Ankahi Dastanain - Colonel Retired Saleem Malik - 3rd Qist - Article No. 2280

Ankahi Dastanain - Colonel Retired Saleem Malik - 3rd Qist

ان کہی داستانیں ۔ تقسیمِ ہند 1947ء (کرنل ریٹائرڈمحمد سلیم ملک ۔ لاہور) ۔ تیسری قسط - تحریر نمبر 2280

کرنل صاحب تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اُس وقت لارڈ ویول وائسرائے ہند تھا اُس نے اِس بغاوت کے بعد اپنی حکومت سے کہا کہ اب ہندوستان میں رہنا مشکل ہوگیا ہے

Dr Mariam Chughtai ڈاکڑ مریم چغتائی جمعرات 12 مارچ 2020

جناب کرنل محمد سلیم صاحب کی کہانی کی دوسری قسط میں حالات خضر حیات ٹوانہ کے مارچ 1947ء میں استعفیٰ تک پہنچے تھے۔ کرنل صاحب تقسیم ِ ہند اور قیامِ پاکستان کی تحریک میں خواتین کے کردار کو بہت سراہتے ہیں ۔ کرنل صاحب اُس وقت کے حالات اور قائدِ اعظم کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قائداعظم محمد علی جناح نے ہمیں تنبیہ کی اور حکم دیا کہ ہم نے کوئی ایسا کام نہیں کرنا جو خلاف قانون ہو ۔
یہ نہ ہو کہ اتنی محنت سے حاصل کیا گیا مقام کسی غلطی کی وجہ سے ضائع ہو جائے۔ ابھی یہ سب چل رہا تھا کہ ہمیں خبر ملی کہ بمبئی میں نیوی نے بغاوت کردی ہے۔ بغاوت کی وجہ یہ تھی کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد برٹش فوج سے یہ کہا گیا کہ جنگ کے بعد اُن کوچھٹی پر بھیج دیا جائے گا مگر اتنے عرصہ گزرنے کے بعد بھی اُن کو چھٹی نہ دی گئی جس پرانہوں نے جنوری کے مہینہ میں بغاوت کر دی اور اُن کے دیکھا دیکھی مسلمان نیوی نے بھی بغاوت کردی۔

(جاری ہے)

