Wo Ju Tor Hai Buhat Dour Hai - Article No. 2588

Wo Ju Tor Hai Buhat Dour Hai

وہ جو طُور ہے بہت دور ہے - تحریر نمبر 2588

چند ہفتے پہلے ہم حسب معمول روزمرہ کے معمولات میں لگے ہوئے تھے کہ خبر ملی کہ الله تعالیٰ نے ہمارے رزق کا جو حصہ مصر میں لکھا ہے اس کے ملنے کا وقت ہوا چاہتا ہے

Afshan Khawar افشاں خاور جمعرات 23 نومبر 2023

چند ہفتے پہلے ہم حسب معمول روزمرہ کے معمولات میں لگے ہوے تھے کہ خبر ملی کہ الله تعالیٰ نے ہمارے رزق کا جو حصہ مصر میں لکھا ہے اس کے ملنے کا وقت ہوا چاہتا ہے -
مصر سے ہماری واقفیت بہت پرانی ہے . بچپن میں والد صاحب سے سنے حضرت یوسف علیہ اسلام کے واقعہ سے لے کر ایک پرانی فلم Ten Commandments تک ہمارے لیے مصر ایک پر اسرار اور دلچسپ سر زمیں رہا -
جب کچھ خود پڑھنے کے قابل ہوے تو دنیا کے 7 عجوبوں میں شامل اہرام مصر کے بارے میں بھی کافی پڑھا اور ایسا پڑھا کہ آج تک اس موضوع پر لکھا ہوا مواد سامنے آۓ تو سب کچھ چھوڑ کر اسے پڑھنے بیٹھ جاتے ہیں -
(جاری ہے)

_3" alt="">


کہتے ہیں کہ شکر خورے کو اور کیا چاہیے تو بس ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ ہوا.
شادی کے بعد الله نے کچھ ایسا سلسلہ بنایا کہ الله کی بنائی ہوئی اس خوبصورت دنیا کے طول و عرض میں پھرنے کے بہت سے مواقع ملتے رہتے ہیں اور ہم جہاں بھی جائیں وہاں کا میوزیم ہماری خصوصی توجہ کا حامل ہوتا ہے. نیویارک اور لندن میں بھی ہمیں میوزیم میں بہت وقت گزارنے کا موقع ملا اور دونوں جگه پر ہی مصری نواردات کا ایک بیش بہا خزانہ موجود ہے .
اور ہم نے خوب دل بھر کر ان کے ساتھ وقت گزارا ، لیکن سچ تو یہ ہے کہ مصر سے بلاوے کا انتظار ہمیشہ رہا . اس بار ہمیں لگا کہ بلاوا آ ہی گیا . لیکن جناب معلوم ہوا کہ ہنوز دلی دور است . ہم مصر تو جا رہے ہیں لیکن سر زمین حضرت یوسف و فرعون نہیں بلکہ ہماری منزل بحریہ احمر کے کنارے موجود نہایت حسین ساحلی علاقہ اور کوہ سینائی کا علاقہ ہے. خیر جناب ہم نے پروگرام پر نظر ڈالی تو پتہ چلا کہ Parasailing, Diving, Snorkeling بھی تفریحات میں شامل ہیں.
پانی سے ہمارا ایک Love Hate Relationship ہے. ہمیں پانی بہت پسند ہے لیکن پانی کے اندر جانے پر ہمارے بڑے تحفظات ہوتے ہیں. خیر ہم نے اس علاقے میں Shark Sighting کے حوالے سے تھوڑی معلومات چیک کیں تو پتا چلا آخری بار 2022 میں شارکس اس علاقے میں دیکھی گئی تھیں. تھوڑا مزید پیچھے گئے تو 2010 میں شارک کے ہلاکت خیز حملے ہوۓ تھے. تو بس جناب Diving & Snorkeling تو فوراً off list ہو گئے.
ہمارا ماننا ہے کہ معاشی طور پر ںسبتاً کمزور ملک یا علاقے جن کی معیشت کا پورا انحصار سیاحت پر ہوتا ہے وہ اس طرح کے حادثوں کو Brush off کرنے میں کافی ماہر ہوتے ہیں.
وہاں اس طرح کے Adventure سے گریز کرنا ہی ہمیں عین حکمت معلوم ہوتی ہے. احتیاط لازم باقی الله کی رضا. خیر یہ مکمل طور پر ہماری ذاتی راۓ ہے. اور ہم باقی سب لوگوں کی راۓ کی مکمل طور پر عزت کرتے ہیں جو کہ ہماری راۓ کے بالکل بالعکس ہے.
کاتب تقدیر کا لکھا بھی بہت عجیب ہوتا ہے، حضرت موسیٰ آگ لینے گئے اور پیغمبری لے کر لوٹ آۓ. کہاں ہم شرم الشیخ کے لیے سامان باندھ رہے تھے اور کہاں کاتب تقدیر ہمارا کچھ اور بندوبست کر رہا تھا.
کہتے ہیں نہ کہ الله سے مانگتے رہو، وہ ہماری کسی سوچ سے غافل نہیں.
ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ تقریباً 6 سال پہلے ھوا. امریکہ جاتے ہوۓ راستے میں ہماری نظر سامنے سکرین پر پڑی تو پتہ چلا اس وقت ہمارا جہاز مدینہ کی فضاؤں سے گزر رہا ہے. ایسے دل میں شکایت پیدا ہوئی کہ کیا ہم اتنے بے نصیب ہیں کہ اس زمین پر سے تو گزر رہے ہیں لیکن اس زمین پر جانا ہمیں نصیب نہیں. پھر فوراً دل میں خیال آیا کہ شکایت بنتی نہیں، ذرا اپنے معاملات دیکھئیے اور پھر بات کیجئے.
خیرالله تو غفور الرحیم ہے اور ستارالعیوب ہے. اور وہ ہم جیسی حقیر ترین مخلوق کی بھی سنتا ہے. انسان مانگ کر بھول جاتا ہے. وہ یاد بھی رکھتا ہے اور اپنی شان عظیم کے مطابق نوازتا بھی ہے.

