Safeer Ullah Siddiqui Se Lehri Tak

Safeer Ullah Siddiqui Se Lehri Tak

سفیراللہ صدیقی سے لہری تک

نامور مزاحیہ اداکار لہری کو مداحوں سے بچھڑے 10 برس بیت گئے لیکن ان کے برجستہ جملے اور بے ساختہ مکالمے فلم بینوں کو آج بھی یاد ہیں

منگل 13 ستمبر 2022

وقار اشرف
مزاحیہ اداکاری کے حوالے سے بھی پاکستانی فلم انڈسٹری بہت زرخیز رہی ہے اور ایک سے بڑھ کر ایک مزاحیہ فنکار میسر رہا ہے۔منور ظریف سے لے کر لہری تک اور رفیع خاور ننھا سے لے کر عمر شریف تک تقریباً ہر دور میں اچھے مزاحیہ فنکار انڈسٹری کو میسر رہے ہیں اور ان کے بغیر ہماری فلمی تاریخ نامکمل رہے گی۔
نامور مزاحیہ اداکار لہری کو مداحوں سے بچھڑے 10 برس بیت گئے لیکن ان کے برجستہ جملے اور بے ساختہ مکالمے فلم بینوں کو آج بھی یاد ہیں۔لہری ایسے لیجنڈ کامیڈی اداکار تھے جن کے ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لاکھوں مداح تھے اور آج بھی ہیں اور ان کا فن اسی طرح مداحوں کے دلوں میں زندہ رہے گا۔

(جاری ہے)

یہ نامور کامیڈین طویل علالت کے بعد 83 سال کی عمر میں 13 ستمبر 2012ء کو انتقال کر گئے تھے۔


لہری کا پورا نام سفیراللہ صدیقی تھا،وہ پاکستان کے پہلے کامیڈین تھے جنہوں نے 11 مرتبہ نگار ایوارڈ حاصل کیا تھا،ان کا آخری ایوارڈ بھی نگار ایوارڈ تھا جو 1993ء میں انہیں دیا گیا۔اس کے علاوہ کئی مقامی اداروں کی جانب سے بھی لاتعداد ایوارڈ انہیں مل چکے تھے۔وہ ایک صاحب طرز اور دور اندیش فنکار تھے،برجستگی کے ساتھ مکالموں کی ادائیگی میں انہیں ملکہ حاصل تھا،کئی فلموں میں منفی کردار بھی کئے تھے۔

لہری قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آئے تو گزر بسر کے لئے کئی کام کئے۔کراچی کے علاقے صدر میں ہوزری کی اشیاء بھی بیچیں۔1955ء میں لچھو سیٹھ شیخ لطیف فلم ایکسچینج والے نے ایک فلم ”انوکھی“ بنانے کا اعلان کیا تو اس میں ہیروئن کا کردار ادا کرنے کے لئے ان کی بھانجی شیلا رمانی بھارت سے پاکستان آئیں،سفیراللہ کو بھی اس فلم میں اپنی صلاحیتیں پیش کرنے کا موقع ملا اور ان کی یہ پہلی فلم 1956ء کے اوائل میں نمائش کیلئے پیش کی گئی جس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے وہ شہرت اور مقبولیت کے اس مقام پر پہنچ گئے جس کا انہوں نے چند سال قبل تصور بھی نہیں کیا تھا۔
منور ظریف،نذر اور آصف جاہ کے بعد لہری کے لئے فلم انڈسٹری میں اپنے لئے جگہ بنانا کسی معرکے سے کم نہ تھا۔
38 سالہ فلمی کیریئر کے دوران لہری نے 300 سے زائد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں انسان بدلتا ہے،رات کے راہی،فیصلہ،جوکر،کون کسی کا،آگ،توبہ،انجمن،پھول میرے گلشن کا،دل میرا دھڑکن تیری،افشاں،رم جھم،چھوٹی بہن،بالم،جلتے سورج کے نیچے،انجان،پرنس،زبیدہ،زنجیر،نیا انداز،بہو رانی،موم کی گڑیا،جلے نہ کیوں پروانہ،رسوائی،دل گیا انسان،اپنا پرایا،میرے ہمسفر،صائقہ،نیا انداز،رات کے راہی،دوسری ماں،اِک نگینہ،اِک مسافر اِک حسینہ،چھوٹی امی،تم ملے پیار ملا،بہادر،نوکری،بہاریں پھر بھی آئیں گی،ضمیر،دل لگی،آگ کا دریا،دیور بھابھی،داغ،نئی لیلیٰ نیا مجنوں،بندھن،تہذیب،دلہن رانی،نیا انداز،دو باغی،سوسائٹی،انہونی،ننھا فرشتہ،ایثار،دامن،آنچل،پیغام اور علی سفیان آفاقی کی کنیز جیسی فلمیں شامل ہیں۔

لہری کو اگرچہ پنجابی فلموں کی بھی آفرز تھیں لیکن انہوں نے ان میں کام نہیں کیا۔اس حوالے سے وہ کہا کرتے تھے کہ وہ پنجابی فلموں کے مزاج کے مطابق کام نہیں کر سکتے۔لہری تھیٹر سے بھی وابستہ رہے،معین اختر مرحوم نے کراچی اور دیگر شہروں میں اسٹیج ڈراموں میں لہری کی صلاحیتوں کو متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔وہ ٹی وی ڈراموں اور شوز میں بھی پرفارم کرتے رہے۔لہری پر سب سے پہلے 1985ء میں بیرون ملک فلم کی شوٹنگ کے دوران فالج کا اٹیک ہوا تھا،پھر قوت بینائی میں کمی آنے لگی اس طرح وہ فلمی دنیا سے آہستہ آہستہ کنارہ کش ہوتے چلے گئے۔ان کی زندگی کے آخری ایام میں معین اختر نے ان کی بڑی دیکھ بھال کی تھی۔

Browse More Articles of Lollywood