Episode 2 - Hayat Mumkin Hai By Sumaira Hamed

قسط نمبر 2 - حیات ممکن ہے - سمیرا حمید

تم نے بُرے کام بھی شروع کر دیئے…؟؟
چھوٹے سے کچن میں کھڑی وہ رات کا کھانا بنا رہی تھی جب وہ اس کا بیگ ہاتھ میں لئے اس کے سامنے آکر چلانے لگا۔
”دیدہ دلیری تو دیکھو… بے شرم ویسے ہی دلیر ہو جاتا ہے“
”جیسے تم ہو…؟؟ وہ اپنا کام کرتی رہی۔“
”مجھے بے شرم کہا… بیگ کو پھینک کر اس نے اس کی گردن دبوچ لی ٹی وی دیکھتا آذر سہم کر کھڑا ہو گیا۔
”تمہیں تمہاری اصلیت بتا رہی ہوں“ اس سے اپنی گردن چھڑوا کر وہ کچن سے باہر آذر کی سمت لپکی۔
”آذر تم اپنے کمرے میں جاؤ میں آتی ہوں۔“ نہ صرف کہا ہاتھ پکڑ کر اس کے کمرے کی طرف دھکیلا بھی وہ جانتی تھی کہ اب یہ تماشا رات گئے تک لگے گا… کتی… گشتی… بہت بار کہا جائے گا۔
”آذر کہیں نہیں جائے گا… اسے بھی معلوم ہو کہ اس کی ماں باہر کیا کیا کرتی ہے“ وہ لپک کر آذر کے پاس آیا اس سے پہلے ہی اس نے اس کا ہاتھ گھسیٹ کر اسے کمرے میں دکھیل کر دروازہ بند کر دیا۔

(جاری ہے)