خیر جناب قصہ مختصر معلوم ھوا کہ ہمیں شرم الشیخ لے جانے کی ذمہ داری سعودی ایئر لائن کو دی گئی ہے. تو جناب ڈاکٹر صاحب نے فوراً ہی عمرہ ویزا کے لیے درخواست دے دی.
اور یوں گناہ گاران ، امیدواران کی فہرست میں شامل ھو گئے.

خیر سفر حجاز کے بارے میں تو ہم الگ سے الفاظ جمع کریں گے. ابھی تو سرزمین موسیٰ کی طرف آتے ہیں.
تو جناب بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب کو ساڑھے دس کے قریب ہم گھر سے لاھور انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے لیے روانہ ہوۓ. 12اکتوبر علی الصبح 2:35 پر ہم سعودی ایئر لائن پر جدہ کے لیے روانہ ہوۓ. جدہ ائیرپورٹ پر ہمارا قیام تقریباً 8 گھنٹے تھا. سننے میں آیا کہ یہاں سے مکہ شریف 40 منٹ سے 1:30 گھنٹے سے کے فاصلے پر ہے.
(Depending on Traffic).
جدہ ائیرپورٹ دنیا کے ان چند ائرپورٹس میں شامل ھے جہاں ائیرپورٹ کے اندر فری Free Wifi یا Sim خریدنے کی سہولت نہیں. جدہ ائیرپورٹ میں ہم نے سعودی عرب کی مشہور ترین فاسٹ فوڈ چین البیک سے Early Lunch کیا. اور نماز ظہر ادا کی. مسجد میں نماز ادا کرنے کا یہ ہمارا پہلا موقع تھا. وہاں جماعت نماز کا انتظام تو نہ تھا لیکن ہم نے پہلی بار وضو خانہ میں وضو کیا اور مسجد کے لیے مختص کمرہ میں نماز ادا کی.
اگلی فلائٹ بالکل ٹائم پر تھی اور اس کا دورانیہ ایک گھنٹہ 40 منٹ تھا.
مختصر سی فلائٹ میں چاۓ کافی اور Stone Oven Baked Pizza کی تقسیم کے دوران ہی وقت گزر گیا. اور ہمارا جہاز صحیح وقت پر شرم الشیخ کے ائیرپورٹ پر لینڈ کر گیا. ائیرپورٹ اسٹاف نہایت معقول اور دوستانہ رویے کا حامل تھا. ڈھلی دوپہر ہم ائیرپورٹ کی خیمہ نما بلڈنگ سے باہر نکلےاور بس میں سوار ہو کر منزل مقصود کی طرف روانہ ہوۓ.

