Qilla Singhni - Gujjar Khan - Article No. 2402
قلعہ سِنگھنی، گوجر خان - تحریر نمبر 2402
سن رکھا تھا کہ وہاں کوئی مزار بھی ہے، جہاں نوبیاہتے اولاد کی آس لیے جاتے ہیں، نذرانے چڑھاتے ہیں اور خوب غل مچاتے ہیں- اسی سنی سنائی میں آ کر ہم نے قیام و طعام کی آس باندھی تھی
ظاہر محمود ہفتہ 25 جولائی 2020
گوجر خان، ضلع راولپنڈی کی تحصیل ہے- اس شہرِ اصل اقتدار کی سات تحصیلیں ہیں- کلرسیداں، کوٹلی ستیاں، کہوٹہ، ٹیکسلا، مری، راولپنڈی اور گوجر خان- ساتوں کی سات تاریخی، ثقافتی، ارضیاتی شواہد و باقیات سے مالا مال ہیں- ہمارا پڑاؤ قلعہ سنگھنی تھا، جو کہ یونین کونسل ٹَکال کے موضعہ سِنگھنی میں واقع ہے- یہ موضعہ سِنگھنی تحصیل گوجر خان کا آخری گاؤں ہے- اس سے ذرا سا آگے چوآہ خالصہ کا تاریخی گاؤں ہے، جہاں سے مارچ ۱۹۴۷ء میں مسلم سکھ فسادات پھوٹے- قبائلی مسلمان مجاہدین نے سکھوں پر ہَلا بولا اور کوئی ۹۲ کے لگ بھگ سِکھنیوں نے کنویں میں کود کر اپنی عزتیں بچائیں تھیں- اس واقعہ کے بعد وہاں وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور جواہر لال نہرو نے بھی دورہ کیا تھا- خیر ہمارے پیشِ نظر قلعہ سِنگھنی تھا- بوسیدہ سڑکیں، گردوغبار سے اٹی فضا، اینٹوں کے بھٹوں کی چمنیوں سے نکلتی کالی زہریلی گیسیں، گندے جنگلی نہر نما نالے، شدید گرمی اور سی ڈی سیونٹی کی بے حال موٹر سائیکل ہمارے ہمراہی تھے- گوگل بابا نہ ہوتے تو شاید ہم کسی پاتال کے جنگل میں جا نکلتے- تجسس اور لگ بھگ سو کلومیٹر کی نہ ختم ہونے والی مسافت شدید تھکاوٹ کا باعث بنتی جا رہی تھی- اُس پہ مستزاد یہ کہ ویڈیوز، ڈاکیومنٹریز اور فوٹوشاٹ کے لالچ میں ہم سوٹڈ بوٹڈ تھے- بالآخر خدا خدا کر کے سوئی چمیاں پہنچے اور تھوڑا سا آگے جا کر ہمیں قلعے کے درودیوار نظر آئے تو کچھ سکون ملا-
سن رکھا تھا کہ وہاں کوئی مزار بھی ہے، جہاں نوبیاہتے اولاد کی آس لیے جاتے ہیں، نذرانے چڑھاتے ہیں اور خوب غل مچاتے ہیں- اسی سنی سنائی میں آ کر ہم نے قیام و طعام کی آس باندھی تھی- جب وہاں پہنچے تو پاس نہ پانی تھا نہ دانہ- دیواریں ہیبت ناک تھیں- دیواروں پہ بنے کنگرے خطرناک تھے- داخلی دروازہ بالکل اسی طرز پہ بنا ہوا تھا جیسے سندھ میں کوٹ ڈیجی کے قلعے کا تھا- اندر داخل ہوئے تو دم بخود رہ گئے- ابے یہ تھا وہ قلعہ جس کی خاطر اتنے رُسوا ہوئے- یہ قلعہ کم قلعی زیادہ تھی- ایک احاطہ تھا جیسا دیہاتوں میں عموماً حویلیوں میں ہوتا ہے- اس کے ارد گرد چار دیواری کا ڈھانچہ تھا- چاروں کونوں میں معمولی سے بُرج تھے جن کا مقصد شاید پہرہ داروں کو وہاں متعین کرنا ہو گا- اس قلعے کی تعمیر کے حوالے سے تین روایات ملیں- ایک کے مطابق یہ مغلوں نے تعمیر کروایا- اس کے ثبوت کے طور پر قریب ہی موجود