قائدِاعظم محمد علی جناح نے مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کو منع کر دیا کہ کوئی بھی کسی بغاوت والے کے ساتھ رابطہ نہیں کرے گا۔ بغاوت کرنے والے لوگ اپنی فوج کا حکم مانیں اور اگر اُن کے کوئی تحفظات ہیں تو وہ مجھے بتائیں میں اُن کا کیس لڑوں گا۔ جس نے بھی لڑنا ہے وہ قانونی لڑائی لڑے۔ اِس کے بعد برٹش نے اپنی برٹش انڈیا کی فوج بھیجی توانہوں نے فائر کرنے سے انکار کر دیا پھر گورکھا فوج بھیجی انہوں نے بھی انکار کر دیا۔
اِس کے بعد برٹش گورنمنٹ نے اپنی برٹش فوج بھیجی ۔ اِس فوج نے بمبئی ، کراچی اور مدراس میں بغاوت کو ختم کیا۔
کرنل صاحب تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اُس وقت لارڈ ویول وائسرائے ہند تھا اُس نے اِس بغاوت کے بعد اپنی حکومت سے کہا کہ اب ہندوستان میں رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ 1946ء کی بات ہے کہ جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کوشش کی کہ اُسے کینیڈا کا وائسرائے بنا دیا جائے۔
چونکہ کینیڈین انگریز تھے اور وہ جانتے تھے کہ یہ ایک نالائق انسان ہے جس کی وجہ سے ہالینڈ اور بیلجئم میں کینیڈا کے بہت فوجی مارے گئے تھے اِس لئے انہوں نے اِس فیصلے کی بہت مخالفت کی اور اسے وائسرائے نہ بننے دیا۔ چونکہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن شاہی خاندان سے تھا اِس لئے اُسے جاپان کے سرنڈر کرنے کے بعد وہاں کا کمانڈر اِن چیف بنا دیا گیا۔
وہاں پہنچ کر اُس نے جواہر لال نہرو کو دورے کی دعوت دی ۔
یہ دعوت تو سرکاری طور پر دی گئی تھی مگر اصل بات یہ تھی کہ وہ نہرو خاندان سے روابط پیدا کرکے وائسرائے ہند کے طور پر آنا چاہتا تھا۔ نہرو کو وہاں پہنچنے پر بہت پروٹوکول دیاگیا۔ لیکن یہاں بھی ایک ایسا واقعہ پیش آگیا جس نے نہ صرف ماونٹ بیٹن بلکہ سلطنتِ برطانیہ کو بھی پریشان کر دیا۔ جس وقت نہرو وہاں پہنچا تو اُس کو سکھ رجمنٹ سے گارڈ آف آنر دلوایاگیا اور پھرنہرو کو ملوانے کے لئے پانچ یا چھ صوبیدار میجر وہاں کھڑے کئے گئے۔
جن میں سے دو مسلمان اور باقی ہندو اور سکھ تھے۔ اُسی وقت جب وہ نہرو کو ملے تو اُن ہندو اور سکھ صوبیدار میجروں نے جے ہند کا نعرہ لگا دیا جس کے جواب میں مسلمان صوبیدار میجروں نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا دیا۔ برٹش فوج میں جے ہند نعرہ ممنوع تھا۔ یہ بات پوری فوج کو ہلا دینے کے لئے کافی تھی۔ اِس واقعہ کے بعد اِن فوجیوں کو گرفتار کر لیا گیا اور کسی بڑے حادثے سے بچنے کے لئے اِن لوگوں کو خاموشی سے ریٹائر کر دیا گیا۔

یہ ہماری بد قسمتی تھی کہ لارڈ ماونٹ بیٹن ہی مارچ 1947ء کو وائسرائے ہند بن کر آگیا۔ لارڈ ماونٹ بیٹن کے وائسرائے بننے کے بعد ایک دفعہ وہ پنڈی آیا۔ راولپنڈی کے قریب ایک جگہ کہوٹہ ہے جہاں سکھوں کے کچھ گاوں ہوا کرتے تھے۔ ماونٹ بیٹن کے آنے سے پہلے کانگرس نے سکھوں کو چار پانچ کروڑروپے دئے کہ جس دِن لارڈ ماونٹ بیٹن پنڈی آئے گا اُس دن تم لوگ اپنے گھروں کو آگ لگا دو۔
جیسے ہی ماونٹ بیٹن پنڈی پہنچا سکھوں نے اپنے گھروں کو آگ لگا دی اور الزام مسلمانوں پر لگا دیا کہ دیکھو مسلمان ہم پر کتنا ظلم کررہے ہیں۔ اِس طرح ہندوں نے سکھوں کو تقسیم کے لئے استعمال کیا۔