اب ذرا تعارف ہمارے میزبان شہر کا.
شرم الشیخ کا مطلب شہر امن ہے. 2023 میں کئے گئے سروے کے مطابق اس شہر کی ٹوٹل آبادی 73000 نفوس پر مشتمل ہے. لوگ مجموعی طور پر صاف ستھرے، ایماندار اور اپنے کام سے کام رکھنے والے ہیں. یہ علاقہ کچھ عرصہ تک اسرائیلی قبضہ کا شکار بھی رہا اور یہاں UNO کے امن دستے بھی تعینات رہے. بنیادی طور پر یہ ایک ساحلی علاقہ ھے اور اس کی زیادہ تر معشیت کا انحصار سیاحوں پر ہے.
اس کے ساحل پر 250 مختلف قسم کی Coral Reef پائی جاتی ہیں. اور 100 سے زیادہ اقسام کی مچھلیوں کی آماجگاہ ہے، یہاں کی آب و ہوا گرم اور شدید خشک ہے اور بارش بہت کم مقدار میں ہوتی ہے.
شرم الشیخ میں ہمارا قیام "نامہ بے ہوٹل اینڈ ریزورٹ" میں تھا. صاف ستھری عمارت زیادہ تر روسی سیاحوں سے بھری ہوئی تھی. بے حد صاف ستھرا Swimming Pool اور کھلا نیلا آسمان.
لفٹ اور بلڈنگ تھوڑی سی پرانی ضرور تھی لیکن اس کی دیکھ ریکھ بڑے اچھے انداز میں ہوئی تھی. کمرے کی طرف جاتے ہوۓ جھاڑیوں میں مصری چھپکلی دیکھنے کو ملی. یہ سائز میں کافی باریک اور چھوٹی تھی اور اس پر لمبائی کے رخ میں سفید اور کالی دھاریاں تھیں. ہمارے دل سے دعا نکلی کہ یا الله تیری اس مخلوق سے کمرے کے اندر ملاقات نہ ہو. تھوڑی دیر ریسٹ کرنے اور نہا دھو کر فریش ہونے کے بعد سب ڈائننگ ایریا میں ڈنر پر اکٹھے ہوۓ، اس دن کی Continental Dishes, Dinner Theme پر مشتمل تھی.
اگرچہ ہم کھانے کے معاملے میں کافی مزاج دار واقع ہوۓ ہیں لیکن ہمیں یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ یہ قوم اچھا کھانا بناتی ہے.
چکن سے کوئی کچی بو نہیں آتی. پھل انتہائی لذیز، بڑے خوبصورت سلاد اور ماشاالله سب کچھ بہت با افراط - فیملی ریزوٹ تھا تو بڑے، بوڑھے، جوان، بچے سبھی نظر آ رہے تھے.
ڈنر کے بعد شہر کی سیر کا ارادہ بنایا. Soho Square شہر کے قلب میں واقع علاقہ ہے اور وہاں چھوٹی چھوٹی آئس کریم شاپس ہیں اور بچے بوڑھے سب ہی وہاں گھوم پھر رہے تھے. شہر میں امن و امن کی صورتحال مثالی ہے.
اور جیب کترے یا چور اچکے کا کوئی تصور نہیں. اچانک ہماری نظر سامنے خان الخلیلی بازار پر پڑی، یہ نام ہمارے لئے اجنبی نہیں اور اسے مصر میں افسانوی حثیت حاصل ہے. وہاں گئے تو زیادہ تر چا ئینہ میڈ سامان نظر آیا. بڑی مایوسی ہوئی کہ یا الہی یہ کیا ماجرا ہے. بعد میں معلوم ھوا کہ اصل خان الخلیلی بازار تو قاہرہ میں ہے یہ تو انہوں نے ایک Street بازار کو پیار سے خان الخلیلی بازار کا نام دے دیا ہے.
Soho Square میں کچھ قدیم مصری مجسموں کا Remake بھی بنایا گیا ہے لیکن اس میں صفائی سے کام نہیں لیا گیا.
اس سے زیادہ نفیس مجسمے تو ہمارے بحریہ ٹاؤن میں نصب ہیں. جہاں تک میرا اندازہ ہے یہ لوگ خود کو فرعون سے منسوب کرنا زیادہ پسند نہیں کرتے. انہیں اپنے ساحل، سمندر اور اپنی تہذیب سے زیادہ پیار ہے.
اگلے دن کا پروگرام ناشتے کے بعد پورٹ جانا شامل تھا.صبح سویرے بہترین قسم کا ناشتہ کر کے ہم پورٹ کی طرف روانہ ہو گۓ. آج کے دن کے لیے ہمارے میزبان Morgan Boat اور اس کا سٹاف تھا.
بے حد خوش اخلاق، محنتی Professional لوگ. سب سے پہلے باہمی تعارف ہوا. اور مختلف Activities کے لیے لوگ رجسٹر ہونے لگے. ہم دونوں نے سمندر کو بوٹ کے اندر سے ہی Enjoy کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا تھا. اس لیے ہم نے پانی کے اندر کسی بھی طرح کی Activity میں حصہ نہیں لیا.

