Episode 8 - Hayat Mumkin Hai By Sumaira Hamed

قسط نمبر 8 - حیات ممکن ہے - سمیرا حمید

”اب تم اتنے بھی بچے نہیں ہو کہ یہ نہ جان سکو کہ تمہاری ماں دوست رکھنے کی شوقین نہیں ہے۔“
”اور وہ جو صدیقی آتا ہے؟؟“
”انکل کہو انہیں… بھائی ہیں وہ میرے… ہر برے وقت میں مدد کی ہے میری انہوں نے…“
”ہونہہ… ایسے بھائی آپ جیسی بہنوں کی بہت مدد کرتے ہیں… بچہ نہیں ہوں میں…“
”ہاں تم صرف نادر کے بچے ہو۔“
”ہاں میں صرف انہی کا بیٹا ہوں… پاپا ہیں وہ میرے… آپ نے انہیں مجھ سے دور کیا…“ نادر کی طرح ہی وہ چلایا۔
”تمہاری بھلائی کیلئے کیا… تم کہاں سمجھو گے آذر آخر کو نادر کی ہی اولاد ہو۔“
آذر کے اس رویے سے وہ اتنی دل برداشتہ ہوئی کہ اس کے دل میں درد اٹھنے لگا… اس کا میڈیکل چیک اپ گوگی نے خود جا کر کروایا اور اس کی رپورٹس سے وہ تشویش میں مبتلا ہو گئی ڈاکٹر نے فریال کو سو ہدایتیں دی تھیں گوگی اس کیلئے فکر مند تھی لیکن اسے صرف ایک آذر کی فکر تھی… آذر کے رویے نے اس کے اندر گرہ باندھ دی تھی اسے اپنی بدنصیبی کا یقین ہو گیا تھا… نادر سے مار کھانے کے بعد وہ آذر کی نظر سے چھپ چھپ کر روتی تھی اور اب آذر کے لفظوں کی مار کھا کھا کر بھی وہ راتوں کو لحاف میں منہ دیئے روتی تھی۔

(جاری ہے)