اگر ہم اُس وقت پنجاب کی آبادی کا حساب دیکھیں تو 54 فیصد آبادی مسلمانوں کی تھی 15 فیصد سکھوں کی اور 29 فیصد ہندوں کی آبادی تھی۔ اِس حساب سے اگر سکھ ہمارے ساتھ شامل ہو جاتے تو 70 فیصد پنجاب پاکستان میں شامل ہو جانا تھا۔
ماسٹر تارا سنگھ خود کو انگریز کی کچن کابینہ کا اہم رکن کہتا تھا۔
اسی کی زبانی میں نے ایک دفعہ سنا کہ :
" وہ لائین جو دس سے پندرہ میل دہلی سے دور ہونی تھی ہم نے بغیر کسی قانون کے اُسے لاہور سے پندرہ میل دور کر دیا ہے"
اِسی سے اندازہ کر لیں کہ تقسیم کے وقت مسلمانوں سے کتنی زیادتی کی گئی۔ جہاں تک عمومی رائے کا تعلق تھا تو پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگِ عظیم کی فاتح انڈین آرمی کو کہا جاتا تھا۔
لیکن اِس کی پیچھے چھپی ایک حقیقت تھی کہ 66 فیصد فوج مسلمانوں پر مشتمل تھی مگر جتنے بھی بڑے عہدے تھے وہ ہندوں اور سکھوں کے پاس تھے۔ اِسی پسِ منظر میں مجھے ایک بات یاد آئی کہ یہ جولائی کا شاید آخری ہفتہ تھا ۔ جی ایچ کیو میں انڈین آرمی کے جو مسلمان پاکستان آرمی میں آرہے تھے اُن کو رخصت کرنے کی تقریب رکھی گئی تھی۔
حضرت قائدِ اعظم محمد علی جناح کو جب پتا چلا کہ یہ تقریب رکھی گئی ہے تو انہوں نے چوہدری محمد علی سے تقریب میں اپنی شرکت کا دعوت نامہ منگوایااور تقریب میں تشریف لے گئے۔
اُس تقریب میں انگریز فوج کے تمام میجر جنرل اور تمام بڑے عہدوں کے لوگ مدعو تھے ۔ یہاں تک کہ جو لوگ ریٹائر ہو گئے تھے وہ بھی آئے ہوئے تھے۔ یہ سب لوگ قائد اعظم کو منانے کی کوشش کر رہے تھے کہ انڈین آرمی کو تقسیم نہ کیا جائے۔ یہاں قائدِاعظم نے اُن لوگوں سے کہا کہ یہ انڈین آرمی سے مسلمانوں کی رخصت کی تقریب ہے اور انڈین آرمی 66 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
اتنی بڑی آرمی میں سے صرف پانچ افسر ہماری طرف جا رہے ہیں۔ کیا یہ ناانصافی نہیں ہے؟ یہاں پر قائد اعظم نے سب کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر آپ نے مسلمانوں کے ساتھ اِس طرح کی ناانصافیاں نہ کی ہوتی تومسلمانوں کو تقسیم کی کیا ضرورت تھی ۔ اِس بات کا جواب کسی کے پاس نہ تھا۔ کرنل صاحب کے بتائے ہوئے واقعات سے میں یہ سمجھتی ہوں کہ قائدِاعظم ایک انتہائی زِیرک انسان تھے جو برطانوی قانون کو بھی بہت اچھے سے جانتے تھے اور وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے بہت باریک بینی سے حالات کا جائزہ لیتے تھے۔
یہ اُن کی قیادت اور رہنمائی ہی تھی جس نے برصغیر کے بکھرے ہوئے مسلمانوں کو اکھٹا کر دیا۔
کرنل صاحب نے مزید آگے کے حالات کو یاد کرتے ہوئے بتایاکہ چوہدری محمد علی پارٹیشن کمیٹی کے ممبر تھے۔ ایک دفعہ اُن کے پاس کچھ انگریز افسر آگئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں مسٹر جناح سے ٹائم لے کر دو۔ چوہدری محمد علی نے کہا کہ میں کوشش کروں گا لیکن وعدہ نہیں کر سکتا کیونکہ آج کل میٹنگز بہت زیادہ ہیں۔
کانگرس کے پاس تو بہت لیڈر ہیں جوآپس میں بانٹ کر کام کر رہے ہیں مگر قائدِاعظم اکیلے ہیں جو ہر میٹنگ اٹینڈ کر تے ہیں۔ چوہدری محمد علی کے پوچھنے پر انہوں نے میٹنگ کا موضوع بتایا اور کہا کہ چاہے آپ ملک تقسیم کر لو مگر فوج کو تقسیم نہ کرو۔جس پر چوہدری محمد علی بولے کہ قائدِاعظم پہلے ہی کہ چکے ہیں کہ اگر مجھے میری فوج نہ دی گئی تو میں یہ تقسیم قبول نہیں کروں گا۔
اِس پر ایک افسر نے آگے بڑھ کر کہا کہ :
Sir! Then inform your Mr. Jinnah, we will prefer to takeover India and Pakistan than to be divided.
" سر! پھر اپنے جناح کو بتا دیں کہ ہم تقسیم کر نے کی بجائے انڈیا اور پاکستان کواپنے کنٹرول میں رکھنے کو ترجیح دیں گے ۔"
ماونٹ بیٹن کی ہر ممکن کوشش تھی کہ کسی طرح سے فوج کی تقسیم کو روکا جائے۔ سکھوں کو کرپان رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔
مئی 1947ء کو جب تقسیم کا اعلان ہو چکا تھا اُسی وقت ماونٹ بیٹن نے سکھوں کو کرپان رکھنے کی اجازت دینے کا قانون اسمبلی سے پاس کروادیا۔ ماونٹ بیٹن کا ہر اقدام پاکستان کے خلاف تھا۔ یہاں تک کہ مسلم لیگ نے اُس کا نام ہی پنڈت ماونٹ بیٹن رکھ دیا تھا۔
15اگست 1947ء کو جب انڈیا کے لوگوں نے لال قلعے میں حلف لیا تو میڈیا کے لوگوں نے گاندہی جی، جواہر لال نہرو اور ماونٹ بیٹن کو گھیر لیا اور سوال

