'کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 جولائی2021ء) شوری ہمدرد
کراچی کا آن لائن اجلاس گزشتہ روز
بجٹ ،: امکانات اور توقعات کے موضوع پر اسپیکر شوری ہمدرد
کراچی جسٹس (ر)حاذق الخیری کی سربراہی میں منعقد ہوا ۔ جس میں معروف ماہر معاشیات
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی بہ طور مہمان مقرر مدعو کیے گئے۔ شوری ہمدرد کی صدر محترمہ سعدیہ راشد نے ہمدرد کارپوریٹ ہیڈ آفس سے بذریعہ زوم اجلاس میں شرکت فرمائی۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ
بجٹ ۔ خسارے کا
بجٹ ہے۔ اس کو پیش کرنے سے قبل صوبوں سے کہا گیا تھا کہ جو فنڈز انہیں این
ایف سی ایوارڈ کی مد میں ملے ہیں انہیں پوری طرح مختص نہ کریں بلکہ ارب روپے کی بچت کریں تاکہ وفاقی حکومت کا
بجٹ خسارہ کم ہو۔ چاروں صوبوں نے اس ہدایت پر عمل نہیں کیا جس کے نتیجے میں ارب روپے کا اضافی خسارہ اس
بجٹ میں پہلے ہی شامل ہوگیا۔
(جاری ہے)
اب نتیجہ یہ ہے کہ ارب روپے میں سے ارب روپے این
ایف سی کی مد میں صوبوں کو ادا کردئیے جائیں گے اور باقی ارب روپے میں سے ارب روپے قرضوں پر سود کی مد میں ادا ہونگے اور باقی ارب روپے دفاع میں خرچ ہونگے۔ اب حکومت کے پاس دیگر محکمے چلانے کے لیے مزید قرض کے علاوہ اور کوئی صورت حال نہیں بچی ۔ حکومت نے
مہنگائی کی روک تھام کے لیے بھی کوئی مربوط اقدامات نہیں لیے ہیں۔
پیٹرولیم لیوی کا ہدف ارب روپے رکھا گیا ہے ، یعنی موجودہ مالی سال کے دوران حکومت اس رقم کو حاصل کرنے کے لیے پیٹرولیم مصنوعات پر کم از کم روپے بڑھائے گی جس سے
مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ ہوجائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ ویں ترمیم کے بعد صوبائی
بجٹ کی اہمیت بڑھ گئی ہے کیونکہ
تعلیم ، صحت کے شعبے اور پراپرٹی و زرعی ٹیکس ان کے پاس ہے۔ ملک میں ٹیکس کی چوری مسلسل جاری ہے، جس کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں لیے گئے ہیں۔
کی
ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں ٹیکس نادہندگان کو بہت زیادہ چھوٹ دی گئی تھی لیکن پھر بھی بہت سے لوگوں نے فائدہ نہیں اٹھایا ۔ اب ایسے لوگوں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ روزگار بڑھانے کے لیے احساس پروگرام کے تحت ہنر مند افراد کو ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے تک کے قرضے دینے چائیں۔
پاکستان کی مائیکرو فنانس کو ذکو ، قرضِ حسنہ اور احساس پروگرام سے جوڑ دیا جائے تاکہ روزگار پیدا ہو۔
ظفر اقبال صاحب نے کہا کہ یہ ایک روایتی
بجٹ ہے اس میں ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لیے دیگر شعبہ جات پر توجہ نہیں دی گئی۔ مضبوط ادارے ہر
بجٹ میں اپنے لیے فنڈز مختص کرالیتے ہیں جبکہ عام ٹیکس دہندہ بنیادی ضرورتوں جیسے
بجلی، گیس، پانی، طبی سہولیات، معیاری
تعلیم، قانون شکنی اور عدل و انصاف کے لیے پریشان رہتا ہے۔
بجٹ میں اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے اچھی تجاویز دی گئی ہیں۔
ملک میں مینو فیکچرنگ کو سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ برآمدات میں اضافہ ہو۔انوار صدیقی صاحب نے کہا کہ
بجٹ متوازن ہے۔ ایس ایم ایز کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ احساس پروگرام کو مزید وسیع کرکے معاشرے میں مثبت اثرات مرتب کیے جاسکتے ہیں۔ جو لوگ کوویڈ سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ ان کے لیے احساس پروگرام بہت مفید ہے۔ ملک میں سیاحت کو فروغ دینے سے اچھا زر مبادلہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ
کرپشن ہے۔کرنل(ر)مختار بٹ نے کہ خسارے کا
بجٹ عوام دوست نہیں ہوتا۔ ہر سال عوام پر ٹیکس میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ اس طرح کے
بجٹ میں عوام کے لیے کوئی ریلیف نہیں ہوتی۔ حکومت کو ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لیے سخت اقدامات کرنا ہونگے ، بجائے ٹیکس دہندگان پر ہر سال مزید بوجھ ڈال دیا جائے۔کموڈور (ر)سدید انور ملک نے کہا کہ غیر ملکی سیاحت کو فروغ دینے سے پہلے ملکی سیاحت کو فروغ دینا ہوگا اور سیاحتی سہولیات میں مزید بہتری پیدا کرنا ہوگی۔
ملک کے جوڈیشل سسٹم کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ایک بار جوڈیشل سسٹم ٹھیک ہوگیا، باقی معاملات مرحلہ وار درست ہونے لگیں گے۔مسرت اکرم صاحبہ نے کہا کہ حکومتی مجبوریاں اپنی جگہ لیکن
بجٹ کو ہمیشہ حصول یافتگان کے باہمی مشورے سے بنانا چاہیے، ناکہ چند بڑے شعبوں سے جڑے کاروباری لوگوں اور ماہرین کی بات مان لی جائے۔ غربت کے خاتمے کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کرنے ہونگے۔
کوویڈ کی وجہ سے بھی ملک کے اقتصادی حالات خراب ہوئے ہیں۔ابن الحسن رضوی صاحب نے کہا کہ یہ
بجٹ مشکل حالات میں سامنے آیا ہے۔ ہمارے ملک میں کوئی ایسی چیز نہیں بنتی جس کی
دنیا کو اشد ضرورت ہو لہذا ہماری برآمدات نہیں بڑھ رہی ہیں۔ ماسوائے ٹیکسٹائل کہ کوئی اور صنعت نہیں جو برآمدات میں خاطر خوا ہ کارکردگی دکھا رہی ہو۔ یہ لمحہ فکریہ ہے ، اس لیے
تعلیم پر ترجیحی بنیادوں پر توجہ دینا ہوگی اورملک کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنا ہوگا۔
پروفیسر
ڈاکٹر شاہین حبیب صاحبہ نے کہا کہ ملک اقتصادی بدحالی کا شکار ہورہا ہے۔ حکومت سے توقع تھی کہ وہ برآمدات کو بڑھانے کے لیے ٹھوس اقدامات لے گی تاہم ایسا نہیں ہوا۔ آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ انہیں انتشار سے بچانے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔انور عزیز جکارتہ والا صاحب نے کہا کہ شہروں پر آبادی کا بے تہاشا بوجھ بڑھ رہا ہے۔
خصوصا
کراچی اس بحران کا سب سے زیادہ شکار ہے۔ آبادی کا بوجھ ایسے سماجی اور انفراسٹرکچر کے ایسے مسائل پیدا کردیتا ہے جنہیں باآسانی ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔
سندھ اور
بلوچستان میں نئے شہر بسانے کی بہت گنجائش ہے۔ نئے شہروں سے ان صوبوں کی آمدن میں بھی اضافہ ہوگا اوربڑے شہروں کے سماجی مسائل کم بھی ہوجائیں گے۔محترمہ سعدیہ راشد نے
شہید حکیم محمد سعید کے قریبی رفقا محترمہ للی این ڈی سلوا (مدین الحکمہ کی نائب صدر ) اور محمد اسلم خان (پروگرام منیجر شوری ہمدرد
پشاور ) کے انتقال پر دلی دکھ و رنج کا اظہار کیا۔
اس موقع پر مرحومین کے لیے دعائے مغفرت اور لواحقین کے لیے صدمے کے برداشت کرنے کے لیے دعا کی گئی۔ اجلاس کے اختتام پر جسٹس (ر)حاذق الخیری صاحب نے مہمان مقرر
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی اور تمام اراکین شوری ہمدرد
کراچی کی شرکت پر ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ بہت اہم موضوع ہے جس پر ہر سال شوری ہمدرد کا خصوصی اجلاس منعقد کیا جاتا ہے ۔ ان اجلاسوں میں بہت اعلی تجاویز دی جاتی ہیں جن پر بدقسمتی سے عمل نہیں ہوتا۔ جس کے بعد اجلاس کا باضابطہ اختتام ہوا۔