”اس کی ماں سولہ سے اٹھارہ گھنٹے کام کرتی ہے باہر… یہ بتاؤں اسے…؟؟ یا یہ کہ اس کا باپ سولہ منٹ کام کرکے کما کر نہیں لا سکتا،اُسے کھلانا تو دور کی بات ہے“ وہ واپس کچن کاؤنٹر کے پیچھے آکر سبزی کاٹنے لگی۔
”یہ کیا ہے…؟؟ نادر نے رسید اس کی آنکھوں کے آگے لہرائی جیسے چوری پکڑ لی ہو… رسید تو یہ ہے انگوٹھی کہاں ہے؟؟
اسے عادت تھی اس کا بیگ… اس کی الماری… گرم کوٹ کی جبیں… جوتوں کے ڈبے… حتیٰ کہ کچن میں رکھی ڈسٹ بن تک چیک کرنے کی… جب وہ بالکل خالی جیب ہو جاتا تو گھر کی ہر چیز سونگھتا پھرتا… تکیے اور کشن پھاڑ ڈالتا۔
”کس یار نے لے کر دی ہے یہ“
”تمہیں یقینا یار کی تو فکر نہیں ہوگی… فکر تو تمہیں انگوٹھی کی ہے… ہے نا…؟؟
اس بات نے اسے اور طیش دلایا اس نے اس کی کمر پر زور سے ایک لات ماری۔
”بتا حرامکی… کس نے لے کر دی ہے“ دو پنجابی اور تین چار انگلش گالیاں بھی ساتھ روانی سے شامل کی،لاتوں کی برسات کر دی اس پر… کمر پر دونوں ہاتھ ٹکائے وہ زمین پر ادھ موئی گر سی گئی۔
”گوگی کی تھی… آج وہ میرے ساتھ خریداری کرنے گئی تھی،اُس کے پاس سامان بہت تھا… اسی نے میرے بیگ میں رکھ دی۔
”تو انگوٹھی اس نے نکال لی اور رسید تجھے پکڑا گئی…؟؟ الو کا پٹھا سمجھ رکھا ہے نا مجھے… اپنے باپ کی طرح جو تیری کمائی بھی کھاتا ہے اور غیرت کا رونا بھی روتا رہتا ہے۔
”جاتے ہوئے وہ انگوٹھی لے گئی تھی نادر… رسید جانے کیسے رہ گئی بیگ میں ہی… گوگی سے فون کرکے پوچھ لو…“ وہ زمین پر ہی سمٹ کر اس سے ذرا سی دور کھسک گئی جواب تو وہ اسے دے دیتی تھی لیکن اس کی مار سے بہت ڈرتی تھی۔
”مجھے یہ کہانی مت سنا… کہا نا الو نہ سمجھ… صرف اتنا بتا کہ یہ کس نے لے کر دی… تیرا کیا خیال میں جانتا نہیں کہ وہ کمپنی کا ڈرائیور اور تو کیا کیا کرتے پھرتے ہو۔“
”وہ میرا بھائی بنا ہوا… کچھ شرم کرو نادر“
”تم جیسی عورتیں بھائی ہی بناتی ہیں بہت بھائی بنا رکھے ہونگے اور بھی… کمپنی میں،سٹور میں… اس بلڈنگ میں آتے جاتے… راستوں میں بننے والے تو ہزاروں ہونگے۔
”جیسے تم نے اپنی کئی بہنیں بنا رکھی ہے؟؟“
ہاں! بنا رکھی ہیں ”وہ حلق کے بل دھاڑا، وہ کیوں آواز دھیمی کرتا۔“
”میرے قریب نہ آنا نادر… میں پولیس کو فون کر دونگی…“
”پولیس… کر پولیس کو فون… لے کر…“ اپنا وزنی شوز اس نے اس کے منہ پر دے مارا… اور کھڑا کھڑا مارتا ہی رہا۔ ”آج تو کر ہی لے اپنا شوق پورا… جا… جاکر… دو کوڑی کی… ذلیل عورت… خصم کے ہوتے باہر خصم ڈھونڈتی ہے… بدمعاش … بدکردار… غلیظ نسل کی…
مارتے مارتے جب وہ تھک گیا تو رسید ہاتھ میں لئے آذر کے کمرے میں آ گیا اور کمرے کا دروازہ بند کر لیا… آذر پہلے ہی ان کی آوازوں سے سہما بیٹھا تھا۔
”یہ دیکھو آذر! نادر نے آذر کو گود میں بٹھایا اس کے گال چومے اور رسید اس کے ہاتھ میں دی۔“ تمہاری ماں نے اتنے بہت سارے پیسوں کی خریداری کی ہے… بہت مہنگی مہنگی چیزیں لی ہیں… یہ سب اسے اس کے دوست نے لے کر دی ہیں… ایک مرد دوست نے… آج میں نے پوچھا کہ وہ آدمی کون تھا تو لڑنے لگی… میں اسے سمجھا رہا تھا… آذر ہمارا مذہب مردوں سے دوستی کرنے کے خلاف ہے… وہ عورت کو ایسی آزادی نہیں دیتا ایسی عورت کو بدکردار کہتے ہیں… گندے کردار والی۔
سات سالہ آذر سر اٹھا کر حیرت سے اپنے پاپا کی طرف دیکھ کر یہ سب سن رہا تھا۔
”دروازہ کھولو نادر… خدا کیلئے بچے پر رحم کرو… منہ سے خون صاف کرکے فریال آذر کے کمرے کا دروازہ دھڑ دھڑانے لگی“ وہ نفسیاتی مریض بن جائے گا اپنے بچے پر تو رحم کرو نادر…
”اسے تمہارے کرتوت بتا رہا ہوں…“ نادر چلایا۔
”خدا کیلئے نادر ہمارے بچے پر رحم کرو… میں تمہاری منت کرتی ہوں… وہ زارو قطار رونے لگی… ”یہ تمہارا بھی بچہ ہے اسے اچھا انسان بننے دو…
”جسے اچھی ماں نہیں ملی وہ خود کیسے اچھا بن جائے گا…“
”تمہاری ماں تو اچھی تھی نا… تم بھی اس کیلئے اچھے باپ بن جاؤ…“
”میں اچھا ہی باپ ہوں اس کا ،بدکردار تو تم ہو…“
”ایسے لفظ اس کے سامنے نہ بولو کہ مطلب کھوجتے وہ پاگل ہو جائے…“ وہ اور رونے لگی۔
”کیوں تم نہیں چاہتی اسے سب معلوم ہو… وہ…“
نادر نے دروازہ کھولا وہ لپک کر اندر گئی اور آذر کو اٹھا کر اپنے کمرے میں لے آئی اور دروازہ لاک کر لیا… آذر اس سب ڈرامے کے دوران خاموش ہی تھا وہ ہر بار خاموش ہی رہتا تھا۔
”پاپا مذاق کر رہے تھے آذر… تم جانتے ہو نا کبھی کبھی انہیں غصہ آ جاتا ہے…“ وہ آذر کا سر سہلانے لگی۔

Chapters / Baab of Hayat Mumkin Hai By Sumaira Hamed