان “(1969) نذیر علی المعروف رتن کمار کی بحیثیت ہیرو آخری فلم تھی۔ تمام گیت فیاض ہاشمی نے لکھے :”قصہء غم میں تیرا نام نہ آنے دیں گے ․․․․․․․․‘آواز مہدی حسن ۔یہ گیت بے حد مقبول ہوا اور مہدی حسن نجی محفلوں میں یہ سنایا کرتے تھے ۔

فلم ”آج اور کل “( 1976) کا (غالباً ) تسلیم فاضلی ایک گیت بہت پسند کیا گیا:’پیار کا وعدہ ایسے نبھائیں ․․․․․․․․‘آوازیں مہدی حسن اور مہناز ۔اسی سال نمائش کے لئے پیش ہونے والی فلم ”طلاق “ کے کچھ گیت ریڈیو پر بہت سنوائے گئے :’تیرے قدموں میں بکھر جانے کوجی چاہتا ہے ․․․․․․․․‘گیت نگار تسلیم فاضلی ،آواز نور جہاں ،’میری سالگرہ ہے ،بولو نا بولونا بولو نا ․․․․․․․‘گیت تسلیم فاضلی اور آواز بے بی مسرت ۔
موسیقار خلیل احمد نے 40فلموں میں تقریباً 122گیت تخلیق کیے ۔
ان میں 2پنجابی فلمیں بھی شامل ہیں :”نا کہ بندی “اور ”چوراں نوں مور “۔ انہوں نے سب ہی گلو کاروں کی آوازوں کو استعمال کیا جیسے :نور جہاں ، مہدی حسن ،مجیب عالم ،احمد رشدی ،نسیم بیگم ،مالا ،مسعود رانا ،رونا لیلیٰ ناہید اور نجمہ نیازی، سلیم رضا نسیمہ شاہین ،عشرت جہاں ،آئرین پروین ،مُنیر حسین ،مہناز ،اخلاق احمد،نا ہید اختر وغیرہ ۔
خلیل صاب سے میری دو مرتبہ پاکستان ٹیلی ویژن لاہور مرکزی میں ساتھی پروڈیو سر ،آغا ذوالفقار ،حفیظ ظاہر کے کمرے میں ملاقاتیں ہوئیں۔ خلیل صاحب بہت کم گولیکن ہنس مکھ اور خوش اخلاق تھے ۔
بات کرتے ہوئے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ہوتی ۔وہیں گیت نگار ریاض الرحمن ساغر آگئے جن کے ساتھ بیٹھ کر خلیل صاحب نے میرے سامنے دھن بنائی ۔افسوس کہ اُس گیت کے بول یاد نہیں ۔
فلموں کے ساتھ ساتھ انہوں نے ٹیلی ویژن کے لئے بھی کئی یاد گار اور سدا بہار گیت بنائے جیسے :تسلیم فاضلی کا گیت ’میں نے پیروں میں پائل تو باندھی نہیں ،کیوں صدا آرہی ہے چھنن چھنن ․․․․․․․‘اسے فرید ہ خانم نے ریکارڈ کروایا۔یہ فریدہ خانم کے امر گیتوں میں شامل ہے ۔
اسی طرح میرے موسیقی کے استاد ،عدنان الحق حقی کے والد جناب شان الحق حقی کی غزل ‘تم سے اُلفت کے تقاضے نہ نبا ہے جاتے ،ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے ،کی دھن ہے ۔
اسے ناہید اختر نے ریکارڈ کروایا ۔پھر اپنِ انشاء کا مشہور زمانہ گیت جسے اُستاد امانت علی خان نے صد ا بندکروایا :’انشاء جی اُٹھواب کوچ کرو ،اس شہر میں جی کا لگانا کیا․․․․․․․․‘، یہ 1978میں پی ٹی وی سے نشر ہوا ۔مسرو ر انور کا لکھا نغمہ’وطن کی مٹی گو اہ رہنا․․․․․․․․‘آواز نیرہ نور ۔
مسعود رانا کی آواز میں ملی نغمہ ‘ملت کا پاسبان ہے محمد علی جناح ‘۔
وغیرہ بھی خلیل صاحب کی اعلیٰ تخلیق کے نمونے ہیں ۔اس کے علاوہ ایک عرصہ موسیقار خلیل احمد نے پاکستان ٹیلی ویژن لاہور سے بچوں کا پروگرام ’ہم کلیاں ہم تارے ‘اور ’آنگن آنگن تارے ‘کی میزبانی کی۔ بہر حال موسیقار خلیل احمد کے فلم اور ٹیلی ویژن کے گیت لازوال ہیں ۔خلیل احمد کو ہم میں نہیں لیکن ان کے بنائے ہوئے ملی اور جنگی نغموں
 سے اُن کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Browse More Articles of Music