بحیرہ احمر بحر ہند کا ایک حصہ ہے. اور ہم نے اس سے زیادہ Turquoise Blue Color کا پانی پوری دنیا میں نہیں دیکھا.
ہم نے بوٹ کے عملے سے دریافت کیا کہ اسے بحیرہ احمر یا Red Sea کیوں کہا جاتا ہے. جبکہ اس کا رنگ تو نیلگوں مائل ہے. تو جواب ملا کہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت سورج کی کرنیں سرخی مائل ساحلی ریت اور چٹانوں سے ٹکرا کر جب سمندر کا رخ کرتی ہیں تو یہ نیلگوں پانی سرخی مائل ہو جاتا ہے. خیر ہمیں وہ دیکھنے کا موقع نہ مل سکا. ہمارا لنچ بوٹ پر ہی تھا اور ہم دࣥم اور آنکھوں سمیت تلی ہوئی آدھی کچی آدھی پکی مچھلی کے منتظر تھے کہ پتہ چلا بوٹ سٹاف، بوٹ پر ہی تازہ 3 کورس کھانا بناتا ہے جس میں مٹن، چکن، سبزی، روٹی اور چاول بمعہ سلاد کے شامل ہیں.
بے حد صاف ستھرا کچن، برتن، اور سادہ اور لذیز کھانا. اللہ کا شکر ادا کر کے لنچ سے لطف اندوز ہوۓ. بوٹ کا عملہ بے حد پروفیشنل تھا اور صفائی کے حوالے سے بہت محتاط - ہمیں بھی کئی باریاد دہانی کرائی گئی کہ کوئی خالی بوتل، گلاس یا ٹشو پیپر سمندر میں نہیں جانا چاہئیے. یہیں سے ہمیں اندازہ ہوا کہ وہ علاقے صاف ستھرے رہ سکتے ہیں جہاں کے مکین اپنے علاقے سے محبّت کرتے اور اس کو صاف ستھرا دیکھنا چاہتے ہیں.
شام کو ہوٹل واپسی ہوئی.
اور باقی ماندہ وقت ہم نے ریسٹ کرنے میں گزارا. رات کو ڈنر کے دوران پتہ چلا کہ صبح سویرے 6 بجے سب لوگ گاڑی میں موجود ہونے چاہئیں کیونکہ کوہ سینائی اور سینٹ کیتھرائن چرچ کا راستہ 3:30 گھنٹوں پر محیط تھا. ہوٹل نے اتنی جلدی Breakfast Buffet کے لئے تو معذرت کی لیکن اچھا خاصا ناشتہ پیک کر کے ہمارے ساتھ روانہ کر دیا. جس میں جوس، پانی، Croissant, Muffin, اور 2 قسم کے تازہ پھل شامل تھے.
گاڑی میں ہمارے ساتھ ایک مسلمان مصری گائیڈ سوار تھے.
ان کی انگلش سمجھ بوجھ اتنی ہی تھی جتنا ہمیں مصری زبان پر عبور تھا. یعنی تقریباً اندازہ سے بات سمجھنے والا معاملہ تھا.
جیسے ہی شہر کو الوداع کہا دونوں جانب سے خشک، بھورے، چٹیل پہاڑوں نے ہمارے ساتھ بھاگنا شروع کر دیا. ان بنجر اور چٹیل پہاڑوں کو دیکھ کر ہم کوہ سلیمان کے پہاڑوں کی ویرانی بھول گئے.
تقریباً ایک گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد گاڑی سڑک کے کنارے واقع چھوٹے چھوٹے جھونپڑی نما قہوہ خانوں کے سامنے رک گئی.
