Episode 10 - Hayat Mumkin Hai By Sumaira Hamed

قسط نمبر 10 - حیات ممکن ہے - سمیرا حمید

”تم اسے لے کر پاکستان چلی جاؤ،گوگی نے مشورہ دیا۔“
”کس کے پاس… اپنے ماموں… نانا نانی سے وہ ملے بغیر ہی اتنی نفرت کرتا ہے… انہیں برا بھلا کہتا ہے… وہ ان سے کیوں ملے گا… اسے بس نادر ہی چاہئے۔“
”تو بھیج دو اسے نادر کے پاس… چار دن رہے گا اس کے ساتھ تو سب سمجھ جائے گا… ڈھونڈو اسے… کہو سنبھالے اپنا بچہ… دونوں نے تمہارا جینا حرام کئے رکھا…“
نادر کہیں ملتا تو وہ کچھ کرتی… بیوی کے نام پر وہ ماں بنی اور ماں کے نام پر گناہ گار… بدکردار۔
”آذر مجھے نادر کی نظروں سے دیکھتا ہے گوگی! تنفر اور حقارت سے… مجھ جیسی ماں سے پوچھو اولاد کی نفرت کا دکھ،پہلے باپ مارتا تھا اب بیٹا لفظوں کی مار مارتا ہے،کوئی ایک بھی میرے لئے دوا نہ بنا… وہ مجھ سے محبت نہ کرے مگر میرا احترام ہی کر لے… میرا خیال نہیں رکھ سکتا اپنا ہی رکھنے دیں… وہ مجھے ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتا جس کیلئے میں نے اپنے دو ہاتھوں سے رات دن کام کیا… اس سرد ملک میں تنہا رہی… وہ محبت نہیں کر سکتا تو نفرت بھی کیوں کر رہا ہے گوگی… کیا نہیں کیا اس کیلئے… اولاد کیلئے جو ایک ماں کرتی ہے اس سے زیادہ ہی… میری قسمت ایسی کیوں ہے گوگی… اتنے پہاڑ میرے لئے… کیا میں اتنے دکھ اٹھانے کے ہی لائق تھی… کوئی سکھ… کوئی آرام میرے لئے کیوں نہیں بنا… ماں باپ نے شادی کی میں نے کرلی… نادر برا نکلا میں نے برداشت کر لیا… آذر برا بن رہا تھا میں یہ برداشت نہیں کر سکی… میں نے کیا برا کیا… سب آذر کیلئے ہی چاہا…“
”یہ سب تمہاری کمزوریوں کا انجام ہے فریال… عورت میں اتنی ہمت تو ہونی چاہئے کہ وہ بگڑی بات کو سنوار سکے… تم قسمت کو کوس رہی ہو… میں تمہاری بزدلی کو کوسونگی… تم نے اپنے ڈر اور خوف سے نجات حاصل کی ہی نہیں…“
”ساری عمر ڈرتی رہی ہوں سب سے… پہلے اپنے باپ سے پھر شوہر سے پھر طلاق سے… اب آذر سے… اس کی نفرت سے… اس کی حقارت سے… مجھے تو سب سے ڈرنا ہی سکھایا ہے نا کیونکہ سب مجھے خوفزدہ ہی کئے رکھتے تھے۔

(جاری ہے)

