Episode 3 - Hayat Mumkin Hai By Sumaira Hamed

قسط نمبر 3 - حیات ممکن ہے - سمیرا حمید

ایک عرصے سے آذر کی معمولی کارکردگی پر اسے بار بار سکول بلایا جا رہا تھا،آذر دن بدن صفر ہی ہوتا جا رہا تھا،سکول کے ہی ڈاکٹر نے آذر کیلئے نفسیاتی ڈاکٹر تجویز کیا تھا،ایک ماہ سے فریال آذر کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جا رہی تھی۔ لیکن وہ ٹھیک کیسے ہوتا… ٹھیک ہونے کیلئے اس کے ماں اور باپ دونوں کا ٹھیک ہونا ضروری تھا اور ایسا ناممکن تھا،وہ کم گو تھا لیکن گزرتے وقت نے اسے خاموش تر بنا دیا تھا… لندن میں آذر فریال کا کل اثاثہ تھا اس کا اکلوتا بیٹا…
دس سال پہلے جب فریال بیاہ کر لندن آئی تھی تو اتنی اذیت ناک زندگی کے بارے میں اسے گمان تک نہ تھا،وہ سرکاری سکول سے آٹھ جماعتیں پاس تھی،نادر اس کا دور پرے کا رشتے دار تھا چند سالوں سے وہ لندن میں ہی مقیم تھا،خاندان کی شادی کی ایک تقریب میں وہ بھی موجود تھا ان دنوں وہ لندن سے پاکستان آیا ہوا تھا،اُس نے ہی فریال سے شادی کا ارادہ ظاہر کیا تھا… کیوں؟؟ 
وہ نہیں جانتی تھی… اس وقت وہ اتنا جانتی تھی کہ وہ بے حد خوش قسمت ہے… نادر کے والدین فوت ہو چکے تھے اس کے بہن بھائی سب بچوں والے تھے ان سب میں ایک وہی لندن تک جا پہنچا تھا اور ایسا گیا تھا کہ یہاں والے اسے دیکھ دیکھ کر آہیں بھرتے تھے… خاندان کے لڑکوں کو اس کی کامیابی کی مثال دی جاتی تھی اور پھر خاندان بھر نے فریال کی قسمت کی مثالیں دینا شروع کر دی… وہ گھر میں سب سے بڑی تھی اور کڑھائی سلائی کا کام کرکے گھر کیلئے ایک معمولی سا سہارا بنی ہوئی تھی اس کے چار چھوٹے بہن بھائی سرکاری سکولوں میں پڑھتے تھے اور باپ پوسٹ آفس میں چوکیدار تھا وہ بے حد غریب نہیں تھے… صرف اتنے کہ تین وقت کا کھانا ہی سہولت سے کھا سکتے تھے۔

(جاری ہے)