ہم ساتھ لاۓ ناشتہ اور مقامی گرم فریش کافی سے لطف اندوز ہوۓ اور پھر آگے کی طرف سفر شروع کیا. تقریباً 40 منٹ بعد گاڑی روڈ پر رک گئی. معلوم ہوا کہ یہاں سے 10-12 گاڑیاں اکٹھی ہو کر ایک قافلے کی صورت میں آگے بڑھیں گی اور مقامی پولیس یا فوج کی گاڑیاں ساتھ چلیں گی.
ہمیں یہ غلط فہمی تھی کہ گائیڈ کی انگریزی اچھی نہیں ہے. بعد میں پتہ چلا کہ اس کی تاریخ اور جغرافیہ بھی اس کی انگریزی کی طرح ہی تھا.
اللہ ہمیں معاف کرے، مقصد اس کا مذاق بنانا نہیں، لیکن جیسے وہ بولتا تھا ہمیں نیند آنے لگتی تھی، ساتھ بیٹھی ایک دو دوستوں سے پوچھا تو انہوں نے بھی ہماری راۓ کی تائید کی. خیر سوتے جاگتے ہم سینٹ کیتھرین چرچ کے قریب جا پہنچے.
آپ میں سے جو لوگ بھی اس سفر کو جائیں پہلی بات وہاں کسی بھی طرح کے معقول ٹائلٹ کی بالکل امید نہ رکھیں، دوسرے موٹے سوتی کپڑے فل بازو کے ساتھ پہنیں، چہرے کو کور کرنے کے لئے موٹے سوتی رومال ، گلاسسز اور چھتری کا استعمال کریں.
خیر جس جگہ ہماری وین نے ہمیں اتارا وہاں سے تھوڑی سی چڑھائی تھی، اور تقریباً 1 کلومیٹر دور چرچ کی عمارت تھی. وہاں کے لوکل لوگ Private Taxi چلا رہے تھے اور ایک کلومیٹر کا تقریباً ایک ڈالر چارج کر رہے تھے. ہم نے پہلے تو Taxi استعمال کرنے کا اصولی فیصلہ کیا لیکن بعد میں دیکھا کہ کافی بزرگ بھی پیدل جا رہے ہیں تو ذرا شرمندہ ہو کر پیدل چل پڑے. لیکن ہم آپکو یہی مشورہ دیں گے کہ آپ اس طرح کی دشواری میں نہ ہی پڑیں اور ٹیکسی کے زر یعے ہی چلے جایئں اس طرح لوکل لوگوں کی مدد بھی ہو جاتی ہے اور آپ بھی شدید گرمی میں مزید ادھ موا ہونے سے بچ سکتے ہیں.
راستے میں جگہ جگہ چا ئینہ کا سامان اور کوہ طور کے کرسٹل بک رہے تھے. جن کے نا خالص ہونے کے بارے میں ہمیں شبہ نہیں بلکہ یقین تھا. عمارت کی چار دیواری میں داخل ہوۓ تو گائیڈ صاحب پہلے سے ہی کچھ علم تقسیم کر رہے تھے. تھکن، گرمی اور ان کا انگریزی پر عبور، اس مجموعے کے ساتھ ہمیں بہت ہی کم معلومات سمجھ آئیں.
وہ کسی کیتھرین کا ذکر کر رہے تھے جسے کسی ظالم بادشاہ نے قتل کرا دیا اور بعد میں فرشتے ان کا جسد خاکی یہاں لے آۓ.
تاریخی عمارات اور غیر مصدقہ روایات کا ہمیشہ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے، خیر جو وہ بولتے گئے ہم سنتے رہے.