ایک پرانا قبرستان پیش کیا جاتا ہے جہاں مغلوں کے کچھ سپاہیوں کی قبریں ہیں- ان قبروں پہ بھی کچھ مخدوش ہوتے نقش و نگار ہیں- ہم نے تنگیءِ دامانِ وقت کے باعث وہ قبرستان بہرحال نہیں دیکھا- دوسری روایت میں ہے کہ یہ قلعہ کشمیر کے ڈوگرہ راجاؤں نے تعمیر کروایا- اس زمانے میں یہ علاقہ بھی چونکہ کشمیر کا حصہ ہوا کرتا تھا، سو ڈوگروں کا یہاں بھی اثرورسوخ تھا- اسی کو قائم رکھنے کے لیے انہوں نے یہاں ایک چوکی ٹائپ قلعہ نما تعمیر کیا- یہ کوئی 1840-1799ء کے آس پاس کا قصہ ہے- تیسری روایت سکھوں کے حوالے سے ہے- بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسے تعمیر ہی سکھوں نے کروایا بعض کہتے ہیں کہ 1814ء میں اس کا انتظام و انصرام رنجیت سنگھ کی حکومت نے سنبھالا- بہرحال معمار جو بھی ہے، اس قلعے کا مقصد علاقے میں اپنا تسلط قائم رکھنا اور ٹیکس جمع کرنا بتایا جاتا ہے- کچھ لوگ یہ بھی کہہ گئے کہ یہاں قیدیوں کو بھی رکھا جاتا تھا- مگر جو بات سچ ہے اور خود دیکھی ہے کہ اس قلعے میں کوئی خاص عمارت، بیٹھک، دیوان یا محل نہیں ہے- بس یوں سمجھیے کہ قدیم زمانے کی پولیس چوکی ہے- اس کی تعمیر میں پہاڑی پتھر استعمال کیا گیا ہے- ایک طرف گاؤں اور باقی تینوں اطراف میں گھاٹیاں ہیں اور گھاٹیوں سے آگے چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں اور وادیاں ہیں- قلعے کی اطراف میں کھڑے ہو کر ان گھاٹیوں کو دیکھنا بہت خوفناک ہے-
لطف کی بات تو اب سنیے! صاحبزادہ عبدالحکیم جو قریبی موضعہ چکڑال میں دفن تھے، اپنے بیٹے اور سنگھنی کے مریدین کی خوابوں میں آئے اور حکم دیا کہ مجھے اس مدفن سے نکال کر قلعے میں دفن کیا جائے- سو حکم کی تعمیل ہوئی- اب مرحوم کافروں کے بنائے اس قلعے میں جنت نشیں ہیں- ان کے جانشینوں نے قریب ہی ایک اور مرکزِ تجلیات بنا رکھا ہے- ہر جمعرات اور جمعے کو وہ اپنے اُس والے مرکز سے اِس والے مرکز میں جلوہ نشیں ہوتے ہیں- بکروں اور مرغوں کی نیازیں چڑھائی جاتی ہیں- مریدین سلام عقیدت کے لیے بارگاہ میں حاضری دیتے ہیں- اللہ اللہ سبحان اللہ کیا رونق جلوہ افروز ہوتی ہو گی ان دنوں۔
(جاری ہے)
خلافِ توقع وہاں پانی کا بندوبست تھا نہ رفع حاجت کا، سو بے بسی میں ایک یہی خیال آیا کہ اب اتنا دور آ کر ایک دو کش ہی لگا لیے جائیں- احاطہ مزار میں "کچھ" سلگانے لگا کہ ایک خدمتگار آ گیا- اسے دیکھتے ہی کہا میاں! یہ ہمارا کیمرہ پکڑو کہ ہم ویڈیو بنائیں اور دنیا کو دکھلائیں کہ وہ یہاں آئیں اور ثوابِ دارین کمائیں- وہ تو بڑا باذوق نکلا- گو کہ ناخواندہ تھا مگر بلا کا شعر خوان تھا- ہمیں سیف الملوک سنائی، پھر پوٹھوہاری میں کچھ دوہڑے سنائے- پھر کہنے لگا آپ ہمارے گھر آئیں، خدمت کرائیں اور آپ کو ہم گھڑا و سَتّار