”جہاں ڈرنا سیکھا ہے… کچھ اور بھی سیکھ لو… تمہیں کوئی ہرا نہیں سکتا ہارتی تو تم خود ہو… جب تم خود اپنی زندگی تبدیل نہیں کر سکتی تو تبدیلی کی خواہاں کیوں ہو… تم جیسی عورتوں کو پھر صابر و شاکر ہی رہ کر ثواب کمانا چاہئے… کیونکہ اس کے علاوہ تم کچھ اور کر نہیں سکتی… کتنے اچھے شخص کا انتخاب کیا تھا میں نے تمہارے لئے… تمہاری ناں ہاں میں نہیں بدلی… تمہاری ساری ضد صرف خود کی زندگی برباد کرنے تک ہی محدود رہی… ایک بار تم ٹھان لیتی کہ تمہیں اپنی زندگی کو سنوارنا ہے تو آج تم اس طرح سے نہ رو رہی ہوتی۔
روتے روتے چلتی وہ ایک پارک میں آکر بیٹھ گئی،پارک میں اِکا دُکا لوگ ہی تھے… نومبر کی ٹھنڈ میں لوگ اپنے گرم گھروں میں مزے کر رہے تھے… ایسے گھر جہاں بچوں کا پیار ہوتا ہے اور ماں باپ کا احترام… ایسے گھر جہاں تکراریں تو ضرور ہوتی ہیں لیکن فساد نہیں ہوتے… پھر ایسے گھروں سے نکلنے والے لوگوں کی آنکھیں خوشی سے جگمگاتی ہیں اور ہونٹ مسکراہٹوں سے ایسے گھر جہاں بگاڑ سربراہ سے شروع نہیں ہوتا تو انجام بھی نادر جیسا نہیں ہوتا۔
###
آذر سولہ سال کا ہوا تو فریال سے چھوٹا بھائی نعمان لندن پڑھنے اور کام کرنے کیلئے آیا… نعمان پڑھنے لکھنے میں بہت ذہین تھا اور اسے امریکن یونیورسٹی سے سکالر شپ مل رہا تھا،لیکن صرف فریال کیلئے وہ لندن آ گیا وہ چاہتا تھا کہ وہ اپنی بن کے پاس رہے،اس کی زندگی کے سب دکھوں سے تو وہ واقف نہیں تھے ہاں اتنا ضرور جانتے تھے کہ وہ اکیلی ایک مشکل زندگی گزار رہی ہے۔
ایئر پورٹ سے وہ فریال کے گھر ہی آیا تھا،فریال نعمان کے آنے پر بہت خوشی تھی،ایک طویل مدت کے بعد وہ کسی سے ملنے والی تھی کسی بہت اپنے سے… لیکن آذر کو یہ بات پسند نہیں تھی وہ کھیلنے کے بعد باہر سے آیا تو اتنی نفرت سے نعمان کی طرف دیکھا کہ وہ اٹھ کر اسے پیار بھی نہیں کر سکا… اپنے کمرے میں جا کر اس نے چیزیں پھینکنی شروع کر دی۔ نعمان سب سمجھ ہی گیا فریال گہری سانس لے کر رہ گئی… یہ مغرب ہے… یہاں کے بچے… وہ اتنا ہی کہہ سکی
 ”وجہ مشرق و مغرب نہیں ہے آپی…“ اس نے بھی اتنا ہی کہا فریال نے نعمان کیلئے اپنا کمرہ سیٹ کر دیا تھا… خود وہ لاؤنج میں سو سکتی تھی… وہ اب اپنے بھائی کے ساتھ رہنا چاہتی تھی وہ اس سے دکھ سکھ کی باتیں کرنا چاہتی تھی وہ اب اکیلے کھانا… بیٹھنا… ٹی وی دیکھنا نہیں چاہتی تھی… وہ بھی چاہتی تھی کہ وہ گھر آئے تو کوئی اس کے ساتھ بات کرنے والا ہو اور نہیں تو اسے اٹھ کر ایک گلاس پانی ہی پلانے والا ہو… لیکن ایسا نہیں ہوا… نعمان اس کے ساتھ رہنے ہی آیا تھا لیکن پھر اس نے اپنا ارادہ بدل دیا وہ اسی رات،کھانا کھا کر اپنے دوست کے پاس چلا گیا۔
”یہ شخص دوبارہ اس گھر میں نہیں آئے گا“ نعمان کے جاتے ہی آذر چلانے لگا۔
”وہ تمہارے ماموں ہیں“ اس نے تحمل سے کہا۔
”وہ صرف آپ کے بھائی ہیں“ اس نے انگلی اٹھا کر کہا۔
”کچھ تو ادب و لحاظ کرو آذر اپنے سگے رشتوں کا… تمہارے پاس کتنے بہانے ہیں مجھے دکھ دینے کے…؟؟
”میرے سگے باپ کا لحاظ کیا تھا آپ نے… دکھ تو میں نے کوئی آپ کو دیا ہی نہیں… میں آپ کو دکھ ہی دینا نہیں چاہتا۔
”سیدھے سیدھے اپنی ماں کا گلا گھونٹ دو آذر… تم پر میرا خون معاف ہے… میں تنگ آ گئی ہوں اپنی زندگی سے… کوئی بھی مجھ پر رحم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے…؟؟
”رحم کرنے والوں پر رحم کیا جاتا ہے…“ آذر کا منہ ایسے بگڑ گیا جیسے اس نے غلاظت کے ڈھیر پر نظر ڈال لی ہو…
نعمان آذر کی موجودگی میں پھر نہیں آیا… ویسے ہی تعلیم کے علاو وہ رات دن کام کرتا تھا،اسے اپنی دو بہنوں کی شادی کرنی تھی وہ اتنا مضبوط ہونا چاہتا تھا کہ پھر اس کی کسی بہن کو نادر نہ مل سکے۔
گزرتے وقت نے فریال کیلئے کچھ نہیں بدلا،خوشی و سکون کا کوئی لمحہ اسے نصیب نہیں ہوا،جاتے ہوئے آذر اپنے کمرے میں لگی نادر کی تصویر ہی لے کر گیا تھا بس۔

Chapters / Baab of Hayat Mumkin Hai By Sumaira Hamed