آذر اس کی زندگی کا مقصد تھا اور نادر آذر کی زندگی کا مرکز۔ گوگی نے آذر کو بہت سمجھایا،ماضی کی بہت سی باتیں بتائیں لیکن اس کچی سلیٹ پر نادر پتھر کی لکریں کھینچ گیا تھا اسے صرف اپنے باپ کی کہی باتوں پر ہی یقین تھا۔
گوگی نے چاہا کہ فریال دوسری شادی کر لے لیکن فریال نے سختی سے گوگی کو انکار کر دیا… اس طرح تو آذر ہمیشہ کیلئے اس سے دور ہو جائے گا۔
”آذر تم سے دور ہو چکا ہے فریال… خود کو اور برباد مت کرو… ایک اچھی زندگی پر تمہارا بھی حق ہے… ایک ساتھی تمہیں بھی چاہئے… ایک درندے کے ساتھ زندگی گزاری ہے اب ایک انسان کے ساتھ بھی گزار کر دیکھو…“
فریال کا سرنا میں ہی ہلتا رہا
”چند سالوں بعد آذر کی اپنی زندگی ہوگی… پھر تم کیا کرو گی؟؟“
”وہی میری زندگی ہے۔
”وہ تمہیں اپنی زندگی سے نکال دینا چاہتا ہے… تمہیں نظر نہیں آ رہا وہ صرف تمہارے ساتھ وقت گزار رہا ہے…“
”میں نے شادی کا سوچا بھی تو وہ میری زندگی سے نکل جائے گا… مجھے اس کے علاوہ کسی اور کی ضرورت نہیں ہے…“
”لیکن اسے تمہارے ضرورت نہیں ہے…“
”آج نہیں ہے کل ضرور ہوگی… وہ جان جائے گا کہ اس کی ماں اس سے کتنا پیار کرتی ہے…“
”اس کی ماں اس سے کتنا پیار کرتی ہے یہ جاننے کیلئے وہ اسے چھوڑ گیا… اٹھارہ سال کا ہوتے ہی اس نے گھر چھوڑ دیا… “شاید گھر چھوڑنے کے جن انتظامات میں وہ لگا ہوا تھا وہ ہو چکے تھے فریال کے نام اس نے ایک چٹ تک لکھنا گوارا نہیں کی۔
چند دن پہلے جب وہ گھر آیا تو اس نے چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینکنی شروع کر دیں۔
”آج پاپا کو دیکھا میں نے…“وہ تنفر سے فریال کو جتا کر بولا ”اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ بہت خوش نظر آ رہے تھے،انہیں خوش ہونا ہی چاہئے… ان کی دوسری بیوی پہلی بیوی فریال جیسی جو نہیں ہے۔“
اس دن اسے معلوم ہوا کہ کوئی بھی فریال جیسا نہیں ہے سب نادر جیسے ہی ہیں۔
اور پھر آذر چلا گیا… اور دوبارہ اس سے کبھی نہیں ملا،فریال نے اپنا ہر ذریعہ استعمال کر لیا تھا مگر وہ نہیں ملا۔
چار کب کے بج چکے تھے،اسکاٹ لینڈ سے ٹرین بہت پہلے آ چکی تھی،مگر آذر نہیں آیا تھا اس نے ایک ایک کو دیکھ لیا تھا آذر نہیں تھا… ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ اس کی آنکھ سے بچ کر نکل جاتا… وہ سالوں انتظار کرنے والی آنکھیں تھیں ایسے کیسے اسے جانے دے سکتی تھیں،خود کو سنبھالتی وہ لوگوں کے رش میں چلنے لگی… کاؤنٹر تک آکر اس نے ٹرین کا پوچھا،پھر آذر کا نام لیا۔
”کیا اس نے میرے لئے کوئی پیغام چھوڑا ہے…؟؟“
کاؤنٹر مین فریال کی شکل دیکھنے لگا،ٹرینیں آ جا رہی تھیں مگر آذر نہیں آیا تھا اس نے ثانیہ کو فون کیا۔
”آنٹی آذر لندن میں ہی ہے… نظر نہیں آیا وہ آپ کو؟؟ کچھ دیر پہلے ہی اس نے مجھے فون کرکے بتایا تھا کہ وہ لندن پہنچ چکا ہے… پھر آپ کو کیوں نہیں دکھا وہ…“
”نہیں دکھا وہ مجھے…“ فریال نے اپنی ہچکی دبا کر کہا۔
”میں آذر کو فون کرتی ہوں… پھر آپ کو بتاتی ہوں۔“
فریال نے بمشکل چند منٹ انتظار کیا پھر فون کیا… فون مصروف تھا پانچ منٹ بعد… سات منٹ بعد… دس منٹ… تیرہ… وہ مسلسل فون کئے جا رہی تھی۔
”آنٹی وہ تو لندن ہی میں ہے… میرے اصرار پر بھی مجھے کچھ نہیں بتایا کہ وہ کہاں ہے… بہت جلدی میں تھا۔“
”مجھے تو وہ یہاں کہیں نظر نہیں آیا وہ کیسے یہاں آ گیا؟“
”وہ جہاز سے…“ ثانیہ کی آواز ڈوب گئی۔
”تم نے توکہا تھا وہ ٹیوب سے آ رہا ہے؟“ انہوں نے اپنی چیخ دبائی…” میں ایئر پورٹ پر اس کا انتظار کر لیتی…“ آواز ایسے ہی ٹوٹ کر نکلی جیسے وہ خود ٹوٹ چکی تھی۔
”یقین کیجئے! آذر نے مجھے یہی بتایا تھا… شاید کسی مسئلہ کی وجہ سے اسے جہاز سے آنا پڑا ہو… آنٹی آپ پلیز حوصلہ رکھیں۔“
”اب تک کیا کیا نہیں سنبھال رکھا ثانیہ… بیٹا ہی نہیں سنبھال کر رکھی سکی تو اور کیا سنبھالوں…“
”آنٹی میں شرمندہ ہوں… کاش آپ کو نہ بتایا ہوتا۔
”کاش وہ مجھے چھوڑ کر نہ گیا ہوتا ثانیہ… کاش اسے معلوم ہوتا کہ اپنے پیچھے وہ کسے لاش بننے کیلئے چھوڑ آیا ہے…“ وہ رونے لگی… بے دم سی ہو کر بے سمت چلنے لگی… اب اسے کس طرف جانا تھا… کسی طرف بھی نہیں… وہ اپنی ہر سمت کھو بیٹھی تھی… شام ہوتے ہی پرندے اپنے گھونسلوں میں واپس آتے ہیں… شام سے بہت پہلے ہی اس کا گھونسلہ اجڑ چکا تھا… اسے نہیں معلوم تھا کہ اس جیسی عورت بہت بار اجڑتی ہیں،اپنی کم ہمتی اور کم عقلی کی وجہ سے اجڑتی ہیں… نصیب کو کوستی ہیں روتی اور تڑپتی ہیں۔
”تم نہیں آئے نا آذر! چلتے چلتے وہ بڑبڑانے لگی“ایک عرصہ ہوا وہ خود سے اور آذر سے اونچی آواز میں باتیں کرنے لگی تھی،پاگل نہیں تھی… پاگل ہو ضرور گئی تھی۔
”تم سے ایک بار… صرف ایک بار ملنے کیلئے میں جہنم کی آگ میں کود سکتی ہوں… اور یہ جدائی جہنم ہی تو ہے۔ لیکن یہ جہنم کب ٹھنڈی ہوگی میرے لئے… آذر تم میرے بیٹے بنے ہی نا… تم صرف باپ کے ہی بنے رہے… میرا بیٹا نادر کا بیٹا بن گیا… آذر میرے بچے… سزا دینے سے پہلے دیکھ تو لیتے کوڑے کسے لگیں گے…؟؟“
گہری ہوتی شام میں روشنیاں ٹمٹانے لگیں… جیسے اس کی آنکھوں میں آنسو… دکھوں پر شام بھی ڈھلنے لگے تو وہ ناسور بن جاتے ہیں ایسے ناسور جو گھسیٹ کر موت کے دھانے تک لے جاتے ہیں… وہ رو رہی تھی آنسو اس کے سیاہ رنگ کے کوٹ کے کالر میں جذب ہو رہے تھے وہ دو قدم چلتی اور ایک قدم لڑکھڑا جاتی چلنے کی اس میں ہمت نہیں رہی تھی… چلتے رہنے کی اسے چاہ نہیں رہی تھی۔

Chapters / Baab of Hayat Mumkin Hai By Sumaira Hamed