Episode 12 - Hayat Mumkin Hai By Sumaira Hamed

قسط نمبر 12 - حیات ممکن ہے - سمیرا حمید

”میں اس کی نہیں ہونگی لیکن وہ صرف میرا ہی ہے… خدا سے پوچھ لو… اس کیلئے خدا نے مجھے منتخب کیا… خدا نے اسے مجھے دیا… وہ میرا ہے روز حشر اسے میرے نام سے پکارا جائے گا۔“
”آپی کس حشر کی بات کر رہی ہیں… اس حشر سے بڑھ کر اور کیا حشر ہوگا… اس کا نام لے لے کر آپ دیوانی ہو چکی ہیں… اگر آپ کی شادی ایک غلط فیصلہ ہو ہی چکا تھا تو آپ اس فیصلے کی اتنے عرصے تک کیوں پابند رہیں…؟ چھوڑا کیوں نہیں اسے… آذر کو لے کر آپ پاکستان آ جاتیں۔
”اتنے فیصلے کرنا مجھے کب کسی نے سکھایا تھا نعمان…؟؟ابو نے… امی نے… خاندان نے… کس نے سکھایا تھا مجھے کہ کیسے فیصلے کرنے ہیں… غلط کو درست کیسے کرنا ہے۔ مجھے کیا معلوم… میں تو قمیضوں اور شلواروں کو ادھیڑ کر دوبارہ سینا جانتی تھی… جلے ہوئے سالن کی بو ختم کرنا جانتی تھی… تھوڑے پیسوں میں بچت کیسے کی جاتی ہے اور دروازے کی اوٹ میں چھپے کھڑے رہ کر باہر سے سودا سلف کیسے منگوانا ہے،بس یہی سب سیکھا کر تم پوچھ رہے ہو میں نے نادر کو اپنی زندگی سے نکال باہر کیوں نہیں کیا… کر دیتی اگر اتنی ہمت ہوتی… یہی سوچا کہ پھر خاندان میں میری بہنوں سے شادی کون کرے گا… نادر نے کتنا زہر اگلا میرے خلاف اپنے خاندان میں… اسی سب سے ڈرتی تھی… میرا بیٹا مجھے بدچلن ثابت کر گیا… اب تم کن فیصلوں کی بات کر رہے ہو اب تو سارے فیصلے خدا کے ہی ہاتھ میں ہیں۔

(جاری ہے)

