Taqseem E Hind Maazi Ke Jharooko Se Jhankana Or Ane Wali Nasloo Ko Agah Karna - Article No. 1834

Taqseem E Hind Maazi Ke Jharooko Se Jhankana Or Ane Wali Nasloo Ko Agah Karna

تقسیمِ ہند ۔ ماضی کے جھروکوں سے جھانکنا اورآنے والی نسلوں کو آگاہ کرنا - تحریر نمبر 1834

ہندوستان کی تاریخ مختلف ثقافتوں،مذاہب، عقائد ، مختلف خیالات اور قدیم تہذیبوں کے امتزاج سے بھری پڑی ہے۔مگر 1947ء کی تقسیم نے یہاں کے باشندوں کی زندگی ، ثقافت اور سیاست پر بہت گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔

Dr Mariam Chughtai ڈاکڑ مریم چغتائی ہفتہ 22 دسمبر 2018

ہندوستان کی تاریخ مختلف ثقافتوں،مذاہب، عقائد ، مختلف خیالات اور قدیم تہذیبوں کے امتزاج سے بھری پڑی ہے۔مگر 1947ء کی تقسیم نے یہاں کے باشندوں کی زندگی ، ثقافت اور سیاست پر بہت گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ہندوستان کی عوام کی طرف سے شروع کی گئی آزادی کی جدوجہد بلاآخرپاکستان اور انڈیا کی تخلیق پر منتج ہوئی۔ 2 اگست 1947ء کو تقسیمِ ہند کا اعلان ہوا اور پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔

14 اگست 2017ء کو پاکستان کو بنے ہوئے 70سال ہو گئے ہیں۔ یہ تقسیم انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت میں شمار کی جاتی ہے۔تقسیمِ ہندکے ساتھ ہی انگریزوں کے 300 سالہ قبضے کا بھی اختتام ہو گیا۔اپنے دور کے اختتام سے پہلے انگریزوں نے اِس خطے کو دو آزاد قوموں میں تقسیم کر دیا۔ اور یہ طے پایا کہ مسلمانوں کی اکثریت والے علاقے مسلمانوں کودے دئیے جائیں اور جہاں ہندوں کی اکثریت ہے اُن علاقوں کو ہندوں کے حوالے کر دیاجائے۔

(جاری ہے)

