Agha Talish

Agha Talish

آغا طالش

ایسے اداکار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں

پیر 19 فروری 2024

وقار اشرف
پاکستانی فلمی صنعت کے معروف کریکٹر ایکٹر آغا طالش کو مداحوں سے بچھڑے 26 برس بیت گئے لیکن ان کے ادا کئے گئے کردار آج بھی مداحوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔فلم انڈسٹری میں اکیڈمی کا درجہ رکھنے والے آغا طالش کا پورا نام علی عباس قزلباش تھا اور وہ قیام پاکستان سے قبل ہی فن اداکاری سے منسلک تھے۔
ان کی لازوال اداکاری کی وجہ سے فلم و ادب کا ایک بہت بڑا حلقہ ان کا پرستار رہا اور ایسے اداکار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں جن کی کمی کو ہمیشہ محسوس کیا جائے گا۔
10 نومبر 1923ء کو لدھیانہ میں پیدا ہونے والے آغا طالش کے والد پولیس میں ملازم تھے اور انہیں والد کی ملازمت کے دوران مختلف شہروں میں جانے کے موقع ملے جن میں ایک شہر مَتھر ابھی ہے وہاں آغا طالش کے سکول میں اسٹیج ڈرامے باقاعدگی سے ہوتے تھے جس کی وجہ سے انہیں اسٹیج ڈراموں میں اداکاری کا موقع ملتا رہا اور 20 سال کی عمر کو پہنچنے پر انہوں نے باقاعدہ اداکار بننے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

(جاری ہے)


والد کے انتقال کے بعد انہوں نے اپنے خواب کی تکمیل کے لئے ممبئی کا رُخ کیا جہاں فلمی اسٹوڈیوز کے چکر لگائے مگر کسی نے انہیں اندر داخل نہ ہونے دیا۔انہوں نے ہمت نہ ہاری اور نیشنل سنے اسٹوڈیو میں بطور آرٹسٹ ملازمت کر لی وہیں پر معروف شاعر ساحر لدھیانوی نے انہیں ادیب و افسانہ نگار کرشن چندر سے متعارف کرایا اور کرشن چندر آغا طالش سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنی لکھی ہوئی فلم ”سرائے سے باہر“ میں انہیں کاسٹ کر لیا جو ان کی پہلی فلم ثابت ہوئی۔

تقسیم ہند کے بعد آغا طالش پاکستان آ گئے،پہلے پشاور اور پھر لاہور میں سکونت اختیار کی۔وہ پشاور ریڈیو سے بھی منسلک رہے۔لاہور میں ان کی پہلی پنجابی فلم ”نتھ“ تھی جس کے بعد فلم ”جبرو“ میں ولن کا کردار ادا کیا جو کامیاب رہا لیکن انہیں اصل شہرت فلم ”7 لاکھ“ سے ملی۔1962ء میں بننے والی فلم ”شہید“ نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا،یہ فلم آغا طالش اور مسرت نذیر کی بے مثال اداکاری کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
رائٹر اور ہدایت کار ریاض شاہد نے ان کی زندگی میں اہم کردار ادا کیا۔1962ء میں فلم ”شہید“ نے آغا طالش کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔الطاف حسین کی فلم ”دھی رانی“ میں بھی انہوں نے لازوال اداکاری کی تھی۔
آغا طالش نے لگ بھگ 40 برس سے زائد عرصے تک فلمی دنیا میں اپنی خدمات پیش کیں اور مجموعی طور پر 400 سے زائد فلموں میں کام کیا۔ان کی یادگار فلموں میں فرنگی،شہید،نیند،زرقا،عجب خاں،لاکھوں میں ایک،بہاریں پھر بھی آئیں گی،کٹہرا،تیرے عشق نچایا،امراؤ جان ادا،دھی رانی،جبرو،نتھ،جھیل کنارے،دربار حبیب،سات لاکھ،باغی اور سہیلی شامل ہیں۔
انہوں نے سات فلموں میں نگار ایوارڈ بھی حاصل کیے تھے۔وہ 19 فروری 1998ء کو انتقال کر گئے تھے مگر ان کی اداکاری مداحوں کو آج بھی یاد ہے۔

Browse More Articles of Lollywood