Episode 7 - Hayat Mumkin Hai By Sumaira Hamed

قسط نمبر 7 - حیات ممکن ہے - سمیرا حمید

ان ہی دنوں شدید ذہنی دباؤ اور کمزوری و نقاہت سے وہ سٹور میں کام کرتے چکرا کر گئی ڈاکٹر سے چیک اپ کے بعد اسے سٹور کے ڈرائیور کے ساتھ گھر بھیج دیا گیا،وہ ایک بنگالی ڈرائیور تھا اور اس کے ساتھ فریال کی اچھی دعا سلام تھی۔ مروتاً چائے کیلئے وہ اسے اندر لے آئی چائے پی کر وہ جا ہی رہا تھا کہ نادر آ گیا اس نے بنگالی ڈرائیور کے سلام کا جواب بھی نہیں دیا اور فریال کو گھورتا رہا،وہ جانتی تھی اس بات پر نادر ضرور لڑے گا لیکن وہ صرف لڑا نہیں اس نے اسے جان سے مار دینے کی حد تک مارا وہ اسے زمین پر ایسے پٹخ رہا تھا جسے وہ روئی بھری گڑیا ہو۔

”مجھے یقین تھا… ذلالت دکھا دی نا! ایسے ہی تو اتنی زبان نہیں چلتی،بہت سوں کی شہ ملی ہوئی ہے نا، بہت سہارے… بہت پیسے… بہت عیش…“ اس نے اپنے وزنی جوتوں سے اس کا منہ مسلا… وہ اس کے منہ پر ایسے لاتیں مار رہا تھا جیسے ہتھوڑے سے وزنی پتھر توڑ رہا ہو… اس نے جوتوں سے اس کے منہ کو مسل ڈالا… اس کے ہونٹوں… دانتوں… گردن سے خون رسنے لگا۔

(جاری ہے)

”دیکھ آذر! اپنی ماں کے کرتوت… آج اپنے یار کو گھر لے آئی اسی لئے یہ مجھے گھر میں گھسنے نہیں دیتی… مجھے منہ نہیں لگاتی… مار اپنی جگہ… “لیکن اس کے بیٹے کے سامنے اتنا گھٹیا الزام اس پر… وہ شرم سے پانی پانی ہو گئی… توہین کے احساس سے اس کا منہ سرخ ہو گیا وہ خود کو اس کی مار سے بچا رہی تھی،ادھر ادھر چھپتی پھر رہی تھی… پھر اس نے بمشکل اٹھ کر ہر وہ چیز اس پر پھینکنی شروع کر دی جو اس کے ہاتھ میں آئی۔
”مجھے ہاتھ لگا کر دکھا نادر! اب تو…“ وہ حلق کے بل چلائی وہ آدمی کبھی بھی سیدھا ہونے والا نہیں تھا مارنا پیٹنا گالی گلوچ اس کی خوراک تھے… اور وہ ان کے بغیر ادھورا تھا،وہ پیسے سے مکمل ہوتا تھا… وہ پیسہ جو اس کی بیوی محنت سے کماتی تھی وہ اسے بیوی بنا کر نہیں لونڈی بنا کر لایا تھا… آذر کھڑا زار و قطار رو دیا تھا… فریال نے خود سے زیادہ آذر پر ترس کھایا اور کمرے تک بھاگ کر اس نے پولیس کو فون کیا،پندرہ منٹ کے اندر اندر پولیس نادر کو لے گئی۔
”بھاگ جا آذر… اس عورت کے شر سے نجات حاصل کر لے“
پولیس کے آنے کے باوجود وہ زخمی کتے کی طرح بھونک رہا تھا۔
”یہ تیرے ساتھ بھی یہی کرے گی جو میرے ساتھ کر رہی ہے یہ عام عورت نہیں ہے… یہ بدذات عورت ہے… تو صرف میرا بیٹا ہے… یہ تجھے کھا جائے گی۔“
آذر ہچکیوں سے رو رہا تھا فریال نے اسے اندر لے جانے کی کوشش کی مگر وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوا اس نے فریال کا ہاتھ جھٹک دیا اس کے باپ کو پولیس پکڑ کر لے جا رہی تھی اتنی سی اس کی زندگی میں یہ پہلا اور بہت بڑا سانحہ تھا وہ آخری منظر تھا جو اس نے دیکھا وہ آخری مار تھی جو فریال نے کھائی… گوگی کی مدد سے اس نے طلاق بھی لے لی۔
اس کا خیال تھا کہ نادر اسے تنگ کرے گا مگر ایسا نہیں ہوا ویسے بھی کورٹ کے آڈر کی وجہ سے اسے فریال سے دور ہی رہنا تھا،فریال نے اپنے گھر والوں کو بھی سب کچھ بتا دیا… صرف ایک آذر تھا جو سب کچھ نہیں جانتا تھا آذر صرف وہ جانتا تھا جو اس کے پاپا اسے بتاتے رہتے تھے۔
”تمہاری ماما کام نہیں کرتی اپنے دوستوں کے ساتھ گھومنے جاتی ہے مزے کرتی ہے۔
آخری بات جو اسے معلوم ہوئی وہ یہ تھی کہ ماما اپنا دوست گھر لے آئی تھیں جس پر پاپا ناراض ہو گئے اور ماما نے پولیس کو بلوا لیا۔ آذر نادر کو یاد کرکے رونے لگا… روتی وہ بھی تھی اس سے اپنے بیٹے کا رونا دیکھا نہیں جاتا تھا۔ پھر آذر اپنے خول میں بند ہوتا چلاگیا بہت ضرورت کے وقت ہی فریال سے بات کرتا… بدمزاج اور چڑچڑا ہو گیا… فریال سے بدتمیزی کرتا… گھر کی چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینکتا۔
”میں چاہتی ہوں نادر آذر سے ملنے آجایا کرے لیکن میرے پاس نادر کا کوئی اتا پتا ہی نہیں ہے،کیسے رابطہ کروں اس سے؟
”اتنا ہی پیار ہوتا اسے آذر سے تو خود آکر ملتا۔“
”آذر بہت اداس رہتا ہے نادر کیلئے… بہت روتا ہے۔“
”آج کا رونا کل کے رونے سے اچھا ہے۔“
”آذر کو یہ کیسے سمجھاؤں گوگی مجھ سے تو بات ہی نہیں کرتا۔
بچہ ہے سمجھ جائے گا… گوگی نے تسلی دی،فریال کیفے کی کھڑکی کے پار بھاگتی دوڑتی زندگی کو دیکھ کر رہ گئی،اب سارے پیسے،اس کے پاس ہوتے تھے اور وہ سہولت سے اپنے گھر کو چلا رہی تھی تو زندگی نے آذر کی بدتمیزی کے نام پر اسے ایک نیا دکھ دیا… اب وہ گوگی کے ساتھ کبھی کبھارآئسکریم یا کافی کیلئے کسی کیفے چلی جاتی تھی تو نادر کی جگہ آذر کو ڈسکس کرتی تھی… اس کی زندگی میں ایک آزادی آئی تھی… مار سے آزادی… اب وہ ایک نارمل انسان کی طرح زندگی گزار سکتی تھی لیکن آذر اسے نارمل رہنے نہیں دے رہا تھا،گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس کی فریال کیلئے ناپسندیدگی بڑھنے لگی،وہ اپنے چھوٹے بڑے سارے کام خود ہی کرنے لگا اپنے لئے کھانا خود بناتا اس کے بنائے کھانے کو ہاتھ بھی نہیں لگاتا تھا وہ اسے زبان سے کچھ نہیں کہتا تھا لیکن اس کی آنکھیں فریال کو بہت کچھ جتاتی تھیں۔
”تمہارے ماموں آر رہے ہیں آذر!“ اس دن وہ بہت خوش تھی بہت پہلے تو آذر نے ایسے ظاہر کیا جیسے سنا ہی نہیں پھر وہ اپنے کمرے کی طرف جاتے جاتے رک کر پلٹا۔
”پاپا ٹھیک کہتے تھے جو عورت اپنے خاندان کو اپنی اولاد پر ترجیح دیتی ہے وہ اپنی اولاد کو ڈستی ہے۔“
فریال سن ہو کر رہ گئی اسے اپنے باپ کی کہی باتیں یاد تھیں۔
آہستہ آہستہ آذر نے ضرورت کیلئے اس سے پیسے لینے بھی بند کر دیئے،وہ جو کچھ اس کیلئے خرید کر لاتی وہ ایک نظر دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔
”شاید اس کا یہ رویہ بلاوجہ نہیں…“ فریال بہت پریشان تھی۔
”لیکن نادر کا تو کچھ اتا پتا ہی نہیں کہ وہ کہاں ہے۔“”ہو سکتا ہے آذر نے اسے ڈھونڈ نکالا ہو“ فریال کئی دنوں سے یہی سوچ رہی تھی گوگی سے کہا تو اس نے بھی تائید کی۔
”آذر! تم اپنے پاپا سے ملے کبھی؟“ فریال بہت پیار سے پوچھ رہی تھی اس سے۔
”مل لیتا… اگر آپ نے ملنے کے لائق چھوڑا ہوتا۔
“ آذر نے نفرت سے کہا جیسے کسی نے اس کا زخم ادھیڑ ڈالا ہو۔ 
”آپ کی وجہ سے ان کی اتنی بدنامی ہوئی کہ انہوں نے یہ شہر ہی چھوڑ دیا آپ نے انہیں جیل بھیج دیا…“ وہ پتا ہی کرتا رہا تھا نادر کا،وہ یقینا اسے ڈھونڈتا رہا تھا۔
”مجھے مار دیتا… تب تم خوش ہوتے؟؟ ہر بار آذر سے بات کرتے وہ دکھی ہی ہو جاتی تھی اس بار زیادہ ہی ہو گئی۔“
”بری عورتوں کو مار ہی دینا چاہئے۔“ آذر نے اتنی سفاکی سے کہا جیسے اپنی ماں سے نہیں چوک پر کھڑی کسی فاحشہ سے کہہ رہا ہو۔ فریال اپنا دل تھام کر رہ گئی۔
”میں تمہاری ماں ہوں آذر! کیا غلط کیا میں نے آج تک؟؟
”کیا غلط کیا تھا پاپا نے… آپ کو روکتے ہی تھے نا… دن رات آپ باہر رہتی تھیں اپنے دوستوں کے ساتھ۔“

Chapters / Baab of Hayat Mumkin Hai By Sumaira Hamed