Bhalwal Se Wakhnangan Episode 2 .... Bazaar Se Guzra HuN Khareedar Nahi HuN - Article No. 1368

Bhalwal Se Wakhnangan Episode 2 .... Bazaar Se Guzra HuN Khareedar Nahi HuN

بھلوال سے واخننگن قسط 2 ۔۔۔۔ بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں - تحریر نمبر 1368

انجم اور علینا کے کمرے ساتھ ساتھ تھے، انجم کے کان پتلے تھے یا اس کے ارتکاز کا کمال تھا، وہ ان کی سرگوشیاں اور محمود کے لائے ہوئے لفافوں کی کھڑکھڑاہٹ تک سن سکتا تھا

Zaheer Paracha ظہیر پراچہ بدھ 12 جولائی 2017

واخننگن ایک یونیورسٹی ٹاوٴن تھا جہاں ایک زرعی یونیورسٹی اور کئی چھوٹے چھوٹے انسٹیٹیوٹ تھے۔ ہمارا انسٹیٹیوٹ بھی ایک ایسی بلڈنگ میں واقع تھا جس میں اس جیسے اور کئی اڑھائی اڑھائی کمروں کے درجنوں بین الاقوامی شہرت کے حامل ادارے قائم تھے۔ دنیا بھر سے مختلف دورانیوں کے کورسز میں شریک ہونے والے ہر عمر کے طوطوں کے لئے ایک ہوٹل نما ہوسٹل بنایا گیا تھا۔
کہتے ہیں پہلے ہمارے کورس کے شرکا ایک معین رقم کے عوض رہائش اور خوراک کے خود ذمہ دار تھے، جسے وہ کھاتے کم اور بچاتے زیادہ تھے۔ یہ نظام تب بدلا جب ہمارے کلاس فیلو اور بزرگ دوست ڈاکٹر الله بخش صوفی ( موصوف جب ہمارے کلاس فیلو بنے تو انیس سال کی بالی عمر میں ماشاء الله تین بچوں کے باپ تھے) تین دن کلاس میں نہ پہنچے اور کورس ڈائریکٹر مسٹر جیسپر ان کی خیریت دریافت کرنے ان کے پتے پر جا پہنچے تو انہیں ایک گُھرنے ( attic ) میں صاحبِ فراش پایا، جہاں صوفی صاحب کی موجودگی میں ہوا کا گزر بھی ناممکن تھا۔

(جاری ہے)

