Episode 4 - Hayat Mumkin Hai By Sumaira Hamed

قسط نمبر 4 - حیات ممکن ہے - سمیرا حمید

ایک دن پاکستان سے اس کے گھر والوں کا فون آیا،ان کا کہنا تھا کہ نادر کی پاکستان میں موجودگی کی اڑتی اڑتی خبر ان تک پہنچی ہے،نادر مہینے سے غائب تھا وہ اسے کام کے سلسلے میں دوسرے شہر جانے کا بتا کر گیا تھا۔
”اڑتی اڑتی خبر سچ بھی ہو سکتی ہے،گوگی کو اڑتی اڑتی خبر پر یقین تھا۔
”لیکن وہ پاکستان جائے گا کیوں؟“ فریال کو یقین نہیں آ رہا تھا۔
”تمہاری طرح کی ایک اور لینے“ گوگی سنجیدہ تھی ”ایک اور بنک اکاؤنٹ کھلوانے… آمدنی کا ایک نیا ذریعہ لینے… تم تو کاٹھ کے الو سے بھی گئی گزری ہو…“
”ایسا نہیں ہو سکتا…“ اسے گوگی سے شدید اختلاف ہوا،لڑائی مار کٹائی اپنی جگہ اب نادر ایسا بھی نہیں تھا۔ اس نے اپنے گھر والوں سے کہہ دیا کہ نادر یہیں ہے ایسے ہی کسی نے خبر اڑا دی ہے وہ پریشان نہ ہوں… سب ٹھیک ہے۔

(جاری ہے)