اس کا نکاح ہو گیا اور وہ لندن جا رہی تھی یہ ان کے گھرانے کیلئے قارون کے خزانے کا مالک بن جانے جیسی بات تھی… اس کے ماں باپ حج اور عمرے کے خواب نہیں دیکھتے تھے اور ان کی بیٹی لندن رہنے کیلئے جا رہی تھی… ایک ایسی جگہ جہاں جانے کا ان کی ساتویں نسل بھی نہیں سوچ سکتی تھی… فریال کا مستقبل تابناک ہے اسی بات کو لے کر اس کے ماں باپ چین کی نیند سوتے تھے چھوٹے شہر کے لوگ تھے… بڑے خواب نہیں دیکھتے تھے۔
لندن میں نادر اسے ایک کمرے کے ڈربے نما گھر میں لے آیا اور دو ہی دن بعد وہ اسے دواؤں کی ایک کمپنی میں لے گیا،اس کا کام دواؤں کی پیکینگ کا تھا وہ نادر کا منہ دیکھ کر رہ گئی اس کا خیال تھا نادر اسے شہر گھومائے گا… اس طرح تیسرے ہی دن یوں کئی سو لوگوں کے درمیان کام کرنا… وہ باتھ روم میں جا جا کر روتی رہی… اسے کام کرنے یا زیادہ محنت کرنے پر اعتراض نہیں تھا اپنے چھوٹے سے شہر فیصل آباد میں بھی وہ کام ہی کرتی تھی منہ اندھیرے اٹھ کر کرتی تھی لیکن ایسے یکدم سے غیر مانوس ماحول اور بہت سارے لوگوں کے درمیان آ جانے پر وہ خود میں سمٹتی… شرمندہ ہوتی اندر ہی اندر خوفزدہ رہتی۔
خاص کر پہلے دن وہ اپنی ستاروں والی گلابی سینڈل کو دیکھ دیکھ کر شرمندہ ہوتی رہی… اور گلابی ہی رنگ کا شیفون کا سوٹ… وہ سمجھی تھی کہ نادر اسے کسی پارک میں لے کر جا رہا ہے۔
نادر اس سے اس کی ساری تنخواہ لیتا تھا،اس کیلئے وہ چند گنی چنی کھانے پکانے کی چیزیں لے آتا وہ لندن میں پاکستان سے زیادہ غربت کا سامنا کر رہی تھی۔
نادر کا کہنا تھا کہ وہ اس قرض کو ادا کر رہا ہے جو اسے لندن بلوانے کیلئے اس نے لیا تھا اور وہ قرض بہت زیادہ تھا جس کی ادائیگی کیلئے وہ بھی دن رات محنت کر رہا تھا… وہ ایک سیدھی سادھی لڑکی تھی… سولہ سے اٹھارہ گھنٹے کام کرتی تھی اپنے شوہر سے بہت پیار کرتی تھی اور لندن آ کر رہنے میں بہت خوش تھی۔
یہ خوشی شاید تاحیات قائم رہتی اور وہ نادر سے محبت کئے ہی جاتی کئے ہی جاتی اگر وہاں کام کرنے والوں میں گوگی بھی موجود نہ ہوتی،اس کی کچھ جھجک ختم ہوئی اور اس نے بولنا اور دوسروں کو سننا شروع کیا تو اسے بہت سی نئی باتوں کے بارے میں معلوم ہونا شروع ہوا… اسے سوجھ بوجھ آنے لگی… اس کی بہت سی پاکستانی اور انڈین عورتوں کے ساتھ دوستی ہو گئی تھی،گوگی سے کچھ زیادہ ہی تھی۔
”انڈیا، پاکستان… بنگلہ دیش… بہت لوگ تم جیسی بیویاں امپورٹ کرتے ہیں وہاں سے… بہت سی… بیویاں نہیں… گدھیاں… گدھی پھر کبھی دولتی مار ہی دیتی ہے یہ یہ بھی نہیں کر سکتیں… یہ نرملاہیں یوپی بہار سے… دس سال سے یہاں کام کر رہی ہے آج تک اسے کسی نے ڈھنگ کی ساڑھی میں نہیں دیکھا ہوگا… اور یہ پاکستانی گدھی نرملا سے بھی کہیں آگے ہے اس نے لندن آکر آئسکریم تک خرید کر نہیں کھائی ہوگی… یہ تو سمجھتی ہوگی کہ پونڈز خرچنے پر سزا ہوتی ہوگی… جھٹ سے پولیس آ جاتی ہوگی اور پکڑ کر لے جاتی ہوگی… کیونکہ اس کا کام ہے پونڈز کمانا نا کہ انہیں خرچ بھی کرنا…“
فریال اس کی سچائی پر افسردہ ہو گئی… ہر بار ہو جاتی تھی… گوگی کا ہی کہنا تھا کہ نادر کو اپنا شوہر سمجھو اسے اپنا آقا نہ بناؤ۔
”اسے سارے پیسے نہ دیا کرو… اپنے پاس بھی رکھا کرو…“
پہلی بار مار بھی اسے اسی بات پر پڑی تھی جب اس نے نادر کو آدھے پیسے دیئے تھے اس نے اس کی مار کھائی مگر پیسے آدھے ہی دیئے پہلی بار مشکل لگا مگر اس نے کر لیا… وہ اپنے گھر پیسے بھیجنا چاہتی تھی اس کا باپ بیمار تھا۔
”اگر وہ کماتی تھی تو اس کی کمائی پر صرف اسی کا ہی حق تھا“ یہ گوگی کا کہنا تھا،جسے وہ جلدی ہی سمجھ گئی ٹھیک دو سال بعد… ہر بار نادر اسے پیسوں کیلئے ہی مارتا،خود وہ پتا نہیں کیا کرتا تھا کبھی دنوں کیلئے غائب رہتا اور کبھی ہفتوں کیلئے،اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اس سے پوچھے کہ وہ کہاں جاتا ہے،کیا کرتا ہے… وہ اس سے ڈرتی تھی… اتنی مار کھانے کے باوجود وہ ہر نئی مار سے ڈرتی تھی… اسے نادر کی مار سے بچانے والا کوئی نہیں تھا… اور یہ بات نادر جانتا تھا،تھوڑا بہت بھی وہ اپنی دوستوں کے کہنے پر بول لیتی تھی۔
تین سال بعد جب آذر آنے والا تھا تو گوگی کے مشورے پر اس نے گھر بدل لیا۔
”ہمت ہے تمہاری… تم اس غسل خانے جتنے گھر میں رہتی ہو“
گوگی نے ہی کرائے پر گھر لے کر دیا،کچھ اپنے جمع شدہ پیسے اور کچھ اس نے گوگی سے ادھار لئے اور وہ دو کمروں کے فلیٹ میں کرائے دار بن کر آ گئی،صاف ستھرا گھر اس کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی لایا،اسے اچھا لگتا تھا اس گھر میں رہنا،تھک ہار کر سکون کا سانس لینا… حیرت انگیز طور پر نادر نے اس کے گھر بدلنے پر کوئی ہنگامہ نہیں کیا… کرتا بھی کیوں… گھر کا کرایہ بھی اسے دینا تھا اور اخراجات تو وہ پہلے سے ہی خود اٹھاتی تھی۔
”تم جیسی پاگل عورتیں ہی مردوں کو شیر بناتی ہیں“ گوگی چاہتی تھی کہ وہ نادر کو آدھے پیسے دینا بھی بند کر دے… گھر کا کرایہ… روزمرہ کے اخراجات… آذر کی ضروریات… اس کی اپنی صحت… وہ کیسے اسے آدھے پیسے دے سکتی ہے اور کیوں دے… فریال اور آذر نادر کی ذمہ داری ہیں… اگر اسے یہ ذمہ داری نہیں اٹھانی تو وہ کس حق سے فریال سے پیسے لیتا ہے… لیکن فریال اسے پیسے دیتی رہی… وہ بار بار اسے یہی دھمکی دیتا تھا کہ وہ اسے پاکستان واپس بھیج دے گا،وہ پاکستان جانے سے ڈرتی تھی… یہاں تو وہ پھر بھی اچھا خاصا کما لیتی تھی گھر بھی پیسے بھیج دیتی تھی وہاں وہ کیا کما سکتی تھی وہی دو ڈھائی ہزار مہینے کے۔
نادر اس کے گھر میں چھپا کر رکھے پیسے بھی نکال کر لے جاتا تھا اسے یہ پروا بھی نہیں تھی کہ وہ اکیلی گھر چلاتی ہے بچے کو پال رہی ہے۔

Chapters / Baab of Hayat Mumkin Hai By Sumaira Hamed