”معاشرے کو ہم ہی نے بدلنا ہے آپی… نعمان اس کی ایک ایک بات سے متفق تھا۔
”میری تو زندگی ہی بدل گئی نعمان… میری زندگی نے اتنے رخ بدلے ہیں کہ کسی رخ بھی اب منزل دکھائی نہیں دیتی مامتا سے مجبور ہوں ورنہ پل پل مرنا نہیں چاہتی اپنا گلا کاٹ لینا چاہتی ہوں… مامتا کا گلا گھونٹ جو نہیں سکی۔“
”آذر بہت پچھتائے گا…“
”میں اسے یہ بددعا بھی نہیں دے سکتی کہ وہ پچھتائے… اسے یہ احساس ہو کہ اس نے میرے ساتھ کیا کیا… جس دن اسے یہ احساس ہوا وہ پل پل شرمندہ ہوگا… مجھے میرا آذر شرمندہ نہیں چاہئے…“
جیسے تیسے کچھ ہی عرصے بعد فریال نے رقم کی مکمل ادائیگی کر دی… گاہے بگاہے اسے مختلف خبریں ملنے لگی… وہ جرمنی میں تھا،اپنی بیوی ثانیہ… اور ایک آٹھ ماہ کی بچی ثمل کے ساتھ… وہ ایک فلیٹ میں رہتا تھا… فریال کو فون نمبر اور گھر کا ایڈریس دے دیا گیا… فون نمبر اور ایڈریس ملتے ہی وہ اپنا دل تھام کر رہ گئی… اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ آذر مل چکا ہے… اس کا آذر … اسے ہمیشہ کیلئے چھوڑ جانے والا آذر … اس کا اکلوتا بیٹا۔
چھ سال اور چند ماہ بعد آذر اسے مل چکا تھا… فون نمبر ہاتھ میں لئے وہ دیر تک روتی رہی… ایک ماں کی اپنے بیٹے تک رسائی اتنی اذیت ناک ہوگی… ایسی بددعا کسی ماں کو نہ ملے… ایسی بددعا کوئی اولاد نہ بنے۔
فریال نے فون کیا… یہ گھر کا لینڈ لائن نمبر تھا۔
”آذر…“ ہیلو کہنے والے آذر کی آواز سنتے ہی وہ ہچکیاں دبا کر بمشکل بولی۔
”کون…“ اس کی پھنسی پھنسی آواز وہ پہچان نہیں سکا تھا۔
”تمہاری ماں…“ وہ اتنا ہی کہہ سکی۔
”میری کوئی ماں نہیں…“ اس نے فون بند کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں کی… اتنے سال بعد بھی وہ ویسا ہی تھا… وہ تو اپنی ماں کی شکل بھی بھول گیا ہوگا آواز کیسے پہچان لیتا محبت… کرتا تو یاد رکھتا۔
ساری رات… اگلا سارا دن وہ فون پر فون کرتی رہی مگر اس نے پھر فون نہیں اٹھایا… وہ کچھ دیر آرام کر تی ،پھر نعمان اس کی جگہ فون کرنے لگتا… لیکن فریال کو قرار نہیں تھا… وہ بھوکی پیاسی فون کے ساتھ چپکی رہی… روتی رہی… دعائیں کرتی رہی… لیکن نہ آذر نے اس کی تڑپ محسوس کی نہ ہی اس کا رونا سنا… وہ فریال نامی عورت سے جی بھر کر نفرت کرتا رہا،فریال کے پاس مزید ایک پاؤنڈ نہیں تھا کہ وہ جرمنی جا سکتی،وہ سب سے ادھار لے چکی تھی،نعمان اپنی آپی کو انکار نہیں کرتا تھا مگر اس نے اپنا سب کچھ ارسہ اور نمرہ کی شادیوں پر لگا دیا تھا چند ماہ بیشتر اس نے سادگی سے برطانیہ رہنے والی ایک پاکستانی نژاد لڑکی ارم سے نکاح کر لیا تھا،وہ دونوں فریال کے سامنے والے فلیٹ میں رہتے تھے جو کچھ تھا فریال کے سامنے ہی تھا اس نے فریال سے کچھ چھپا کر الگ نہیں رکھا تھا۔
وہ نعمان کے سامنے رو رہی تھی۔
”کسی بھی طرح مجھے جرمنی بھیج دو… اپنے گھر سے دھکے دے کر نکال تو نہیں دے گا نا… پھر تو اسے مجھ سے ملنا ہی ہوگا۔ پھر وہ میری ضرور سنے گا… ورنہ میں اس کے دھکے ہی کھا آؤنگی… مجھے قرار آ جائے گا نعمان… کچھ کرو میرے لئے…“ وہ ہاتھ جوڑے بیٹھی تھی۔
نعمان نے اپنا سب کچھ نکال کر اپنی بہن کے سامنے رکھ دیا… اپنی گھڑی… لیپ ٹاپ… ارم کے گولڈ کے ایئر رنگز… جو جو کچھ بک سکتا تھا سب کا سب…
نعمان اس کے جرمنی جانے کا انتظام کرنے لگا،اس دوران وہ مسلسل اس کے گھر فون کرتی رہی… اس کی آواز سنتے ہی فون بند کر دیا جاتا… ایک دن ثانیہ نے فون اٹھایا۔
”آپ آذر کی ماما ہیں…“ وہ خود سے ہی پوچھنے لگی آذر آفس تھا اور ثانیہ فریال سے بات کر رہی تھی۔
”آذر نے کبھی آپ کا ذکر نہیں کیا… وہ سختی سے مجھے منع کرتا ہے آپ سے متعلق کوئی بھی بات کرنے سے…“ ثانیہ بہت نرم لہجے میں فریال سے مخاطب تھی۔
فریال ثانیہ کی منت کرنے لگی وہ کسی طرح آذر کو سمجھا دے،وہ رو رو کر اسے اپنا حال بتا رہی تھی… اس نے یقین کیا یا نہیں مگر وہ خاموشی سے سنتی رہی۔
”آپ کی وجہ سے وہ یہ گھر شفٹ کر رہا ہے آنٹی…!“
”کب…“ فریال کا دم نکل گیا… آذر پھر سے کھونے لگا۔
”آج کل میں…“
”میں جرمنی آ رہی ہوں ثانیہ…“
”ابھی مت آئیں آنٹی… میں کوشش کرتی ہوں آذر کو منانے اور سمجھانے کی… اس وقت تک تھوڑا انتظار کر لیں۔“

Chapters / Baab of Hayat Mumkin Hai By Sumaira Hamed