کیا کہ تم تو کہتے تھے کہ تقسیم نہیں ہو گی۔
تو اِس پر ماونٹ بیٹن نے کہا کہ آپ دیکھ لینا پاکستان چھ ماہ بھی نہیں نکال سکے گا۔ چھ ماہ بعد لوگوں نے کہنا شروع کر
دیا کہ پاکستان تو اپنی جگہ پر کھڑا ہے تواُس کا جواب تھاکہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ پوری دنیا کی ایجنسیز کی رپورٹ تھی کہ پاکستان انڈیا کے مقابلے میں
زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتا۔ قائدِاعظم محمد علی جناح نے برٹش گورنمنٹ سے درخواست کی کہ کسی جنرل سے کہیں کہ مجھے پاکستان کے دفاع پر کوئی پیپر لکھ کر دیں۔
انہوں نے وار آفس کے چیف آف جنرل سٹاف کو بھیجا اور کہا جناح صاحب کو پیپر لکھ کر دو۔ وہ پاکستان آیا اور کراچی ، راولپنڈی اور انڈیا گیا اور دس پندرہ دن میں رپورٹ تیار کرکے لے آیا۔ قائدِاعظم نے کہا کہ میں یہ رپورٹ کل آپ سے ڈسکس کروں گا۔
اگلے دن قائدِاعظم نے اُس کے ساتھ چھ سے آٹھ گھنٹے رپورٹ کو ڈسکس کیا۔ اُس رپورٹ میں یہ لکھا تھا کہ پاکستان زیادہ دیر تک اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکے گا۔
اِس کو کسی طاقت کے مرہونِ منت ہونا پڑے گا۔ چھ گھنٹے کی میٹنگ کے بعد وہ قائدِاعظم کو قائل نہ کر سکا۔ قائد اعظم نے اُس سے کہا!
"General! I am thankful to you. You have spent so much time in preparing the report. You have discussed this thing with me but I am sorry I am not convinced. And you remember one thing, those who have made it, they will defend it."
جنرل! میں آپ کا شکر گزار ہو ں۔ اِس رپورٹ کو بنانے میں آپ کا کافی ٹائم لگا۔ آپ نے میرے ساتھ مل کر اِس کا جائزہ لیا لیکن مجھے افسوس ہے کہ آپ مجھے قائل نہیں کر سکے۔ اورآپ یاد رکھئے گا جنہوں نے اِس کو بنایا ہے وہ اِس کا دفاع بھی کریں گے۔
آج الحمدُاللہ دشمن کی سازشوں کے باوجودپاکستان نہ صرف قائم و دائم ہے بلکہ اپنے سفر کی جانب گامزن ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles