Bhalwal Se Wakhnangan Episode 4 ... Sindy Se SindhaRi Tak - Article No. 1373

Bhalwal Se Wakhnangan Episode 4 ... Sindy Se SindhaRi Tak

بھلوال سے واخننگن قسط 4 ۔۔۔۔ سِنڈی سے سِندھڑی تک - تحریر نمبر 1373

لنچ کا وقفہ ہی ہمارے لئے رونقِ رنگ و بُو لئے ہوتا جہاں سِنڈی کی چہک ہوتی اور اَنا کی مہک۔ سِنڈی سپینش تھی، جوان تھی، خوبصورت تھی، طرار تھی اور جانتی تھی کہ کس کو کہاں تک ڈھیل دینی ہے اور کب طنابیں کھینچنی ہیں۔ آتے جاتے ماسی مارگریٹ کی نظریں بچا کر کوئی ایسی بات کر جاتی کہ کانوں کی لویں تک سرخ ہو جاتیں

Zaheer Paracha ظہیر پراچہ جمعہ 14 جولائی 2017

بھلوال سے نکلے تو مِنہاجی چوکھٹ پر سجدہ ریز ماتھے سے جان چھڑا کر تھے مگر یہاں آتے ہی لینڈ ڈرینیج کی پانچ کلو وزنی کتاب تھما کر آٹھ سے پانچ تک کورس کے ریڑھے میں جوت دیئے گئے۔ شام کو فارغ ہوتے تو تکان دور کرنے کافی کا ایک کپ پیتے پیتے گنتی کی دکانوں پر مشتمل بازار اجڑ چکا ہوتا۔ مٹر گشت کے لئے نکلتے تو گلی کی جس کھڑکی میں جھانکتے ایک ہی منظر نظر آتا، ایک بڈھا ایک بڈھی، گود میں اپنا اپنا کتا یا بلی اور ہاتھوں میں کتاب، ایک دوسرے کی موجودگی سے بے خبر، مطالعے میں مگن۔
شام سات بجے کے بعد یوں لگتا شہر کا شہر قبروں میں ڈھل گیا ہے۔ شور نہ شرابا، لڑائی نہ جھگڑا، گالی نہ گلوچ، برتنوں کا کھڑک نہ اِشتہا انگیز مہک۔ انجم کہتا کیا ہم یہی کچھ دیکھنے اتنی دور سے آئے ہیں، معلوم نہیں اس شہر کی مہ وشیں کہاں مر گئی ہیں۔

(جاری ہے)

اکلوتے کامن روم کا رخ کرتے تو افریقی بھینسیں ٹانگیں پسارے ریموٹ پر قبضہ جمائے دنیا و مافیہا سے بے خبر سفاری میں خود کو دیکھنے میں مگن ہوتیں اور ہم چینل بدلنے کی خواہش دل میں دبائے الٹے پھر آتے، درِ ٹی وی اگر وا نہ ہوا۔