”اپنے گھر والوں سے کہو! وہاں پتا کریں… وہ وہیں ہے مجھے یقین ہے۔“
”ابا بیما رہتے ہیں میں انہیں پریشان کرنا نہیں چاہتی۔“
”پھر خود ٹکٹ کٹواؤ اور جاؤ“ گوگی کو غصہ آ گیا۔
وہ اتنی سمجھ دار اور ہمت والی ہوتی تو اب تک نادر کی بیوی نہ ہوتی۔
نادر آیا تو اس نے اس سے پوچھا۔
”پاگل تو نہیں تمہارے گھر والے… مجھے کیا ضرورت تھی پاکستان جانے کی؟؟“
فریال پاگل ایک ہی دھاڑ سے چپ کر گئی۔
”اس کا پاسپورٹ دیکھنا تھا… دیکھا؟؟ گوگی پوچھ رہی تھی۔
”وہ تو اسی کے پاس ہوتا ہے… میں کیسے دیکھتی“
کہہ دیتی لاؤ پاسپورٹ دکھاؤ… ابھی سب صاف ہو جاتا۔
”لیکن تمہیں تو ٹھیک سے پاسپورٹ بھی نہیں پڑھنا آتا نا… اس کے جوتے ٹھیک ٹھیک کھا لیتی ہو…“
فریال کا منہ اتر گیا۔
”پھر چل کر اپنا پرانا ڈربہ چیک کرو…“ گوگی نے نہ صرف مشورہ دیا بلکہ اسے ساتھ لے کر بھی گئی۔
اس ڈربے میں واقعی ایک اور مرغی موجود تھی،انتہائی سادہ اور سہمی ہوئی… چند دن پہلے ہی وہاں آئی تھی۔
”نادر کون ہے تمہارا؟؟ گوگی نے بہت پیار سے پوچھا وہ بے چاری دو ہم وطنوں کو دیکھ کر کھل اٹھی۔“
”شوہر“
”آں…“ گوگی ہکلائی، فریال کے سر پر بم پھٹکا
”ہمارا مت بتانا بہنا… ہم یہاں پہلے کرائے دار تھے اس لئے نادر کو جانتے ہیں“ گوگی نے بچی کے گالوں پر چٹکی بھری،اٹھارہ انیس سال کی وہ بچی ہی تھی بول ایسے رہی تھی جیسے بس ابھی رونے لگے گی۔
”کہا تھا نا تمہیں فریال…“ باہر نکلتے ہی گوگی نے تاسف سے اس کی طرف دیکھا… وہ اپنی گیلی آنکھوں کو گوگی سے چھپا رہی تھی ڈربے میں نادر کی نئی بیوی کو دیکھ آئی تھی۔ ایک اور نئی فریال کو۔
###
”تم پاکستان سے ایک اور بیوی لائے ہو؟؟ دو دن بعد جب وہ گھر آیا تو فریال نے اس کے بیٹھنے کا انتظار بھی نہیں کیا،اس بات پر وہ ذرا دیر تک خاموش ہی رہا۔
”بیوی نہیں ہے میری… میرے دوست کی رشتے دار ہے… اسے یہاں کام کرنا تھا… اسے گائیڈ کیا بس… غریب ہے۔ بہن بھائیوں کی واحد کفیل ہے… میں نے تو مدد کی ہے اس کی…“ تین چار اور ایسی ہی باتیں سنا کر وہ سونے چلا گیا فریال جاگتی رہی کچھ اطمینان ہوا تھا پر نیند پھر بھی نہ آئی۔
”او پاگل لڑکی! اس بچی کی شکل یاد کر… وہ تجھے لگتی ہے برطانیہ آکر کام کرنے والی… وہ تو شاید کبھی اپنے گھر سے باہر نہیں نکلی ہوگی… پھر اس نے اپنے منہ سے کہا کہ نادر اس کا شوہر ہے…
”نادر کہتا ہے وہ جھوٹ بولتی ہے…“
”ہاں صرف نادر ہی سچ بولتا ہے…“ گوگی نے اسے بہت سمجھایا بلکہ بھرکایا کہ پولیس کو بتائے مگر اس میں سچ کو قبول کرنے کا حوصلہ نہیں تھا وہ خود کو دھوکا ہی دینا چاہتی تھی وہ ایک نازک عورت تھی اسے یہ گمان ہی پیارا تھا کہ نادر ہی ٹھیک کہہ رہا ہے اور باقی سب غلط فہمی ہے… وہ کٹی پھٹی تصویر کو فریم کے اندر ہی رکھنا چاہتی تھی اس فریم کو گھر کی دیوار پر سجا رہنے دینا چاہتی تھی اس میں تصویر بدل لینے کا حوصلہ نہیں تھا،وہ ہمت و حوصلے کے نام سے ہی واقف نہیں تھی وہ ایک بند عورت تھی ایک ہی دائرے میں گول گول گھومنے والی عورت…
”جس عورت کے ساتھ دھوکا ہوتا ہے نا اس دھوکے میں آدھی وہ خود شریک ہوتی ہے،جو لوگ اپنا دماغ استعمال نہیں کرتے وہ کفران نعمت کرتے ہیں… عذاب صرف برے لوگوں کو ہی نہیں ملنا چاہئے… انہیں بھی ملنا چاہئے جو برے لوگوں کو شہ دیتے ہیں… تھپڑ مارنے والے اور تھپڑ کھانے والے دونوں کو برابر کی سزا ملنی چاہئے۔
کچھ دنوں تک نادر باقاعدگی سے آتا رہا گھر… فریال سے اچھی طرح بات کرتا… اسے ایک بار گھمانے لے گیا ساتھ،گھر کے ماحول اور فریال کے دل پر جادو اثر ہوا وہ پھر سے نادر کی محبت میں ڈوب گئی اس نے خود کو کوسا کہ وہ کیا کیا سوچتی اور کہتی رہی ہے اپنے محبوب شوہر کو… اسے معلوم ہوا کہ وہ تو اس سے بے انتہا محبت کرتا ہے… آذر بھی بہت خوش تھا،نادر اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزار رہا تھا اسے اور کیا چاہئے تھا۔
خواب آخر خواب ہی ہوتے ہیں خاص کر وہ جو حقیقی زندگی میں در آئیں… نادر کی محبت کا خواب جو فریال حقیقی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی بہت جلدی اور بہت بری طرح سے ٹوٹا… چند ہی ہفتوں بعد اس کی پرانی ڈگر لوٹ آئی فریال اس کی زندگی میں ایک ملازمہ سے بڑھ کر نہیں تھی وہ وجہ بے وجہ فریال کو خوفزدہ کئے رکھنا چاہتا تھا اور اس میں کامیاب بھی تھا۔
آذر بڑا ہو رہا تھا اور فریال نہیں چاہتی تھی کہ اس کے سامنے کوئی فساد ہو،وہ اس کا واحد اثاثہ تھا اسے اس کی تعلیم کیلئے اس ملک میں رہنا تھا وہ اپنے بچے کو غربت میں واپس لے جانا نہیں چاہتی تھی… وہ ڈبل ڈبل کام کرتی تھی… ہفتے کے پانچ دن دوائیوں کی کمپنی میں اور ہفتہ اتوار ایک شاپنگ سنٹر کے سٹور میں،جہاں اس کا کام صفائی کا تھا،گھر میں اس کے بہن بھائی بڑے ہو رہے تھے ان کیلئے اسے الگ سے محنت کرنا پڑتی،ان کا مستقبل بھی فریال کے ہی ہاتھوں میں تھا وہ محنت اور ذمہ داریوں سے گھبراتی نہیں تھی لیکن آذر کی طرف سے اسے ایک خاص دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کہیں وہ پاگل نہ ہو جائے یا ڈپریشن میں نشہ نہ کرنے لگے… وہ جانتی تھی اس کے آس پاس کیا ہو رہا ہے… اور اس سب سے ہی وہ خوفزدہ تھی۔

Chapters / Baab of Hayat Mumkin Hai By Sumaira Hamed