اِس طرح دو علیحدہ مملکتوں کا قیام عمل میں آیا۔مسلمانوں نے اپنی مملکت کا نام پاکستان رکھا جبکہ ہندوں کی اکثریت والی مملکت کا نام انڈیا رکھاگیا۔ اچانک تقسیم کی وجہ سے لاکھوں مسلمانوں کو مشرقی اور مغربی پاکستان میں ہجرت کرنی پڑی۔اور اسی طرح ہندوں اور سکھوں کو ایک نئے ملک انڈیا میں جانا پڑا۔ اچانک تقسیم پُر تشدد بحران میں تبدیل ہوگئی۔
یہ تحریک اپنے اندر بہت سی تلخ یادیں اور حقائق چھپائے ہوئے ہے۔1947ء کی تقسیم ہندکا موضوع ایک وسیع موضوع ہے۔ سیاسیات ،سوشل ہسٹری،لٹریچر،میڈیا اور خواتین کی تعلیم کے اعتبار سے یہ تقسیم سکالرز کے لیے ایک وسیع مطالعے کا موضوع ہے۔ پچھلے کچھ سالوں سے ہارورڈ یونیورسٹی کے کچھ ممبران تقسیم کے مختلف پہلووٗں پر تحقیق کر رہے ہیں۔2014ء میں اِن تحقیقی موضوعات کو ہارورڈ یونیورسٹی لکشمی مٹل ساوتھ ایشیاء انسٹیٹیوٹ (SAI)کی زیرِ سرپرستی لایا گیا۔
اِس تحقیق کا مقصد اُن حالات اور واقعات کا احاطہ کرنا ہے جن سے دورانِ تقسیم دونوں ملکوں کی اقوام کو گزرنا پڑا۔اِس ہجرت میں کسی قسم کے اعدادوشمار اور مردم شماری کا حساب نہ رکھا جا سکااور ہونے والے جانی اور مالی نقصان کا اندازہ نہ لگایا جا سکا۔اِس ہجرت کے سلسلے میں ہونے والے سماجی، سیاسی، معاشرتی ، معاشی اور حکومتی معاملات ، حالات اور اُن کے نتیجے میں ہونے والے اثرات بالکل الگ الگ تھے۔
بیسویں صدی کے اِس واقعے کے حالات کا تعین کرنے اور اُن کو سمجھنے کے لیے ایک سائنسی بنیادوں پر تحقیق کی ضرورت ہے جس میں تینوں ممالک ، پاکستان ، انڈیا اور بنگلہ دیش کی تاریخ ، پولیٹکل سائنس، شماریات اور بنیادی صحت کے پہلووٗں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔اِسی سلسلے میں "ہارورڈ یونیورسٹی ساوتھ ایشیاء انسٹیٹیوٹ " نے تینوں ممالک میں سروے کروانے کا فیصلہ کیا کہ تینوں ممالک کے لوگ خود کو پیش آنے والے حالات ، مسائل اور مشکلات کو بیان کریں۔
اِس سروے میں لوگوں سے یہ پوچھا گیا کہ تقسیم کے وقت ہندوستان کے حالات اور اُس وقت کا ماحول کیسا تھا ۔ آپس کے تعلقات کیسے تھے۔لوگوں سے پوچھا گیا کہ اُن کو کیسے پتہ چلا کہ آپ کو ہجرت کرنا ہے۔ دورانِ ہجرت کس طرح سفر کیا ، کیا کیا مسائل ، بیماریوں اور حادثات کا سامنا کیا۔لوگوں سے یہ بھی جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ کیا حالات تھے جن کی وجہ سے اتنے لوگوں کو جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
ہمیں اِس بہت بڑے پیمانے پر ہونے والی ہجرت سے پیدا ہونے والے مسائل اور ہجرت کے بعد ہونے والی مشکلات کو جاننے کی کوشش کرنی ہے۔تاکہ ہم اندازہ لگا سکیں کہ اِس طرح سے بڑے پیمانے پر ہونے والی ہجرت کس طرح سے مسائل اور مشکلات کا سبب بنتی ہے۔اِس تحقیق کا ایک اور مقصد بھی ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اُن حالات اور واقعات سے آگاہ کر سکیں کہ یہ وطن کتنی قربانیوں اور مشکلوں سے حاصل کیا گیا تھا۔
اور وہ مقاصد جن کے لیے یہ وطن حاصل کیا گیا کیا ہمیں اُن مقاصد کا علم بھی ہے یا نہیں۔ اِس تحقیق کا طریقہ کار کچھ اِس طرح ہے کہ جو لوگ اِس ہجرت کا حصہ رہے ہیںیا پھر ہجرت کے وقت کے چشم دید گواہ ہیںیا پھر اُن کے قریبی رشتہ داروں نے اُن حالات کا کسی سے ذکر کیا ہے تو وہ آپ بیتی ادارے کے نامزد کردہ نمائندوں کو سنا سکتے ہیں۔ اِس تحقیق میں وہ لوگ بھی حصہ لے سکتے ہیں جن کے ماں، باپ یا قریبی رشتے داروں نے یہ ہجرت کا وقت دیکھا ہو۔
اور انہیں اُن کے ہجرت کے واقعات کا علم ہے تو وہ لوگ بھی اُن کے تعلق سے کہانی کا اندراج کروا سکتے ہیں۔ہمیں چاہئے کہ ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں تک رسائی حاصل کریں اور اُن داستانوں کو محفوظ کرنے کی کوشش کریں جو کہ کچھ عرصہ بعد ہم میں نہ رہیں گی۔ہجرت میں شامل ہر فرد تاریخ کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔آئیں اپنی آنے والی نسلوں کو اِس عظیم واقعہ سے آگاہ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ کہانی سنانے کے لیے آپ ہارورڈ ساؤتھ ایشیا انسٹیٹیوٹ کی ویب سائٹ پرجا کر خود بھی آن لائن جمع کروا سکتے ہیں یا پھر درج ذیل نمبر پر رابطہ کر سکتے ہیں۔ ہمارا نمائدہ آپ سے رابطہ کرلے گا۔

ویب سائٹ: ویب سائٹ کے لیئے یہاں کلک کیجیئے

رابطہ نمبر : 03450287832

Browse More Urdu Literature Articles