کیا واقعی ڈین کونٹز نے 40 سال پہلے کورونا وائرس کی حالیہ عالمگیر وبا کی پیش گوئی کی تھی؟ حقیقت کیا ہے؟

Ameen Akbar امین اکبر ہفتہ 14 مارچ 2020 23:55

کیا واقعی ڈین کونٹز نے 40 سال پہلے  کورونا وائرس کی حالیہ عالمگیر وبا کی پیش گوئی کی تھی؟ حقیقت کیا ہے؟

جب سے کورونا وائرس کی وبا پھیلی ہے انٹرنیٹ پر صارفین  امریکی ناول نگار ڈین کونٹز (Dean Koontz) کے 1981ء میں لکھے گئے   ناول ”دی آئیز آف ڈارک نیس“ (The Eyes of Darkness) کا ایک صفحہ شیئر کر رہے ہیں۔پاکستان میں  کوویڈ-19 کے مریض سامنے آنے کے بعد  اس صفحے کی شیئرنگ  کافی زیادہ ہوگئی ہے۔ اس صفحے  کو پڑھ کر لگتا ہے کہ جیسے مصنف نے آج سے 40 سال پہلے ہی موجودہ عالمگیر وبا کی ایسی پیش گوئی کی تھی جو آج حرف بہ حرف پوری ہو  رہی ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

ناول میں لکھا ہے کہ ووہان شہر  سے  باہر ایک لیبارٹری میں ایک خطرناک ہتھیار  ”ووہان -400“ تیار کر لیا گیا ہے۔


سازشی نظریات اور افواہوں کی حقیقت بتانے والی ویب سائٹ سنوپس کے مطابق ناول کا جو صفحہ شیئر کیا رہا ہے وہ حقیقت میں اصل ناول سے ہی لیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

  یہ پیپر بیک ایڈیشن دسمبر 2008 میں شائع کیا گیا تھا۔یہ درست ہے کہ ناول کے صفحے پر ”ووہان-400“ ہتھیار کا نام لکھا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ ووہان، چین ہی 2020 میں اس  وبا کے پھیلاؤ کا باعث بنا ہے۔

ان دو باتوں کے  سوا ناول اور موجودہ عالمگیر وبا میں کوئی مماثلت نہیں۔

ناول اور موجودہ عالمگیر وبا میں جو تضادات ہیں وہ کچھ یوں ہیں۔

ناول میں کورونا وائرس کو انسان کا بنایا ہوا ہتھیار قرار دیا گیا ہے جبکہ کورونا وائرس انسان کا بنایا ہوا نہیں ہے۔

ناول میں ووہان -400 سے مرنے کا احتمال 100 فیصد ہے جبکہ موجودہ عالمگیر وبا میں  بیماری سے مرنے والوں کی شرح چند فیصد ہے۔

ناول میں خفائے مرض کا  دور صرف 4 گھنٹے ہے جبکہ موجودہ  کوویڈ-19کی علامات ظاہر ہونے میں 2سے  14 دن لگتے ہیں۔


اس ناول کی پیش گوئیوں پر یقین کرنے والوں کے  لیے بری خبر یہ بھی ہے کہ اس ناول کے 1981 کے ایڈیشن میں ووہان -400 کو ”گورکی-400“ کا نام دیا گیا تھا اور اسے چینی سائنسدانوں نے نہیں بلکہ روسی سائنسدانوں نے روسی شہر  گورکی میں بنایا تھا۔

  1981  میں یہ ناول ڈین کونٹز نے اپنے تخلص ”لی نکولس“ کے نام سے لکھا تھا۔ 1989 میں جب یہ دوبارہ شائع ہوا تو ڈین کونٹز نے اس پر اپنا اصل نام لکھا اور وائرس کو بھی روس سے چین ”منتقل“ کردیا۔اس کے علاوہ ابھی تک ماہرین ووہان میں اس وائرس کے مرکز ہونے کے بارے میں تحقیق کر رہے ہیں۔ کچھ رپورٹس میں تو اس وائرس  کا مرکز اٹلی کو بھی  قرار دیا گیا ہے۔



  

Browse Latest Weird News in Urdu