Episode 13 - Hayat Mumkin Hai By Sumaira Hamed

قسط نمبر 13 - حیات ممکن ہے - سمیرا حمید

”کتنا انتظار اور ثانیہ…‘ وہ رونے لگی“ کر سکتی تو کر لیتی“
”وہ میری کوئی بات نہیں سنتا آنٹی… آپ یہاں آئیں گی تو مایوس ہی ہونگی…“
”مجھے آ لینے دو ثانیہ…“
”وہ گھر شفٹ کر رہا ہے…“
”تم مجھے نئے گھر کا ایڈریس دے دینا…“
”وہ جان جائے گا کہ میں نے دیا ہے… آنٹی میرے لئے بہت بڑا مسئلہ ہو جائے گا… آذر پاگل ہو جائے گا… پھر وہ کسی کی نہیں سنے گا…“
”میں اس کیلئے پاگل ہو گئی ہوں… کچھ میرا خیال بھی کرو ثانیہ…“
”مجھے آپ سے دلی ہمدردی ہے آنٹی… تھوڑا سا اور انتظار کر لیں… شاید وہ ایک بار ہی سہی آپ سے ملنے کیلئے تیار ہو ہی جائے۔
”اگر وہ نہ ہوا تو…“
”خدا کیلئے آنٹی ایسے مت کہیں…“ اس کے انداز پر ثانیہ خود کانپ کر رہ گئی… اس عورت کا لفظ لفظ گواہی دے رہا تھا کہ بس اب بہت ہوئی اس کے ساتھ… اب بس کرو اس کے ساتھ…
آذر نے گھر شفٹ کر لیا… ثانیہ کو اس نے سختی سے تاکید کی تھی کہ اس کی ماں کے نام پر اگر کوئی عورت اسے فون کرے تو ہرگز بات نہ کرے… لیکن ثانیہ پھر بھی کبھی کبھار چپکے سے فریال سے فون پر بات کر لیتی تھی… فریال کا ہر سوال آذر سے متعلق ہی ہوتا تھا اور ثانیہ ان ہزاروں سوالوں کے جواب خندہ پیشانی سے دیتی تھی… اور پھر دل ہی دل میں دعا کرتی تھی کہ خدا کسی بھی محبت پر ایسا زوال نہ لائے… جو انسانی وجود کے کھنڈرات میں تعفن چھوڑ کر اسے مردار سے بدتر بنا دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

فریال ہمہ وقت ثانیہ کے ہی فون کے انتظار میں رہتی… ثانیہ اس کیلئے ایک فرشتہ تھی جو اسے آذر سے متعلق ایک ایک بات بتا دیتی تھی… اور آج ٹھیک تین ماہ بعد اس نے فون کرکے آذر کے لندن آنے کا بتایا تھا… جرمنی سے دو دن پہلے وہ اسکاٹ لینڈ آیا تھا آج اسے لندن آنا تھا… دو دن ثانیہ اسی الجھن میں رہی کہ وہ آیا وہ فریال کو بتا دے یا نہیں،اسے ڈر تھا کہ اس کی یہ اتنی سی غلطی کسی بڑے طوفان کو دعوت نہ دے ڈالے… وہ سب کی زندگیاں برباد نہ کر ڈالے،وہ اپنی ماں کا نام بھی سننا گوارا نہیں کرتا تھا وہ یہ جان گئی تھی وہ ان سے ملے گا کیسے… یہ بات فریال نہیں سمجھ رہی تھی… اس نے چاہا کہ وہ ایک نیکی تو کر ہی سکتی ہے… کہ وہ اسے دور سے ہی دیکھ لیں… ان کیلئے شاید اتنا ہی کافی ہو…
دیکھ لینے کا سکھ بھی فریال کو نہیں مل سکا… وہ لندن آیا مگر وہ نہ اسے دیکھ سکی،نہ ہی اس کے ساتھ لپٹ سکی… اسے نظر آنے والے سارے خواب جھوٹے ہی تھے… بے شک ان کی تعبیریں اس نے اپنی من پسند نکالی تھیں،شام رات میں ڈھل چکی تھی… وہ پارک میں ایک ہی انداز سے بت بنی بیٹھی تھی جیسے اب اسے صرف زمین بوس ہی ہونا ہے۔
اپنی سرخ آنکھوں کو رگڑتی ہوئی وہ اٹھی اور پارک سے باہر آ گئی… آج اس نے پہلی بار سوچا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے… اسے مرنا ہے… اس جیسے لوگوں کیلئے موت سے بڑھ کر اور کیا سکھ ہوگا… ایسے لوگ جو نہ زمین پر چل سکتے ہیں نا ہی ہوا میں تیر سکتے ہیں… یہ وہی لوگ جن کا سب کچھ ختم ہو چکا ہوتا ہے… مایوس کن مردہ امیدیں بھی… جن میں وہ خود سانس پھونکتے ہیں کہ انہی کے سہارے تو وہ زندہ ہیں… جب وہ حقیقت جان لیتے ہیں تو ان مردہ ہوتی امیدوں میں اور سانسیں نہیں پھونکتے…
وہ ڈگمگا رہی تھی… برداشت کی ہر حد پھلانگی جا چکی تھی… آس پاس کے مناظر گڈ مڈ ہو رہے تھے… فٹ پاتھ اس کے قدموں تلے سے کھسک رہا تھا… اس نے سہارے کیلئے ہاتھ لہرایا… پھر اس کے لاشعور نے اسے عبث جانا… بنا سہارے کے وہ فٹ پاتھ سے سڑک پر دھڑام سے چکرا کر گری… بہت دیر سے گری…
لندن کی اٹھائیس سالہ زندگی اس کی پشت پر آن کھڑی ہوئی… اسے … دینے کیلئے نہیں… افسوس و ملال کی تصویر بنے… اس پر ملامت کرنے کیلئے۔
آس پاس چلنے والے لپک کر اس کے قریب آئے… دکھوں کے عجیب انداز ہوتے ہیں۔ وہ آپ کو تہس نہس کر دیتے ہیں۔
###

Chapters / Baab of Hayat Mumkin Hai By Sumaira Hamed