1798 میں یہ علاقہ نپولین بونا پارٹ کے حملے کا شکار ھوا. لیکن جہاں اس نے قاہرہ میں ابوالہول کو مسخ کر ڈالا وہاں اس نے اس عمارت کا احترم کیا اور اسے کسی قسم کا نقصان پہنچانے سے باز رہا. اس جگہ کی روایات میں ہے کہ یہیں پر وہ جگہ ہے جہاں حضرت موسیٰ نے آگ جلتی ہوئی دیکھی اور الله تعالیٰ ان سے ہم کلام ہوۓ.
کئی ہزار سال پرانا زیتون کا درخت بھی دیکھنے کو ملا اور وہ کنواں بھی موجود ہے جس میں روایت ہے کہ حضرت موسیٰ پانی لیتے تھے.
پہلے اس کنویں سے ڈول کے ذریعے پانی نکالا جاتا تھا. نپولین بونا پارٹ نے وہاں ایک پلی اور چرخی کا انتظام کیا تا کہ پانی آسانی سے نکالا جا سکے. آجکل وہاں ایک نل نصب ہے جس سے با آسانی پانی لیا جا سکتا ہے.
بڑی خوبصورت پر سکون بلیاں بھی آرام سے ہر طرف گھوم پھر رہی تھیں اور باہر کے گرم خشک ماحول میں یہ عمارت بے حد ٹھنڈی، پر سکون اور خوشگوار تھی.
عمارت سے باہر ہمیں لوکل لڑکا " امیر" ملا، وہ ایک سفید رنگ کی اونٹ کا مالک تھا اور وہ سیاحوں کو تصویر کے لیے اپنا اونٹ مہیا کرتا تھا اور اس کے بدلے ایک ڈالر اجرت وصول کرتا تھا.
سفید رنگ کے اس خوبصورت اور انتہائی شریف صفت اونٹ کا نام Sugar تھا. امیر ایک ہائی اسکول پاس تعلیم یافتہ لڑکا تھا اور ہمارے گائیڈ کی نسبت بہت صاف انگریزی بول رہا تھا. ڈاکٹر صاحب نے امیر سے گپ شپ کی اور Sugar کے ساتھ تصاویر بنوائیں.
ہمارے گروپ کے کچھ لوگوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پیدل اس مقام تک جائیں گے جہاں سے کوہ طور نظر آ سکتا ہے. پتہ چلا کہ 40 منٹ کی واک ہے.
اتنی ہماری ہمت نہ تھی اور ہماری وجہہ سے ڈاکٹر صاحب نے بھی جانے کا ارادہ نہ کیا. تھوڑی دیر بعد دیکھا کہ وہ ساتھی جو کوہ طور کی جانب روانہ تھے انھیں بھی اندازہ ہوا کہ اس موسم اور اس دھوپ اور اتنے تھوڑے وقت میں یہ مشن ممکن نہیں تو وہ لوگ بھی واپس آ گئے.
مرے شوق کی یہیں لاج رکھ
وہ جو طور ہے بہت دور ہے
تھوڑی دیر وہاں رہنے کے بعد ہم نے واپسی کا سفر اختیار کیا اور شرم الشیخ سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ایک اور ساحلی قصبے "دھب" میں لنچ کے لیے رکے.
بے حد خوشگوار ھوا چل رہی تھی اور ہم سمندر کے بالکل قریب بیٹھے تھے درمیان میں سمندر کی ایک پٹی تھی اور دوسری طرف حجاز مقدس کے پہاڑ نظر آ رہے تھے. لنچ میں چکن تھا اور بہترین ذائقہ آئس کریم میں تازہ پھلوں کا ذائقہ- سامنے نیلگوں سمندر اور اس پر سعودی عرب کے پہاڑ-
"اور تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے."
طے یہ ھوا کہ کھانا کھا کر تھوڑی سی تصاویر بنوا کر ہم شرم الشیخ کی طرف روانہ ہو جائیں گے.