سنائیں- اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں- شکرِ خدا ادا کیا اور خود کو اس کے ہمراہ کیا- گھر پہنچتے ہی اس نے کوئی ڈیڑھ فرلانگ ستار نکالا ساتھ میں اپنے بیٹے عثمان کو للکارا- ہاتھوں میں گھنگھرو باندھ کر اسے گھڑے پر بٹھا دیا- اس کا اسم گرامی راجہ مناظر شعرخوان تھا- کلام سناتے سناتے اس نے بتایا کہ ہمارے پوٹھوہار میں یہ روایت ہے کہ جب کوئی مرتا ہے تو یہاں کے مقامی شعرا اس کی عظمت و شہرت پہ شعر لکھتے ہیں اور پھر یہ شعر پورے بندوبست کے ساتھ اس کی برسی پہ سنائے جاتے ہیں- ستار، طبلہ، ڈھولکی، گھڑا، بانسری اور نجانے کیا کیا آلاتِ موسیقی بجائے جاتے ہیں اور مرنے والے کی شان میں قصیدے اور نوحے پڑھے جاتے ہیں- موت کی بے ثباتی کو یاد کرنے کے لیے غم و الم والے اشعار بھی سناتے ہیں- اس روایت اور اس ثقافت کا سننا بڑا دلچسپ واقعہ تھا- ہم بھی ڈھلتے سورج کی پرواہ کیے بغیر کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے اس کے چھوٹے بیٹے کی گھڑے کی ماہرانہ پرفارمنس اور پوٹھوہاری شاعری کے ساتھ ساتھ ستار سے لطف اندوز ہوتے رہے- آس پاس کے لوگ اور بچے اپنی اپنی چھتوں پہ چڑھے ہمیں دیکھنے میں محو رہے- ہم جولائی کی تپتی سہ پہر ایک دھریک کی چھاؤں میں چوپالوں کی کُھرلی کے پاس بیٹھے لوک موسیقی اور خطہ پوٹھوہار کی شاعری سے محظوظ ہوتے رہے- گاؤں کے لوگ انتہائی پژمردگی کا شکار تھے- تعلیم کم، روزگار نِشتہ، سہولیات مفقود، شعور ناپید اور جدید مادی وسائل، گویا تھے ہی نہیں- ہم نے چائے پی- انہوں نے دوبارہ آنے پر ضیافت کا اہتمام کرنے کا وعدہ کیا اور اس کے ساتھ ہی ہم پہاڑیوں، وادیوں کی پُرپیچ پگڈنڈیوں میں اُتر آئے- گھر آ کر معلوم ہوا کہ ہم نے 200 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے جو ریکارڈنگز کی تھیں، ان سب میں مائیک آف تھا-
Browse More Urdu Literature Articles
جب مسجد نبوی کے مینار نظر آئے
Jab Masjid E Nabvi Ke Minar Nazar Aaye
وہ جو طُور ہے بہت دور ہے
Wo Ju Tor Hai Buhat Dour Hai
سفرِ کعبہ
Safr E Kabba
لاہور سے نتھیا گلی
Lahore Se NathiyaGali
کراچی سے کھٹمنڈو : دو دن کا ہوائی سفر
Karachi Se Khatmandu - 2 Din Ka Hawai Safar
قلعہ سِنگھنی، گوجر خان
Qilla Singhni - Gujjar Khan
یادیں سفر حجاز کی۔آخری قسط
Yaadain Safr E Hijaz Ki - Last Qist
کراچی کا سفر - پانچویں قسط
Karachi Ka Safar - 5th Episode
یادیں سفر حجاز کی۔ قسط نمبر 7
Yaadain Safr E Hijaz Ki - Qist 7
یادیں سفر حجاز کی۔قسط 6
Yaadain Safr E Hijaz Ki - Qist 6
سفر حجاز: ایک ہندو جو مدینہ یونیورسٹی اور مسجد نبوی کا معلم بن گیا۔(قسط نمبر 4 )
Safar E Hijaz - Qist 4
کُسک فورٹ، چکوال
Kusak Fort Chakwal