ایسے میں لنچ کا وقفہ ہی ہمارے لئے رونقِ رنگ و بُو لئے ہوتا جہاں سِنڈی کی چہک ہوتی اور اَنا کی مہک۔ سِنڈی سپینش تھی، جوان تھی، خوبصورت تھی، طرار تھی اور جانتی تھی کہ کس کو کہاں تک ڈھیل دینی ہے اور کب طنابیں کھینچنی ہیں۔ آتے جاتے ماسی مارگریٹ کی نظریں بچا کر کوئی ایسی بات کر جاتی کہ کانوں کی لویں تک سرخ ہو جاتیں۔ ایک دن علی الصبح ڈاکٹر کی اپائنٹمنٹ کے لئے جا رہا تھا کہ اس نے مین گیٹ پر ایک جھانویں سے ڈچ سے بطور شوہر تعارف کرایا، وہ خود جتنی طرحدار تھی اس کا نام نہاد شوہر اتنا ہی مردم بے زار۔
میں نے اس بات کو انجم سے پوشیدہ رکھا۔ سِنڈی کے کھُلے ڈُلّے جملوں کا حوالہ دے کر ہلا شیری دی، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے، ماحول بھی ہے، سائبیریا کو بھول کر ہسپانیہ پر اپنی نِشاۃِ ثانیہ بحال کرنے کے لئے وقت سازگار ہے۔ بات انجم کے دل کو لگی۔ موقع بھی جلد ہی آگیا۔ ایک شام بازار میں کوئی میلہ لگا تھا، "زندگی میلہ ہے، میلے میں قرینہ کیسا، اتنا محتاط ہی جینا ہے تو جینا کیسا" کے مصداق ہم بھی بغیر کسی قرینے کے میلہ لوٹ رہے تھے کہ کسی نے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
یہ سِنڈی تھی جو ہماری طرح میلہ لوٹنے آئی تھی۔ اس روز سردی بھی غضب کی تھی، کافی کی طلب بھی ہو رہی تھی۔ سنڈی کو اکیلا پا کر ہم اسے چوک میں بنی میک شفٹ قسم کی کافی شاپ لے آئے۔ کوزی ماحول میں اس نے جیکٹ اتاری تو سرسوں کے پھول رنگے فراک میں بالکل سندھڑی آم کی طرح لگی، وہی رنگ روپ، وہی مہک، وہی مٹھاس۔ میں نے کہا "سِندھڑی، آج تو بڑی ظالم لگ رہی ہو۔
" کہنے لگی "ظلم اور جبر کی بات چھوڑو، یہ بتاوٴ تمہیں میرا نام کس نے بتایا۔" میں نے کہا "تمہارے رنگ، تمہارے روپ اور تمہارے بھیس نے۔" بولی "وہ بھی یہی کہتا تھا۔ یہ تم سب پاکستانی ایک جیسی باتیں کرتے ہو اور ۔ ۔ ۔"، "وہ کون؟"، "وہی تمہارا ہم وطن، جس نے میرے لئے سندھڑی آم منگوائے تھے، کیا ذائقہ تھا، کیا خوشبو تھی۔ ایک ہمارے آم ہیں نہ سونگھنے میں اچھے نہ کھانے میں۔
" انجم اس وقت تو چپ رہا لیکن ایک ہفتے بعد اسے ایک پرچی پکڑاتا دیکھا گیا۔ پوچھا تو بات گول کر گیا۔ یہ تو تب کھلا جب ایک دن سِنڈی اُبلے چاولوں کی طشتری پکڑاتے آہستہ سے بولی "تمہاری پیٹی کب آ رہی ہے؟"، "کیسی پیٹی؟"،"سِندھڑی آموں کی، پہلی ختم ہو گئی ہے، انجم نے بتایا ہے کہ اب تمہاری آنے والی ہے۔"، "اوہ، وہ تو میں بھول ہی گیا، تمہیں بتانا، موسم کب کا گزر گیا ہے، اب آتے موسم کا انتظار کرو اور ہاں وہ پہلے والی پیٹی کیسی تھی؟۔
"، "زبردست"۔ اسے کیا بتاتا ہم تو بس باتوں کے مجنوں ہیں۔ سِنڈی بظاہر تو سبھی کے ساتھ ایک جیسا سلوک روا رکھتی تھی۔ ہر زبان کے چند لفظ اس نے پلو میں باندھ رکھے تھے جو موقع پا کر لٹاتی رہتی، لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ All are equal but some are more equal، کبھی کبھی لگتا جیسے ہم پاکستانیوں کو اس کے اِلتفات کا شئرے کچھ زیادہ ہی مل جاتا ہے۔ اب کھلا اس میں ہمارا نہیں بہشتی ثمر کا کمال زیادہ تھا۔
ایک دن ہم لنچ کے لئے لیٹ ہو گئے، رش کم ہو گیا تھا، ماسی بھی چھٹی پر تھی، سِنڈی نے ایک نئے آنے والے پاکستانی کو، جو اپنے دھیان میں حسب نسب دیکھے بغیر ایک ڈونگے کی طرف بڑھ رہا تھا، اپنے مخصوص سٹائل میں "اوئے بھین۔۔ کیا کر رہے ہو، یہ مت لینا، یہ پورک ہے"، کہہ دیا۔ اس سے پہلے کہ وہ سمجھتا اور بات بگڑ جاتی انجم نے بات سنبھال لی۔ اس روز مجھے سنڈی کی زبان دانی اور سیکھنے کی صلاحیت کا صحیح اندازہ ہوا۔
اس کا اعتراف کرتے ہوئے میں نے اسے مشورہ دیا، "انگلش، ڈچ، سپینش جانتی ہو۔ پنجابی، اردو میں بھی منہ مار لیتی ہو۔ کیوں اپنے آپ کو یہاں ضائع کر رہی ہو؟ سرو کرنا اور لبھانا تمہیں آتا ہے، تمہاری جگہ تو کسی ایئرلائن میں ہے۔" بات اس کے دل کو لگی، کہنے لگی "تو پھر دلوا دو ایئر ہوسٹس کی جاب"۔ انجم یہاں سے بھی مایوس ہو چکا تھا، میری جانب اشارہ کرکے بولا "اس کا ایک عزیز وزیر ہے اور چاچا پی آئی اے کا ڈائریکٹر، یہ تمہیں جاب دلوا سکتا ہے"۔
انجم نے ایک ہی وار میں سارے بدلے چکا لئے۔ اب میں سنڈی کو کیا بتاتا کہ میرا کوئی ہوائی چاچا نہیں ہے۔ اصلی والے دو ہی ہیں۔ ایک ان تِلوں سے بھی تیل نکلوا لیتا ہے جن میں ہوتا ہی نہیں ہے جبکہ دوسرا ان کھڈیوں کی موسیقی سنتا رہتا ہے جن میں امین دھاگے کو بنیانی کپڑے میں ڈھالتا رہتا ہے۔ انجم کی بات رکھنے کو میں نے اس خیال سے اسے درخواست لکھنے کو کہہ دیا کہ دو ماہ گزرتے کون سی صدیاں لگیں گی۔
دو ماہ بعد ہم ہوں گے یا ماتھا پھوڑنے کو مِنہاجی چوکھٹ، مگر تب کسے معلوم تھا کہ اتنی آسانی سے نجات کا سامان ہو جائے گا۔ سنڈی شاید اب بھی پی آئی اے کی کال اور سندھڑی آموں کی منتظر ہو گی اور اس کی درخواست کہیں میرے کاغذوں میں اپنے ہونے کا جواز لئے ہو گی۔ اسی بہانے سہی کبھی کبھی یاد تو کر لیتی ہو گی۔ مگر اب کیا فائدہ کہ ہم تو ہیں پردیس میں اور اُس دیس میں نکلا ہو گا چاند۔

Browse More Urdu Literature Articles