نجانے آپ ہمارے ساتھ اتفاق کریں یا اختلاف، انسانوں کی طرح مختلف عمارات اورعلاقوں کی بھی اپنی ایک پࣥراسرار Energy ہوتی ہے.
جیسے کچھ انسانوں سے مل کر آپ بہت خوشی محسوس کرتے ہیں اس طرح کچھ عمارات اور علاقے اس طرح کے ہوتے ہیں کہ آپ پر ان کی ہیبت طاری ہو جاتی ہے. ہم نے اس علاقے کو بھی کچھ اس طرح ہی پایا.
اسلامی روایات کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور دجال کافر میں فیصلہ کن مقابلہ جس مقام پر ہو گا سنا ہے وہ مقام اسرائیل میں " لُد " کے مقام پر واقع ہے اور اس علاقے سے 2:30 گھنٹے کی مسافت پر تھا.
خیر واپسی پر طبیعت بہت بھاری سی محسوس ہوئی.
ہوٹل پہنچ کر فریش ہوۓ اور رات کا کھانا جلدی کھا لیا. تھوڑی دیر بعد ایک کلچرل پروگرام میں شامل ہوۓ. وہاں پروگرام کا کچھ حصہ سرکس کے کرتبوں پر مشتمل تھا. اسے دیکھ کر دل بہت دکھی ھوا. ایک ٹین ایجر لڑکی محیّرالعقول جسمانی کرتب دکھا رہی تھی اور بادی النظر میں ہمیں ایک 3-2 سالہ بچی نظر آ رہی تھی جس سے اس کا بچپن اور عین ممکن ہے والدین چھین کر دو نوالے روٹی کے عوض جا ن جوکھم کرتب سیکھنے پر لگا دیا گیا.
ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر ہم اصولی طور پر کسی بات سے متفق نہ ہوں تو وہاں نہیں بیٹھ سکتے.
سو ادھر ادھر چلتے پھرتے واپسی کی بس کا انتظار کیا اور رات گئے ہوٹل واپسی ہوئی.
اگلے دن Parasailing، کانفرنس، لنچ اور ائیرپورٹ روانگی تھی. دࣥور اندیش ڈاکٹر صاحب کا ایک اصول ہے کہ روانگی سے ایک رات پہلے پیکنگ مکمل ہونی چاہئیے. لیکن تھکن غالب تھی اس لیے کچھ پیکنگ اس وقت ہوئی اور کچھ صبح پر مؤخر کر کی سو گئے.
صبح اٹھے تو بخار کی سی کیفیت طاری تھی سو ہم نے ہوٹل کے کمرے میں ریسٹ کرنے کو ترجیح دی.
ڈاکٹر صاحب نے اپنی آفیشل میٹنگ اٹینڈ کی اور ہم نے اس دوران باقی سامان پیک کیا. Parasailing سے نظر بچا کر باقی ماندہ وقت ہم نے Resort کے اندر اور باہر فوٹو گرافی میں صرف کیا.
پھر ہم سب لنچ پر ملے اور ائیرپورٹ کی تیاری شروع ہوئی.
واپسی پر کچھ ساتھیوں کا سیدھا پاکستان جانے کا پروگرام تھا. کچھ نے جدّہ ائیرپورٹ پر Layover Time سے فائدہ اٹھا کرعمرہ کا پروگرام بنا لیا اور ہمارا اگلا دانہ پانی ہمیں مدینہ پاک براستہ جدّہ بلا رہا تھا.
حسب معمول واپسی کی فلائٹ عین ٹائم پر تھی اور ڈیڑھ گھنٹہ گزرنے کا پتہ تک نہیں چلا.
اسی دوران پائلٹ کی طرف سے میقات کا اعلان بھی کیا گیا اور لوگوں نے عمرہ کی نیت کر لی.

جدّہ ائیرپورٹ پر پاکستان جانے والے ساتھیوں کو الله حافظ کہ کر ہم دوسری طرف چل پڑے. ائیرپورٹ سٹاف نہایت خوش اخلاق تھا اور سامان بڑی آسانی سے ٹائم پر آ گیا اور ہم سامان اٹھا باہر کی طرف روانہ ھو گئے.

Browse More Urdu Literature Articles