صوفی صاحب کو تو بصد ادب وہاں سے واگزار کرا لیا گیا لیکن بعد میں آنے والوں کی رہائش اور خوراک کا انتظام ادارے نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ فائدہ یہ ہوا کہ بعد میں آنے والوں کو ایک معقول رہائش رہنے کو اور بے بہا رونق دیکھنے کو ملی اور نقصان یہ ہوا کہ شرکا کا زرمبادلہ کمانے کا امکان بالکل معدوم ہو گیا۔ ماسی مارگریٹ بونس میں ملی جو اوروں کے لئے تو ماسی مصیبتے تھی مگر ہمارے لئے ایک دو مِٹھڑے بولوں کی مار۔
تصویرِ کائنات میں تین رنگ ملا کر کورس میں ہم تیس لوگ تھے۔ روسی علینا اگر سلفے کی لاٹ تھی تو اس کی ہم وطن ویرا 'بجھا کے آگ جسے کارواں روانہ ہوا' اور ویت نامی کِم بیچاری سکوتِ شب میں ٹھہرا ہوا سمندر، نہ مد نہ جزر۔ علینا جتنی گوری تھی کلاس میں اتنی ہی کوری تھی۔ محمود پڑھائی میں مدد دینے کے بہانے اسے جیتنے کے چکر میں دھڑا دھڑ گلڈر اڑا رہا تھا۔
رنگ تو ویرا کا بھی گورا تھا اور نالائقی میں علینا سے بھی دو قدم آگے مگر نہ تو اس کے اظہار میں تُندی تھی نہ علینا کی طرح کی بیباکی۔ بس ماضی ہی ماضی، ٹھہراوٴ ہی ٹھہراوٴ۔ سو حال میں زندہ رہنے والوں کے لئے ایک بھولی بسری داستان ہی رہی۔ انجم اور علینا کے کمرے ساتھ ساتھ تھے، انجم کے کان پتلے تھے یا اس کے ارتکاز کا کمال تھا، وہ ان کی سرگوشیاں اور محمود کے لائے ہوئے لفافوں کی کھڑکھڑاہٹ تک سن سکتا تھا۔
ڈرائی وال کی اپنی مجبوری تھی، انجم کے اعصاب کہاں تک برداشت کرتے۔ ایسے میں کچھ بن نہ آتی تو وہ ہمارے کمرے میں آ دھمکتا مگر اس کا دھیان دونوں کے بے باک قہقہوں کی طرف ہی رہتا۔ آتے جاتے کبھی ہمارا محمود سے آمنا سامنا ہو جاتا تو کھسیانی ہنسی ہنس کر کہتا ڈاکٹر ایم جی بوس کی اسائنمنٹ کرانے گیا تھا یا ڈاکٹر کائنے کے ٹیسٹ کی تیاری کروانے جا رہا ہوں۔
انجم نے بارہا علینا کو اپنی ماسٹر ڈگری، ڈرینیج میں اپنے تجربے اور پڑوسیوں کے حقوق کا حوالہ دیا مگر بے سود۔ آخر اس نے ایک نئی چال چلی۔ ایک شام ہم کیوبن کامریڈوں کے ساتھ بیٹھے کافی پی رہے تھے کہ محمود اور علینا پاس سے گزرے، محمود نے پلٹ کر دیکھا، اس کے ہونٹوں پر فخریہ مسکراہٹ تھی۔ یہی لمحہ اس کی قسمت بدل گیا۔ انجم نے البرٹو سے کہا یار تم کیسے کامریڈ ہو، ایک لڑکی تو تم سے فتح نہ ہوئی۔
البرٹو مسکرا دیا۔ انجم بھلا کیسے پیچھے ہٹتا، اس نے ایک سو گلڈر کے نوٹ میز پر رکھ دیئے۔ البرٹو کبھی نوٹ دیکھتا کبھی انجم کا چہرە، نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کی مجسم تصویر۔ البرٹو نے وقت مانگا، ایک ہفتے پر معاملہ طے ہوگیا۔ ابھی پانچ دن بھی نہ گزرے تھے کہ البرٹو وصولی کے لئے آ پہنچا۔ اب انجم کے لئے نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا، ایک دن کہنے لگا اس سے تو محمود بہتر تھا کم از کم پہلے باتیں تو سمجھ آتی تھیں۔
علینا خوبصوت بھی تھی اور چست بھی۔ اس کا اندازہ اس روز ہوا جب ہمیں قدیمی ڈچ رہن سہن دکھانے ایک اوپن ایئر میوزیم لے جایا گیا۔ میوزیم کیا تھا ایک ایک کمرے کے گھر، جہاں ہمارے آج کے دیہاتی کچے گھروں کی طرح ڈچ اور جانور مل جل کر سردی کی طویل راتیں کاٹتے تھے، ایک دو لوہاروں ترکھانوں کی دکانیں، دھوبی گھاٹ اور ایک دو روایتی ہوا چکیاں۔ یہ سوچ کر ہم تازہ ہوا کھانے باہر آ گئے کہ یہ سب کچھ تو ہم اپنے کسی پنڈ تھاں میں بھی جا کر دیکھ سکتے ہیں۔
موسم خوشگوار تھا۔ نکھری نکھری دھوپ میں علینا کو جانے کیا سوجھی فراک اتار کر البرٹو کو تھمایا اور ایک بنچ پر پنجوں کے بل لگی کرتب دکھانے۔ اب چشم کشا حال کو چھوڑ کر گمشدە ماضی میں کسے دلچسپی ہو سکتی تھی۔ اچھا خاصہ مجمع اکٹھا ہو گیا۔ ھم سب کو نادیہ کمانچی یاد آگئی۔ ایسے میں کوئی کاسہ گھما دیتا تو اچھا خاصہ زرمبادلہ اکٹھا ہو سکتا تھا۔
انجم اس کے پیکر کے خطوط میں ایسا کھویا کہ بعد میں کئی بار فرمائشی پروگرام کی درخواست کی مگر حسن اپنے اظہار کے لئے فرمائش کا نہیں اپنے تقاضوں کا پابند ہوتا ہے۔ محمود اب آنے والی تھاں پر آ چکا تھا۔ ایک دن یوسفِ بے کارواں کی طرح پھرتا دیکھ کر میں نے محمود سے حال پوچھا تو کہنے لگا ڈالر ختم ہو گئے تھے۔ جواب اس کی ذہنی کیفیت کا عکاس تھا۔
ابھی ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ علینا ایک مہنگی سپورٹس کار پر باہر سے آنے والے کیوبن کے ساتھ نظر آنے لگی۔ محمود اور البرٹو میں گاڑھی چھننے لگی جس پر مجھے عاشِق زار اور عندلیب یاد آ گئے، ہائے گل پکارتا اور ہائے دل چلاتی۔ انجم نے ایک دن البرٹو کو اکیلے میں پکڑ لیا اور اپنے سو گلڈر کی واپسی کا تقاضا کر دیا۔ البرٹو نے اپنی خالی اور اس کیوبن کی بھاری جیب کو اپنی بے بسی کا ذمہ دار قرار دیا۔ بات سنتیاگو پر مشروط ہو گئی۔ طے پایا کہ اگلے ایک ہفتے میں سنتیاگو کامیاب نہ ہوا تو گلڈر واپس۔ انجم پُرامید تھا مگر وہ ہو نہ سکا، اس نے جو بھی چاہا تھا۔ ہر جانب سے مایوس ہو کر انجم نے مجھے اپنی توجہ کا محور بنانا چاہا مگر میرا جواب واضح تھا: بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں

Browse More Urdu Literature Articles